تحریر: ڈاکٹر تصور حسین مرزا جب سے انسان اس دنیا میں آیا ہے دکھ ، درد، پرشانیاں انسان کا مقدر ہے۔ ایک روایت ہے جب حضرت بابا آدم علیہ اسلام کا بت مبارک بنا رہے تھے تو مٹی جس سے حضرت آدم علیہ اسلام کو بنایا جا رہا تھا خشک ہوگئی۔ فرشتے اللہ تعالیٰ کے پاس آئے اور مٹی کا خشک ہونا بتایا تو حکم ہوا اس پر غموں کی بارش کر دو۔۔۔ جب نبی حضرت آدم علیہ اسلام کے بت والی خشک مٹی پر بارش کی گئی تھی تو وہ غموں والی بارش تھی۔ کسی حصہ پر زیادہ بارش ہوئی اور کسی حصہ پر کم اسی طرح ہر انسان کی زندگی میں دکھ، درد ،غم آئے کسی کے حصہ میں زیادہ اور کسی کے حصہ میں کم۔
جیسے جیسے وقت گزرتا گیا انسان ترقی کرتا گیا۔ کبھی انسان نے اپنا غم ، درد ، کم کرنے کے لئے ۔ چاند سورج ستاروں سے مدد مانگنی شروع کر دی تو کبی اپنے ہی ہاتھوں سے تراشے ہوئے بتوں کو اپنے دکھوں، دردوں۔ آہوں کا مداوا سمجھا۔لیکن ہمیشہ صرف سے ضرب کھاتا رہا۔ رفتہ رفتہ انسان کے علم و عقل میںاضافہ جیسے جیسے ہوتا گیا پھر انسان نے اپنے غموں سسکیوںاور پرشانیوں سے چھٹکارے کے لئے دم جھاڑو ،پھونک ۔جاد،و منتر وغیرہ کے چنگل میں پھنستا چلا گیا۔ جس سے دکھ ، درد کم ہونے کی بجائے انسانی جسم مزید پیچیدگیوں کا شکار ہوتا گیا۔آخر کا انسان نے مثبت سرگرمیوں اور جڑی بوٹیوں کا دروازہ کھڑکایا اور اپنے آپ کو بہتر پایا۔ جسکا نتیجہ طب یونانی اور اسکی جدید شکل ایلوپیتھی (انگریزی) طریقہ علاج کی صورت میں ہمارے سامنے ہیں۔
جو تگ و دو انسانیت کے دکھوں کے مداوے کی ازل سے شروع ہوئی تھی ابھی تک جاری و ساری ہے اٹھارویں صدی میں جرمن کے مایہ ناز کوالیفائیڈ (طب و ایلوپیتھی) ڈاکٹر سموئیل ہانیمن ایم ڈی۔ جنکے علم و دانش کا اندازہ اس بات سے لگائا جا سکتا ہے کہ سات زبانوں میں اللہ تعالیٰ نے مکمل مہارت دی تھی اور آپ اس وقت کے سب سے بڑے ڈگری ہولڈر یعنی ایم ڈی( ڈاکٹر آف میڈیسن )تھے۔ آپکی شبانہ روز کاوشوں سے دنیا میں ایک نیا علاج جو بے ضرر، موثر قدرتی، تھا جسکو ہومیوپیتھی کے نام سے دنیا جانتی ہے دنیا کا واحد علاج ہومیوپیتھی ہے جسکو دو سو سال سے زائد کا عرصہ گزرنے کے باوجود آج تک کسی دوا کو بند کرنے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ کیونکہ اس کی بنیاد ٹھوس سائینسی اصولوں پر ہے۔
jhelum Homoeopathic Collage
حالانکہ جتنی جیلسی حسد کینہ ہومیوپیتھک طریقہ علاج سے کیا جاتا ہے اگر یہ سچ نہ ہوتی تو آج اس طریقہ علاج کا نام و نشان نہ ہوتا۔۔ مگر یہ دن دگنی رات چگنی ترقی کر رہی ہے جس کی ایک ہی وجہ ہے کہ ہومیوپیتھی انسانیت کے لئے نعمت خداوندی ہے۔ گزشتہ دنوں ایک آرٹیکل نظر سے گزرا موصوف نے لکھا تو بہت کچھ تھا جنکا جواب بھی دیا جا چکا ہے۔ ایک پوائینٹ یہ بھی تھی کہ ہومیوپیتھک کی درس گائے ہومیوپتھیک ڈپلومہ جات کو بانٹتی ہیں۔
چونکہ پاکستان ایک سرکاری ادارہ ہے جو ہومیوپیتھی کی ترقی و ترویج کے لئے کا کرتا ہے۔ جسکو نیشنل کونسل فار ہومیوپیتھی (حکومت پاکستان) کہا جاتا ہے جو تمام ہومیوڈاکٹرز اور تمام ہومیوپیتھک میڈکل کالجز کو رجسٹرڈ بھی کرتا ہے اور چار سالہ ڈپلومہ کے امتحانات بھی لیتا ہے ۔ گزشتہ روز نیشنل کونسل فار ہومیوپیتھی کے زیر اہتمام ہونے والے امتحان میںجانے کا اتفاق بھی ہوا اور اسکو ہم میڈیا کا چھاپہ بھی کہہ سکتے ہیں ، بندہ ناچیز بغیر اطلاح کے جہلم ہومیوپیتھک میڈیکل کالج جہلم اچانک وزٹ کیا تو پتہ چلا جہلم میں ہومیوپیتھک کے دو کالجز ہیں جبکہ دونوں کا ایک ہی سنٹر بنایا گیا۔
کمرہ امتحانات میں مکمل روشنی ہوا اور پانی موجود تھا۔ اور خاموشی جیسی دفعہ 144 لگائی گئی ہو۔ یہ امتحانات نگران اعلیٰ ڈاکٹر حافظ کاشف ،ڈپٹی نگران ڈاکٹر اقصیٰ جاوید جبکہ نگران میں شامل تھے ڈاکٹر محمد شبیر، ڈاکٹر محمد عثمان انجم ،ڈاکٹر صنور حسین ، ڈاکٹر عاطف جواد اور لیڈی ڈاکٹر مرزوقہ گل اور انٹرنل نگران کے فراہیضکالج ہزا کے پرنسپل ڈاکٹر چوہدری زوالفقارعلی سر انجام دے رہے تھے۔ نیشنل کونسل فار ہومیوپیتھی کی طرف سے واٹر کئیریر کی ڈیوٹی پر غلام رسول اور ملک اسلم مامور تھے۔ جہادی ہومیوپیتھک میڈیکل کالج جہلم کے پرنسپل ڈاکٹر کوثر ناہید انو جو خصوصی طور پر دورے کے لئے تشریف لائے تھے ر اور بندہ ناچیز ڈاکٹر تصور حسین مرزا نے جہلم ہومیوپیتھک میڈیکل کالج جہلم کی انتظامیہ کونیشنل کونسل فار ہومیوپیتھی کے سالانہ امتحانات میں معیاری اور اعلیٰ انتظامات کرنے پر مبارک باد دیتے ہوئے کہا ، ہومیو پیتھک ڈاکٹر کا وقار ۔۔ معیار تعلیم میں ہیں