تحریر : شاہ بانو میر اٹھو کہ حشر پھر نہ ہوگا کبھی دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا تیز رفتار ترقیاتی منصوبے دشمن پاکستان کے سینے پر سانپ بن کر لوٹتے ہیں کہ جس ملک کو بین القوامی طاقتیں تنہا کر کے دہشت گردی کا ٹھپہ لگا کر سسک سسک کر مارنا چاہتی تھیں یہ اُس رب کی کیا رحمت ہوئی کہ وہ باوجود لاشوں کے گرنے کے حوصلہ نہیں ہارا٬ بلکہ اس عوام نے گرتے پڑتے ٹوٹتے اس ملک کو ہمیشہ اپنی جانیں دے کر سہارا دیا ہے اور اسے ناتواں نہیں ہونا دیا ٬ جبکہ اس دکھی عوام نامی مخلوق کیلئے جب خوشگوار مستقبل کا نقشہ ابھر کر واضح خدو خال نکالنے لگا تو اندرونی سیاسی شورشیں ہی اسے روندنے کو بیقرار ہو گئیں ٬ محض اس لئے کہ کہ انتخابات میں وہ ہر شعبے میں صفر ہوتے دکھائی دے رہے ہیں۔
سال 2013 میں جو پاکستان اجڑا لوٹا کھسوٹا خستہ حال تھا آج اس کو کوچہ کوچہ مہک رہا ہے گلی گلی آباد ہے ٬ آج اس عوام کو عام زندگی میں ذرائع آمد ورفت سے لے کر معیار زندگی میں مناسب سہولتیں مل رہی ہیں ۔
جس سے سوچ کا معیار اور زندگی کا وقار پہلے سے بڑھ گیا ہے٬ مگر جب پوری دنیا تعریف کر رہی ہے اس ملک کی جس کو وہ دہشت گرد کہنا چاہتے تھےآج ترقیاتی منصوبوں کی بدولت معاشی گراف کی بڑہتی ہوئی فصیل حیران کر رہی ہے٬ ایسے میں اپنے سیاستدان تاک میں ہیں کہ کسی طرح صرف اور صرف اقتدار کیلئے وہ کسی طور اس بساط کو الٹ دیں ٬ عوام کو پھر سے واپس 2013 میں لے جائیں ٬ مگر اس بار ایسا نہیں ہوگا ٬ سیاستدانوں کی بے وقت کی پُکار اور عوام کا یخ بستہ خاموش رویہ انہیں بتا رہا ہے کہ اب وقت تبدیل ہوچکا ہے ٬ اس عوام نے گزرے ہوئے برے وقت سے بہت کچھ سیکھ کر اب اپنے لئے خود فیصلہ کرنے کی ٹھانی ہے٬ اس لئے کسی پُکار پر کسی شور شرابے کیلیۓ یہ اب باہر نہیں نکلے گی۔
سپریم کورٹ پرسکون اندازمیں اس حساس نوعیت کے تاریخی کیس کو باریک بینی سے طے کرے گی وہ کوئی ایسا فیصلہ نہیں دیں گے جو اس ملک کی ترقی کو اوندھے منہ گرا دے٬عوام نے اپنے دہائیوں پر مبنی بیچارگیوں میں ان سب سیاستدانوں کو عیش و عشرت میں پلتے لمحہ لمحہ دیکھا ہے۔
اس لئے وہ اب مزید بیوقوف بننے کو تیار نہیں ٬ اقتدار کوئی ذاتی جاگیر نہیں نا ہی یہ سادہ لوح عوام ہے کہ جس کو جب چاہے کہیں بھی استعمال کر لو٬ عوام اب ہر ایک کے چہروں سے نقاب اٹھتا دیکھ چکی ہے ٬ اپنی زبوں حالی اور ان کے صحتمند چہروں سے چھلکتی سرخیاس کو ہر ایک سے مایوس کر چکی ہے۔
عوام جان گئی ہے کہ اب اسے اپنے لئے خود کھڑا ہونا ہے اور اللہ کی اس خاص عنایت سے جومختلف منصوبوں کی صورت اس کیلیۓ رزق کا انتظام کرنے میں مصروف ہے ٬ اس کو کسی صورت ختم نہیں ہونے دینا ٬ اعلیٰ معیار زندگی کا ہوتا آغاز اسکو شاندار مستقبل کی نوید دے رہا ہے٬ سیاسی انتشار کا حصہ نہیں بنے گی ٬ بلکہ دوست ملک چین کی شراکت کی قدر کرتے ہوئے اپنے لئے جاری ہر منصوبے کو اپنی نسلوں کی بقا کیلئے مکمل کروائے گی۔
کچھ تو سوچو آج بار بار””عوام ہمارے ساتھ ہے”” کا نعرہ لگانے والے اُس وقت کہاں تھے٬جب جب یہ عوام کبھی بم دھماکوں کی نذر ہوئی تو کبھی انہیں جلا کر خاکستر کر دیا گیا ٬یہ سب کے سب جو آج چیخ چیخ کرعوام کو ساتھ ملا کر کسی ایک کو مار کر یا گِرا کر اقتدار پے قابض ہونا چاہتے ہیں ٬
کیا یہ سب صادق اور امین ہیں؟ صادق امین جیسے القاب اس روئے دنیا میں کوئی نہیں لے سکتا سوائے اس اعلیٰ ذات اقدسﷺ کے ٬نہ اس عوام نامی مخلوق کی ان سیاستدانوں کو کل پرواہ تھی اور نہ ہی آج ہے۔
جب جب کسی نے اس ملک کو سنوارنے کیلئے کمر باندھی تو اسے کبھی بھٹو کی طرح بیرونی اشاروں پر راہ سے ہٹا کر نشان عبرت بنا دیا گیا تو کبھی ایٹمی دھماکے کے خالق قربانیوں کی داستاں رقم کرنے والے ڈاکٹر قدیر کو سر عام معافی کیلیۓ مجبور کیا گیا٬ اقتدار اور ذاتی انتقام نے آج سیاست کو محض ڈھونگ اور تماشہ بنا کر رکھ دیا ہے۔
اہل سیاست جینے دو اس عوام کو اس عوام کو تو سوائے دکھوں اور پریشانیوں کے کچھ نہیں ملا٬اس بار یہ عوام ایسے کسی فیصلہ کرنے میں ساتھ نہیں دے گی جو اس کو پھر سے 2013 میں لا کھڑا کرے ٬وہ کڑی نظر رکھے ہوئے ہےکہ منصف اس بار نا انصافی نہیں کریں گے۔
اس بار عوام 1979 جیسا فیصلہ نہیں ہونے دے گی٬ نہ ہی عدالت عظمیٰ اتنی عجلت میں کوئی بڑا فیصلہ کرے گی٬اس بار یہ عوام کسی سیاسی رہنما کے”” پیچھے”” نہیں بلکہ اپنے شاندار مستقبل کے”” آگے”” بطور محافظ کھڑی ہے٬کسی کو اپنی کامیابی چھیننے نہیں دے گی٬ ڈٹ کر ان کا مقابلہ کرے گی جو خود تو ٹھنڈے کمروں میں سوتے ہیں۔
اور عوام بھلے جیےیا مرے ان کی بلا سے٬بجلی کی فراہمی سے لے کر تجارتی مقاصد کیلیۓ بچھایا جانے وال شاہراہوں کا جال امید صبح جمال ہے٬ اس بار عوام کے لبوں تک آیا یہ ترقی کا جام کوئی نہیں چھین سکتا یہ پاکستانی عوام ہے جو اب اپنے لئے جینا چاہتی ہے اور اپنے فیصلے خود کرنا چاہتی ہے٬ اب اس کی تقدیر کے مالک چند لوگ نہیں یہ اکیس کروڑ لوگ خود اپنے محافظ ہیں۔
خُدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کاشعور کے ساتھ زندگی جینا چاہتی ہے٬ شور مچا کر انتشار سے اس ملک کو ہم نے مشعل خان جیسی بے گناہ لاشیں دی ہیں۔
اب شور مچا کر پھر کسی بے گناہ کو تخت دار پے نہیں لٹکانا بلکہ مصلحت کو اپنا کر تدبر سے تحمل سے وقت گزارنا ہےکامیاب روشن پاکستان کے خواب کو اس بار تو تعبیر کی صورت دیکھنا ہی دیکھنا ہے٬کیونکہمیں عوام ہوں جب جاگ جاؤں تو توکل اپنے رب پر اور یقین محنت پر کرکے تاریخ کا رخ موڑنے کی طاقت رکھتی ہوں٬اقبال کا شعر آج مشعل راہ ہے۔
عروج آدم خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں کہ یہ ٹوٹا ہوا تارا مہ کامل نہ بن جائے