ہانگ کانگ (جیوڈیسک) جمہوریت کے حامی احتجاج کرنے والے طلبا کے ایک گروپ کے رہنماؤں نے مخالفین کے ساتھ جھڑپ کے بعد حکومت کے ساتھ مذاکرات ملتوی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ گروپ کے کہنا ہے حکومت مظاہرین کو تحفظ فراہم کرنے میں ناکام ہو گئی ہے۔
طلبا چین کی طرف سے ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹیو کے عہدے کے انتخاب کے لیے چین کی طرف سے امیدواروں کی چھان بین کرنے کے فیصلے پر برہم ہیں اور انھوں نے شہر کے مختلف حصوں پر قبضہ جمایا ہوا ہے۔ مظاہرین کی طرف سے ہانگ کانگ کے چیف ایگزیکٹیو سی وائے لیونگ کے مستعفی ہونے کے مطالبے کے بعد سی وائے لیونگ نے حالات کو معمول پر لانے کے لیے مظاہرین کو مذاکرات کی دعوت دی تھی جس پر طلبا کے رہنما رضا مند ہوئے تھے۔
لیکن جب جمعرات کو مظاہروں سے پیدا ہونے والی صورتِحال پر برہم ہونے والے لوگوں نے خیموں اور رکاوٹوں کو ہٹانے کی کوشش کی تو ان کی مظاہرین کے ساتھ جھڑپ ہوئی۔ حکومت کی طرف سے بدھ کو مذاکرات کے لیے مدعو کیے گئے ہانگ کانگ فیڈریشن آف سٹیوڈنٹس نے بیان میں کہا کہ انھوں نے مذاکرات کو ’سرد خانے‘ میں رکھ دیا ہے۔ ان مذاکرات کے وقت اور جگہ کے بارے میں کوئی تصدیق نہیں کی گئی ہے۔
فیڈریشن نے بیان میں کہا کہ’حکومت نے مافیا کو آکیوپائے کے پرامن شرکا پر حملے کی اجازت دی۔ اس نے مذاکرات کا راستہ بند کر دیا ہے اور اس کے نتائج کی ذمہ داری انھیں لینی چاہیے۔‘ ’حکومت نے اپنے وعدے کا پاس نہیں رکھا۔ ہمارے پاس اس کے علاوہ کوئی چارہ نہیں کہ مذاکرات کو ترک کر دیں۔‘
تاہم یہ واضح نہیں کہ احتجاج کرنے والے دیگر گروپوں کا بھی یہ موقف ہے آکیوپائے سنٹرل کے رہنما بنی ٹائے نے بی بی سی کو بتایا کہ وہ ابھی تک مذاکرات کے بائیکاٹ کرنے پر غور کر رہے ہیں تاہم انھوں نے کہا کہ پولیس مظاہرین کو ان کے مخالفین سے تحفظ نہیں فراہم کر رہی اور یہ سلسلہ زیادہ دیر نہیں چل سکتا۔‘ انھوں نے کہا کہ ’اس وقت بات چیت کرنے کا کوئی جواز نہیں جب حکومت پرامن مظاہرین کو تحفظ نہیں دے سکتی۔‘