تحریر : راؤ خلیل احمد آج ٹی وی سکرین سے ایک سلائیڈ نظر سے گزری جس میں میاں نواز شریف کے داماد کپٹن صفدر اپنی بیگم محترمہ مریم کی صفائی دیتے ہوئے کہتے ہیں کہ میری بیگم کے نام کوئی آف شور کمپنی نھیں ہے۔ میرا سیاسی ویژدان یہ کہتا ہے کہ یہ شخص آج پہلی بار سچ بول رہا ہے۔ یہ شخص پاکستان کی سیاسی غلاظت کے جس مقام پر ہے اس تک پہنچنے کے لیے اسے کتنے جھوٹ کے پہاڑوں کو سر کرنا پڑا ہوگا کوئی بھی زی شعور اندازہ سکتا ھے۔ مگر آج یہ شخص سچ بول رہا ہے ۔ میرے اس تجزیہ سے بہت سے سیا سی بونے سیخ پا ہو جائیں گے۔ حالات و واقیات کو پش پشت ڈال کر میری اس پیشن گوئی سے اتفاق نھیں کریں گے اور مجھ پر جزبات میں جاہل کا فتویٰ بھی لگا سکتے ہیں ۔ جہالت ہی جزباتیت کو جنم دیتی ہے ، جزباتیت اور جہالت لازم وملزوم ہیں اگر قیادت کے بغیر ہو تو!۔
مریم صفدر کے نام آج کوئی آف شور کمپنی نھیں ہے یہ سچ ہے ، اور یہ بات سپریم کورٹ میں بھی ثابت ہو جائے گی۔ اور قوی امید ہے کہ حسن نواز اور حسین نواز کو بھی دودھ کے دھلے پاؤ گے۔ پانامہ لیکس ایشوء کو ساتھ ماہ کا عرصہ ہو چکا ہے۔ یورپ میں رہنے والے اور خصوصا” فرانس میں رہنے والے جانتے ہیں کہ کسی بھی کمپنی کا ڈائریکٹر تبدیل کرنے میں ٹائم ہی کتنا لگتا ہے۔
15 دن میں تو کمپیوٹر سے بھی نام حذف ھو جاتا ہے۔ ان حالات میں سپریم کورٹ سے کوئی امید رکھنا احمقوں کی جنت میں رہنے کے مترادف ھے۔ کیس کو اتنا پیچدہ بنا دیا جائے گا کہ سپریم کورٹ کو کمیش بنانے پے مجبور ہونا پڑے گا۔ اور سب جانتے ہیں کہ کمیشنوں کے فیصلے حکمرانوں کی خواہش اور مرضی سے ڈرائیو ہوتے ہیں۔ جیسے جسٹس باقر علی نجفی کے کمیشن میں سانحہ ماڈل ٹاؤن کا ذمہ دار حکومت پنجاب کو ٹھہرایا گیا مگر رپورٹ نہیں ملی۔
Tax
یاد رھے حکمران خاندان ٹیکس گوشواروں کے متعلق انٹرنیشنل آڈٹ فرم فرگوسن کی خدمات حاصل کر چکا ہے۔ اور گوشواروں کے درست ہونے سے متعلق فرگوسن کی رپورٹ میں اپوزیشن کے پراپیگنڈے کو مسترد کیا گیا ہے سچ یہ ہے کہ چارٹرڈ کمپنیاں ایسی زبان استعمال نہیں کرتیں۔رپورٹ عوامی ذہن سازی کیلئے ہے تا کہ قوم متوقع فیصلے کو ہضم کر سکے۔ لگتا یہی ہے کہ پانامہ کے جنازہ پڑھے جانے سے متعلق ڈاکٹر طاہرالقادری کا موقف حقائق کے قریب ترین ہے وہ جو بھی کہتے ہیں پھر کچھ عرصہ کے بعد سب کہتے ہیں ڈاکٹر طاہرالقادری ٹھیک کہتے تھے۔
سچ تو یہ بھی ہے کہ پانامہ کیس کے حوالے سے نواز شریف اور پاکستان تحریک انصاف کے وکلا ایک ہی لاء فرم کے بینیفیشری ہیں جو فیس ملے گی دونوں میں تقسیم ہو گی۔ان حالات میں احتساب کے متعلق رائے قائم کرنا کچھ مشکل نہیں۔
سچ تو یہ بھی ہے جس کیس سے حکمرانوں کی جان چھوٹی نظر نھیں آتی وہ تحریک قصاص ہے ، جس کا عظم ڈاکٹر قادری نے ماراکش سے لندن واپسی پر ائیرپورٹ پر دھرایا۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ ڈاکٹر قادری کا اگلا لاہ عمل کیا ھو گا آخری خبریں آنے تک وہ پاکستان کی ٹکٹ لے چکے ہیں۔ کب کیااور کیسے ھو گا یہ ڈاکٹر قادری ہی بہتر جانتے۔