الیکشن برائے سال 2018 کی گہما گہم یاپنے عروج پر ہے۔ بہترین طرزِ حکومت ” جموریت ” ہے اور انتخابات جموریت کا حُسن ہوتا ہے۔ ہم نے 70 سالہ تاریخ میں انتخابات اور آمریت کا بھی سامنا کیا ہے۔ میں سمجھتا ہوں ملک و قوم کی ترقی کے لئے ” جموریت ” کا وہ ہی مقام ہے جو انسانی جسم میں ”ریڑھ کی ہڈی ” کو حاصل ہے۔ اگر بات آمریت کی کی جائے تو بحثیت پاکستانی قوم ہمارے لئے آمریت کی حکومت بھی کوئی بُری نہیں ۔ آمریت کے دور میں غرباء کے لئے مہنگائی کا جن بے قابو نہیں ہوتا۔ ہمارا ملک جموریت اور آمریت کے درمیان آدھا تتر اور آدھا بٹیر بن گیا ہے۔
بحیثیت پاکستانی قوم ہم چاہتے ہیں ہمارے حکمران صوٰم و صلواة کے پابند ہوں، چلتے پھرتے اسلام کی تصویر ہوں سچے اور پکے مسلمان ہوں ۔ہماری کتنی بدنصیبی ہے کہ بچہ پیدا ہو تو کان میں آذان مولوی دے، عقیقہ، ختنہ، نکاح، نماز جمعہ اور عیدیں اور جنازے مولوی پڑھائے مگر ووٹ بدمعاش، ٹھگوں، قاتل ذانی شرابیوں کو دینا چاہتے ہیں اور امیدیں لگائے بیٹھے ہیں کہ تبدیلی آئے نظام مصطفےٰ ۖ کا نفاظ ہو۔ کوئی مانے یا نہ مانے تاریخ گواہ ہے کہ مسلم لیگ نواز کی حکومت نے ترقیاتی کاموں کا جال بیچھایا ہواہے ۔ جی یہ مسلم لیگ نوازکی حکومت تھی جس نے عوامی تحریک کے معصوموں پر گولیاں چلوائیں، عاشقِ رسول ملک ممتاز قادری کو شہید کروایا۔ختم نبوت کے قانون میں ترمیم کی، سیاسی اختلافات اور وابستگیوں سے بالاتر ہوکر ہمیں یہ بات ماننا پڑتی ہے کہ حکومت مسلم لیگ نواز کی تھی ، حکومت کی رضا مندی کے بغیر یہ مشکل ہی نہیں بلکہ ناممکن تھا کہ ختم نبوت قانون میں ترمیم ہو سکے!
مجھے ایسے لگتا ہے کہ جب حکومت نے دانستہ طور پر ممتاز قادری کو پھانسی دی تو 29 فروری کی تاریخ مقرر کی تاکہ برسی ہر سال کی بجائے چار سال بعد منائی جائے،شہید ملک ممتاز قادری مرحوم وغفورعاشق رسول ہے۔ میں ان کو عاشق رسول تھا نہیں بلکہ عاشق ِ رسول ۖ ہے ہی کہتا اور سمجھتا ہوں۔ ایک عاشق وہ بھی شہید اور اللہ پاک شہیدوں کو زندہ فرماتا ہے تو میں گناہگار کیسے کہہ سکتا ہوں کہ ممتاز قادری شہید تھا، میں تو کہتا ہوں ملک ممتاز قادری شہید ہے!
ملک ممتاز قادری شہید کو جب سے مسلم لیگی نوازحکومت نے شہید کیا ہے تب سے زلالت رسوائی اور بدنامی انکا مقدر بن گئی ہے۔ اسلامی جموریہ پاکستان ، اسلام اور کلمہ طیبہ کے نام پر دنیا کے نقشہ پر نمودار ہوا۔ کتنا افسوس ہے کہ پاکستان کی پارلیمنٹ نے دانستہ طور پر ختم نبوت کے قوانین پر ڈاکہ ڈالہ جو بھی ملوث ہیں اللہ پاک اور اللہ پاک کے پیارے نبی ۖ سے اعلانیہ توبہ کرے ورنہ اس فانی دنیا اور آخرت میں تباہی و بربادی سے بچ نہیں سکیں گئے۔ غور کریں کتنی باریک بینی سے سازش کی گئی تھی۔ یہ آئین پاکستان سے چھیڑ چھاڑ ہی نہیں بلکہ دین اسلام ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یااللہ ہمیں معاف فرما ! ذاتی سیاسی ایک نہیں ہزاروں اختلافات ہوں مگر ان سب کے باوجود ایک حقیقت اگر علامہ حافظ خادم حسین رضوی اور ڈاکٹر اشرف جلالی جیسے عاشق رسول ۖ ہماری رہنمائی نہ فرماتے، علامہ خادم حسین رضوی اور ان کے دیگر ساتھی جو سچے پکے عاشقان ِ رسول ۖتھے قربانی نہ دیتے ۔معذوری کا بہانہ بناتے ،حکومتی لالچ یا دباؤ کا شکار ہو جاتے۔ زیرو کے قریب درجہ حرارت میں کھلے آسمان کے نیچے ، سردیوں کی ٹھنڈک اور کپکپی بھی ان عاشقان رسول کی محبت بڑھاتی رہی۔کیسا وہ لمحہ تھا جب عدالت کے احکامات پر عملدرآمد کروانے کے لئے انتظامیہ، پولیس اور عاشقان رسول آمنے سامنے تھے۔ میدان جنگ کا سماں تھا۔ عاشقان ِ رسول جانوں کا تحفہ پیش کرنے کے لئے ایک دوسرے سے بازی لے جانے کی کوشش کر رہے تھے کچھ خوش قسمتوں نے جام شہادت نوش فرما کر دنیا اور آخرت کی کامیابی اپنے نام کروا لی۔ کچھ ایسے بھی ولی اللہ تھے جنہوں نے نور کی جھلکیں دیکھیں آج بھی لوگوں کے کیمروں میں وہ لمحہ محفوظ ہے جب قدرت نے آسمان پر ” محمد ” ۖ کا نام بادلوں سے لکھ کر عاشقان رسول لاج رکھ لی۔
کچھ لوگوں کا نظریہ ہے کہ مولویوں کا کام دین و اسلام کی خدمت ہے سیاست نہیں۔ جب تک سیاست میں مولوی نہیں ہون گئے سیاست کا مفہوم مکمل نہیں ہوگا۔ یعنی سیاست بھی عبادت ہے۔ افسوس آج ہم نے سیاست کو عبادت کی بجائے منافقت بنا دیا ہے۔ ایک سادہ اور چھوٹی سی مثال گورنمنٹ سکولوں میں پڑھائی جانے والی کلاس پنجم کی اسلامیات کا صفحہ نمبر 8 کھولیں 2017 اور2018 فرق آپ کے سامنے ہوگا۔ مفہوم کچھ یوں ہے، 2017 کی اسلامیات جماعت پنجم صفحہ نمبر 8 پر درج ہے حدیث مبارکہ فرمانِ مصطفےٰ ۖ ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ اسلامیات جماعت پنجم 2018 صحفہ نمبر8 پر درج ہے کہ مشہور قول ہے کہ دنیا آخرت کی کھیتی ہے۔ یہ کیا ہے؟جموریت سے باہر نکلو اب آمریت دور کی اسلامیات اردو اور معاشرتی علوم دیکھو1980 تا1990 آپ کو ولی اللہ ، انبیاء کرام صحابہ اکرام ، فلسفہ جہاد، سیرت النبی ۖ مختلف صورتوں میں نظر آئیں گئے۔مگر افسوس آج نصاب میں گوروں کی کہانیوں ، عشق محبت ، غیر اخلاقی چیٹو میٹو پیلو وغیرہ وغیرہ الیکشن 2018 گنتی کے دنوں کے فاصلے پر کھڑا ہے۔ زات ، برادری گروپس ، دھڑے،نظرئیے سب کو مدِ نظر رکھتے ہوئے جہاں دل مطمن ہو وہاں مہر لگا دینا ۔ بس اتنا یاد رکھناکل اللہ پاک نے پوچھاکہ میں نے ووٹ کی صورت میں ایک موقعہ دیا تھا۔ وہ ووٹ کس کو اور کیوں دیا؟ ایک مشہور واقعہ ہے کہ حضرت یوسف علیہ السلام کی خریدای کیلئے ایک بوڑھی عورت ”دھاگے کی اٹی” لے کر چل پڑی تھی’ کسی نے پوچھا کہ اماں تم کہاں جا رہی ہو؟ کہنے لگی’ یوسف علیہ السلام کو خریدنے جا رہی ہوں’ اس نے کہا اماں! ان کو خریدنے کے لئے توبڑے بڑے امیر آئے ہوئے ہیں وقت کے بڑے بڑے نواب آئے ہوئے ہیں امراء آئے ہوئے ہیں تو یوسف علیہ السلگام کو کیسے خرید سکے گی’کہنے لگی کہ میرا دل بھی چاہتا ہے کہ یوسف علیہ السلام کو میں خرید نہیں سکوں گی لیکن میرے دل میں ایک بات ہے وہ کہنے لگا کونسی بات؟ کہنے لگی کل قیامت کے دن جب اللہ رب العزت کہیں گے کہ میرے یوسف علیہ السلام کو خریدنے والے کہاں ہیں تو میں بھی یوسف علیہ السلام کے خریداروں میں شامل ہو سکوں گی۔ کاش ہم یہ کہہ سکیں یااللہ ہم نے ووٹ کو امانت سمجھ کر ایماندار کو دیا تھا۔