بہار تجھ پے نثار کر دوں

Pakistan

Pakistan

تحریر : شاہ بانو میر

میرے وطن میرے بس میں ہو تو تیری حفاظت کروں میں ایسے
خزاں سے تجھ کو بچا کے رکھوں بہار تجھ پے نثار کر دوں

ھارون الرشید صاحب اعلیٰ صحافی میرے پسندیدہ بھی ہیں
وہ کہ رہے تھے
“”عمران خان اور اس کے حواری جانتے ہیں
کہ
وہ یہ الکیشن نہیں جیتے
اس لئے زیادہ خوش ہونے کی ضرورت نہیں
جیت میں ان کا کوئی کمال نہیں””

الیکشن ہو چکے تھے مگر میں تصدیق کیلئے ھارون الرشید کا تجزیہ سننا چاہتی تھی
تبدیلی آگئی
جی ہاں میری زندگی میں تبدیلی آگئی
قرآن پاک کی کلاسسز اور احادیث کے ساتھ ساتھ دیگر دینی علوم حاصل کرنے کیلیۓ مکمل یکسوئی کی ضرورت ہوتی ہے
صراط المستقیم سیدھا راستہ
مگر
یہ پاکستان مجھے ہمیشہ کسی نہ کسی طرح موڑ دیتا ہے
اس کے مسائل مجھے ذیلی پگڈنڈی پر ڈال دیتے ہیں
اور
میں سبق چھوڑ کر اللہ سے توبہ بھی کرتی جاتی ہوں
استغفار بھی کرتی ہوں اور پھر لکھنے بیٹھ جاتی تھی
ضمیر اور دل میں بغاوت رہتی تھی مگر فیصلہ کرنے سے قاصر تھی
الحمد للہ
ھارون صاحب کے اس تجزیے نے سارے دلدر دور کر دیے
اور
فیصلہ ہو گیا
ثمہ الحمد للہ ٹی وی دیکھنا ختم ہو گیا
بیزارگی کا عجیب عالم ہے
سامنے جو دکھائی دیتا ہے
عقب سے ھارون صاحب کی آواز گونجتی ہے
نا اہل لوگ یہ جیتے نہیں ہیں جتائے گئے ہیں

ٹی وی کے وہی تیز رفتار تجزیہ کار اپنی اپنی رائے کو مدلل ثابت کرنے میں لگے ہوں گے
ریٹنگ کے اس دور میں ہر کوئی زبان کی رفتار سے گناہ کشید کرتا ہوا چیک کے ھندسوں میں رقم بڑھا رہا ہے
دوسری جانب جو سچ ٹی وی پر نہیں دکھایا جا رہا
وہ انتہائی خوفناک ہے
بلوچستان کے پہاڑوں پر گونجتی فلک شگاف آوازیں
شمالی علاقہ جات اور وزیر ستان تک کہرام مچا ہوا ہے
اور
اس میں جو نعرے لگائے جا رہے ہیں وہ غداری کے زمرے میں آتے ہیں
زمین سے آسمان تک سیاسی شور مچا اور آخر میں بات کسی بیساکھی پر جا کر ختم ہوئی ؟؟؟؟؟
اللہ کا خاص فضل ہوا کہ ھارون صاحب نے یہ کہ دیا
اب کم سے کم یہ ضرور ہوگا
کہ
اگلے 5 سال تک کارکن خود کو وزیر اعظم نہیں سمجھیں گے
نہ ہی خواتین خود کو خاتون اول نہیں سمجھ سکیں گی
مقدمات میں الجھا کر اپوزیشن کو پہلے ہی نحیف کر دیا گیا
مقدمات میں نرمی اور قیدیوں کی رہائی ایسی پرکشش مراعات ہیں
احتجاج ناقص کرنے کیلئے پرکشش مراعات پیش کی جائیں گی جس سے بڑی جماعتوں کو آپس میں کمزور کر دیا جائے گا
اپوزیشن کو کسی ہنگامہ آرائی کی ویسے بھی ضرورت نہیں ہے
ان کی اپنی تولے کی زبان سیاسی مخالف کو گرانے کیلیۓ
کس حد تک جا چکی تھی اب ان کو نبھانا بھی تو ہے
یہی وجہ ہے کہ
جیتنے کے بعد اب ان کی اپنی نیندیں حرام ہو چکی ہیں
وقت کم ہے اور مقابلہ سخت
پاکستان مسائلستان ہے
وجہ ہے
اس کے بڑے طاقتور اداروں کا آئینی حدود سے تجاوز کر کے پاور پالیٹکس کا حصہ بنناہے
اور
انہیں بھی یہ کیوں کرنا پڑتا ہے
اس کے پیچھے سیاست کی نا اہلی کی طویل داستان ہے
مگر
بارِ گراں اس بار اس حکومت پر پڑا

کمزور اداروں پر حاوی ہو کر نظام کو جعلی انداز سے تبدیل کرانا یہاں پرانا کھیل ہے
جو اس بار بڑی چابکدستی کے ساتھ کھیلا گیا کہ نشان بھی باقی نہیں چھوڑے
جولائے ہیں ان کی ماننی تو پڑتی ہے
اب اگر
لانے والوں کی مانیں گے تو تبدیلی والوں کو کیا جواب دیں گے؟
آپکو تو کسی اپوزیشن کی ضرورت ہی نہیں
ماشاءاللہ
ساتھ چلنے والوں کا ہی اتنا پریشر ہے
کہ
امید ہے اب ذمہ داریاں ملی ہیں تو پارٹی سنجیدہ اور سادہ دکھائی دے گی
میرا ماننا ہے کہ
یہ خود اتنے الجھے ہوئے ہیں کہ ہم سب کو انہیں سھارا دینا چاہیے
میری تواہل سیاست سے التجا ہے
انہیں ایک چانس ضرور دیں
کیونکہ
ہر غلطی ہر خطا اپنی جگہ
مگر
عوام کی ترقی اسی میں ہے کہ
ہم کسی کو تو سکون سے حکومت کرنے دیں
شائد اس بار اللہ کا کوئی کرم ہو جائے
اور
70 برس سے منجمند جامد ادارے جو باوجود رقم کی فراہمی کے عوام کو خالی کشکول دکھاتے تھے
ہو سکتا ہے
اس بار صادق اور امین کی سند لے کر سامنے آنے والے اسی کا لحاظ رکھتے ہوئے رقم کو واقعی عوام پر لگائیں
اور
ادارے طاقت پکڑیں تو عوام تک یہ ثمرات پہنچیں
عوام کی زندگی بہتر ہو جائے
میری قوم باعزت ہو
اچھے صاف ستھرے ہسپتال کشادہ سڑکیں معیاری درسگاہیں اور اعلیٰ تعلیم کے حصول کے بعد باعزت نوکریاں میرے ہم وطنوں کو آسانی سے ملیں
میرا ملک مجھے فرانس سے زیادہ صاف زیادہ حسین لگے
جہاں زندگی صرف کسی دولتمند کی نہ ہو
بلکہ
زندگی کی خوشیاں اس کے سکھ عام انسان کی پہنچ میں ہوں
دین اور دنیا کا حسین امتزاج رکھنے والا میرا ملک اسلام کا قلعہ بن جائے
ہر گھر فراغت سے عزت کی روٹی کھا سکے
ہر بیمار کا علاج معالجہ ویسے ہی با عزت طریقے سے کیا جائے
جیسا کسی امیر کا کیا جاتا ہے
غربت مفلسی کے بت پاش پاش ہو جائیں
دین کی تعلیم عام ہو کہ کھویا ہوا وقار مقام واپس حاصل ہو سکے
رشتوں کا لحاظ رواداری جو اس ظالم حبس زدہ ماحول میں گم ہو گئی ہے
خوشحالی کے دور میں واپس اپنی اصل پر آئے
زچّہ و بچہ کی صحت معمار وطن کی پرورش ویسے ہی ہو جیسے ترقی یافتہ ممالک اپنی نسلوں کی کرتی ہیں
نادار غریب مسکین یتیم فلاحی مملکت میں عام بچوں کے اعتماد جیسے جی سکیں
ذہنی معذوروں کو اپاہجوں کو دھتکارا نہ جائے
انہیں انسان سمجھ کر معیاری زندگی اور سہولت پر مبنی ادارے دیے جائیں
ان کو عام آسان کاموں کی تربیت دی جائے تا کہ یہ معاشرے پر بوجھ نہ بنیں
خاص طور سے ملک کے ادارے بہتر انداز میں متحرک ہوں گے تو تارکین وطن کا لفظ”” لغت”” سے باہر نکال دیں
تارکین وطن زندگی کو کیسے گھڑی کی ٹِک ٹِک کے ساتھ گزارتے ہیں یہی صرف وہی جانتے ہیں
رہتے کہیں اور ہیں اور سوچیں پاکستان میں رہتی ہیں
وہیں جیتے اور اسے سوچتے سوچتے مر جاتے ہیں ٌ
شائد تبدیلی ایسی آجائے کہ
بارڈرز پر کنٹینرز کشتیوں میں برف پوش پہاڑوں میں روٹی کیلئے نہ مارے جائیں
بلکہ
اپنی زندگی کو اپنی صلاحیتوں کو اپنے وطن میں رہ کر اسکی کامیابی کیلئۓ استعمال کریں
شعور بیدار ہو کہ
عورت نہ “” ونی”” کی جائے اور نہ ہی اسکو”” کاری”” کیا جائے
ماں بہن بیٹی بیوی ہر رشتے میں قابل احترام
دینی حدود کے اندر رہ کر باعزت پرسکون گھر کی ملکہ عالیہ ہے
بگڑا ہوا نظام صرف تعلیم اور”” نوجوان”” سامنے لانے سے حل نہیں ہوگا
اس نوجوان کو پہلے دینی تعلیم سے آراستہ کرنا ہوگا
200 پاک صاف انسان تو آپکو ملے نہیں جن کی تلاش میں آپ قریہ قریہ پھرے
اب ان گناہ گار خطا کار انسانوں کے ساتھ وہ آسمان سے باتیں کرتے بلند و بانگ دعوےٰ کیسے اور کتنے وقت میں پورے کریں گے ؟
آئیے
ہم ان کا ساتھ دیتے ہیں
اور
ان کی ہر زیادتی بھول جاتے ہیں
سیاست کی ہر ریا کاری فراموش کر دیتے ہیں
اس وطن کیلیۓ
دہشت گردی میں لہو دینے والوں کی حرمت کی خاطر
افواج پاکستان کی قربانیوں کی خاطر
آئیے مل کر سازشوں کے اس ریگزار
کو
نخلستان
اور
پھر گل وگلزار بنائیں
پیارے پاکستان کی خاطر

میرے وطن میرے بس میں ہو تو تیری حفاظت کروں میں ایسے
خزاں سے تجھ کو بچا کے رکھوں بہار تجھ پے نثار کر دوں

Shah Bano Mir

Shah Bano Mir

تحریر : شاہ بانو میر