ہانگ کانگ (جیوڈیسک) چین کے نیم خود مختار علاقے ہانگ کانگ کی قانون ساز اسمبلی کے انتخاب میں کئی ایسے امیدوار کامیاب ہوئے جو آزادی کے حق میں ہیں۔ یہ امر چین کی حکمران کیمونسٹ جماعت کے ساتھ اُن کے تعلقات میں مزید تناؤ کا باعث بنے گا۔
اتوار کو ہونے والے ان انتخابات میں ایک ریکارڈ تعداد میں لوگوں نے اپنا حق رائے دہی استعمال کیا۔
پیر کو ووٹوں کی ابتدائی گنتی کے بعد سامنے آنے والے نتائج اس بات کا مظہر ہیں کہ ہانگ کانگ کی جمہوریت نواز حزب مخالف، قانون ساز کونسل میں ایک تہائی سیٹیں برقرار رکھ سکے گی جس کی بنا پر اسے 70 ارکان پر مشتمل اس ایوان میں اہم امور پر قانونی سازی اور سرکاری فنڈز سے متعلق معاملات پر ویٹو کرنے کا اختیار مل جائے گا جو چین کے اثر و رسوخ کو ایک حد میں رکھنے میں معاون ہو گا۔
بتایا گیا ہے کہ مکمل انتخابی نتائج پیر کو دیر گئے سامنے آ جائیں گے۔
ہانگ کانگ میں 2014ء میں ہونے والے جمہوریت نواز مظاہروں اور دھرنوں کے بعد یہ پہلا بڑا انتخاب تھا۔
یہ احتجاج 79 روز تک جاری رہے جس میں نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد نے شرکت کی جسے ہانگ کانگ شہر کی سیاست کے لیے ایک اہم سنگ میل قرار دیا گیا تھا۔
اگرچہ چین نے جمہوریت نواز مظاہرین کا کوئی بھی مطالبہ قبول نا کیا۔ تاہم اس کے بعد سے بڑی تعداد میں نوجوانوں کی نظر میں چین کے ہانگ کانگ میں بڑھتی ہوئی مداخلت کی وجہ سے شہری آزادیوں پر زد پڑی ہے جو بعض اوقات پرتشدد مظاہروں کا باعث بنی ہے۔
سابق برطانوی کالونی کو “ایک ملک، دو نظام” کے سمجھوتے کے تحت 1997ء میں مکمل طور پر چین کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ اس سمجھوتے میں یہ طے پایا کہ عالمی معیشت کے مرکز کی آزادی اور یہاں کے الگ قوانین کو آئندہ پچاس سالوں تک برقرار رکھا جائے گا۔
ہانگ کانگ کے جمہوریت نواز قانون ساز لی چیوک یان جو بیس سال تک عوامی نمائندگی کرنے کے بعد اپنی سیٹ ہار گئے ہیں کا کہنا ہے کہ ” یہ ایک نیا دور ہے”۔
” لوگ تبدیلی چاہتے ہیں، ایک ایسی تبدیلی جس میں وہ نئے چہروں کو دیکھنا چاہتے ہیں۔۔۔لیکن اس کی ایک قیمت بھی ہے وہ (جمہوریت نواز کیمپ کی) مزید تقسیم ہے۔ نظریاتی طور پر وہ آزادی کی بات کر رہے ہیں اور وہ خود کو منوانا چاہتے ہیں”۔
ہانگ کانگ کے آئینی امور کے سیکرٹری ریمنڈ ٹام نے کہا کہ حکومت انھیں “ایک مرکزی نقطے پر لانے کی ” ہر ممکن کوشش کرے گی۔
انھوں نے کہا کہ “یہ کہنا قبل از وقت ہے کہ یہ ایک مسئلہ بن جائے گا”۔
دوسری طرف چین نواز قانون ساز الزبیتھ کوت کا کہنا ہے کہ وہ یہ توقع کرتی ہیں کہ چین سے الگ ہونے کا معاملے (ہانگ کانگ) کی اسمبلی میں نہیں اٹھایا جائے گا بصورت دیگر اس سے ہانگ کے طویل المدتی معاشی مفادات کو نقصان پہنچ سکتا ہے۔
انہوں نے کہا کہ “آزادی ( کی بات) قابل عمل نہیں ہے۔۔اُمید کی جاتی ہے کہ یہ ان کا بنیادی مقصد نہیں ہو گا”۔
اتوار کو ہونے والے انتخاب میں ایک بڑی تعداد میں لوگ ووٹ ڈالنے کے لیے آئے اور ان میں سے بعض کو کئی گھنٹے تک انتظار بھی کرنا پڑا ۔
ہانگ کانگ کے الیکشن کے امور سے متعلق کمیشن کا کہنا ہے کہ ہانگ کے 38 لاکھ افراد ووٹ دینے کے اہل تھے اور اتوار کو ڈالے گئے ووٹوں کی شرح 58 فیصد تھی جو 1997ء کے بعد ووٹ ڈالنے کی سب سے زیادہ شرح تھی۔ جبکہ 2012ء میں یہ شرح 53 فیصد تھی۔