عزتوں کی نیلامی کا دن

Valentine's Day

Valentine’s Day

مغرب سے اٹھنے والا عریانیت کا طوفان مشرق میں اب بھی برابر جاری ہے اور آپ جان سکتے ہیں کہ جہاں طوفان کا مرکز ہوتا ہے تو وہاں کے لوگوں پر کیا گزرتی ہے۔ اگرچہ اس طوفان کی ابتدابہت پرانی ہے لیکن آہستہ آہستہ اٹھنے والا یہ طوفان برابر شدت اختیار کرتا جا رہا ہے اور طوفان تو طوفان ہوتا ہے جس کے تصورسے ہی بعض افراد خوفزدہ ہو جاتے ہیں۔ قدرتی طوفان تو کہیں نا کہیں اپنی حد بنالیتے ہیں لیکن انسانوں کا پیدا کیا ہوا یہ طوفان تو کہیں تھمنے کا نام ہی نہیں لے رہا ہے۔ بلکہ اس کے وسیع تر ہونے کے ٹھوس امکانات نظر آرہے ہیں۔ اگر اس کی یوں ہی برقراری رہی تویہ ناصرف تیزی پکڑے گا بلکہ لوگ مزید اس کی گرفت کا شکا رہوتے جائیں گے اور نتیجہ بہت ہی بھیانک ہو گا۔ پاکستان بھر میں 14 فروری کو ویلنٹائن ڈے منایا جاتا ہے۔ وطن عزیز پاکستان میں جسکی بنیادوں میں لا الہ الااللہ پڑھنے والے بیس لاکھ مسلمانوں کا خون ہے جسکی حرمت کی پاسبانی کے لئے تاریخ انسانی کی سب سے بڑی ہجرت وقوع پذیر ہوئی جسکی پاداش میں 90 ہزار عورتوں کی عزت ناموس داغ دار ہوئی آج اسی وطن عزیز میں ویلنٹائن ڈے کے نام پر بے غیرتی، بے حیائی اور فحاشی کا دور دورہ ہے اور افسوس یہ ہیے کہ قوم کی قوم نہ صرف اس میں شریک ہے بلکہ خوشی سے تالیاں بھی بجا رہی ہے۔

یہ ویلنٹائن کیا ہے اور کیوں منایا جاتا ہے مغرب کی تقلید میں اندھے ہو کر ہمارے حیا سے عاری نام نہاد روشن خیال لوگ اخبارات اور ٹی وی چینل پر بدکاری کے اڈے سجائے بیٹھے ہیں اور قوم کی نوجوان نسل کی دلالی میں مصروف ہیں ایک زانی پادری ویلنٹائن جس نے گرجا کی نن کے ساتھ زنا کیا اور پھر اس کی سزا کے طور پر قتل کیا گیا اس کی یاد میں ویلنٹائن ڈے منانے والے یقینا اسی کردار کے حامل لوگ ہیں کیونکہ اس دن اجتماعی طور پر اس بے حیائی اور بے غیرتی کا مظاہر ہ کیا جاتا ہے جسکی مثال نہیں ملتی۔ مغرب سے درآمد شدہ تہواروں میں یہ سب سے قبیح تہوار ہے جسکے متعلق کوئی شریف زادی شاید سوچتے ہوئے بھی شرم سے سر جھکالے لیکن افسوس آج یہ ہمارے معاشرے میں کینسر کی طرح پھیل رہا ہے مغرب کے مادر پدر آزاد معاشرے کی ہمیشہ سے یہی خواہش رہی ہیکہ ہمارے معاشرے سے شرم وحیا سے عاری ان ہی جیسا کلچر عام ہوجائے جہاں ماں، بیٹی اور بہن جیسے مقدس رشتوں کی دیواریں بھی چھوٹی پڑ رہی ہیں اور ان کی جنسی حیوانیت ان سب حدوں کو پھلانگ چکی ہے لیکن افسوس تو یہ ہیکہ ہمارے اس ملک میں جہاں تقریبا ننانوے فیصد مسلمان بستے ہیں وہاں ہمارے ٹی وی چینلز، ہمارے اخبارات اور ایف ایم ریڈیو اسٹیشن ایسی فضا قائم کرنے کی کوشش کر رہے ہیں جس سے ہماری نوجوان نسل کو اس طرف راغب کیا جاسکے اور ہم تماش بین لوگوں کی طرح تالیاں بجانے میں مصروف ہیں حکومت کوبھی اس سے کوئی سروکار نہیں کہ ہمارے ٹی وی چینلز کی اخلاقی اقداریں کہاں جارہی ہیں۔

اسے صرف خیال اس بات کا رہتا ہیکہ ٹی وی چینلز حکومت کے خلاف ضابطہء اخلاق کی پابندی کریں قوم کی اخلاقی اقداروں کو چاہے یہ چینلز حیاباختہ کر ڈالیں کوئی فکر کی بات نہیں آج ان مغربی تہذیب کے دلداہ ٹی وی چینلز ہمارے گھروں میں گھس کر ہماری اس حیا کو ہم سے چھین رہے ہیں یہ حیا ہی ہے جس کے چھن جانے کے بعد انسانیت ختم ہو کر حیوانیت در آتی ہے اور پھر اپنی ہی بیٹی اور بہن کے سر سے آنچل کھینچتے ہوئے ضمیر پر ہلکی سی خراش تک نہیں آتی یاد رکھئے حیا اور ایمان لازم و ملزوم ہیں جب حیا چلی جائے تو کچھ نہیں بچتا اللہ کے نبی ۖ نے فرمایا: اذا لم تستحیی فاصنع ماشعت جب تجھ میں شرم نہ رہے توجو جی چاہے کر (صحیح البخاری) آج کے بے ضمیر اور روشن خیالی کے پجاری یہ ٹی وی چینلز اور اخبارات ہماری حیا کے درپے ہی نہیں بلکہ ہمارے ایمان پر ڈاکہ ڈالنے کی تیاری کر رہے ہیں کیا یہ اسلامی معاشرے کے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف نہیں ہے کہ جہاں غیر محرم سے نرم انداز میں بات کرنے کی ممانعت ہو وہاں یوں حیا کا دامن چاک کیا جائے مجھے بتائیے تو سہی کہ کوئی شریف زادی کس طر ح سرعام یہ باتیں کرسکتی ہیکہ مجھے میرے چاہنے والے نے یہ محبت نامہ بھیجا ہے یا فلاں نے مجھے I Love You کہا ہے ہمارے معاشرے میں یہ غلیظ تہوار منانے والے عموما بھانڈ میراثی، گوئیے یا وہی روشن خیال لوگ ہیں جنکی روشن خیالی میں اہل مغرب کی ساری حیا باختگیاں سما سکتی ہیں۔

Islamic Movements

Islamic Movements

لغت میں حیاو شرم کا تصور ہی مٹ چکا ہے اور اب یہ لوگ کاسہء لیس ہو کر اس پاک سر زمین میں ایسی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں جس میں ان کی گندگی نمایاں نہ ہو بلکہ ان کی خواہش ہے کہ اس حمام میں سب ننگے ہو جائیں تاکہ ان کی طرف کوئی انگشت نمائی نہ کرسکے۔ اوراب ان کے حیا سوز اور بے غیرتی سے مزین اقدامات اس سطح پر پہنچ چکے ہیں کہ ان کی نقالی میں شریف گھرانے اور اسلامی مزاج سے ناآشنا لوگ بھی اس غلاظت میں لتھڑنے لگے ہیں۔ ہمارے دیدوں کا پانی ڈھل چکا ہے اور یاد رکھئے ہم نے اغیار کی نقالی اگر نہ چھوڑی تو انتظار کیجئے اس دن کا جب ویلنٹائن ڈے کی آڑ میں عزتوں کی نیلامی ہوگی۔بھارت میں بھی اِس دن کو بہت جوش وخروش سے منایا جاتا ہے۔

کئی بھارتی تنظیمیں اِس دن کو منانے کے خلاف ہیں۔ مشرقی وسطیٰ کے کئی ممالک میںاِس دن کو منانے پر پابندی ہے جن میں ایران، سعودی عرب اور دوسرے کئی ممالک شامل ہیں۔ سعودی عرب میں ویلنٹائن ڈے پر تحائف کے طور پر دئیے جانے والی چیزوں پر پابندی ہے۔ پاکستان میں بھی یہ دن منانے کا رجحان بڑھ رہا ہے۔ پہلے محبت قربانی کا جذبہ مانگتی تھی، اب خرچہ مانگتی ہے۔ بدقسمتی سے پاکستان میں اِسے بھر پور اندازا میں منانے والے اِس بات سے لاعلم ہیں کہ اِسے کیوں منایا جاتا ہے۔ اِس دن شہر کی سڑکوں پر عجیب و غریب مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔ پھولوں کی دکانوں سے پھول اچانک غائب ہو جاتے ہیں، بس اسٹاپ پر منچلے لڑکے لڑکیوں سے چھیڑ خانی کرتے اور پھول پھینکتے ہوئے دکھا ئی دیتے ہیں جب کہ تما م پارکوں میں نوجوانوں کی بڑی تعداد موجود ہوتی ہے اور اِس دن کے لحاظ سے لڑکیوں نے سرخ لباس زیبِ تن کئے ہوتے ہیں تاکہ اِس دن بھر پور انداز میں لطف اندوز ہوا جاسکے۔

اِب یہ ایک فیشن بن گیا ہے اور پاکستان میں ہر کوئی اِس فیشن کو اپنانے کے لئے سرگرداں ہے۔ ویلنٹائن ڈے کیا ہے یہاں اِس کا ذکر انتہائی ضروری ہے خصوصا نئی نسل کے لئے جو ایسے فیشن اختیار کرتی ہے اور ایسے ایام خوشی سے مناتی ہے۔ جو ہمارے ہیں ہی نہیں۔ بلکہ اْس تہذیب سے بھیجے گئے ہیں جسے دیکھ کر ہم شرم سے جھک جاتے ہیں۔ اِس تناظر میںاِس امر کو ذہن نشین رکھنا ہوگا کہ مسلم ممالک خصوصاََ پاکستان پر تہذیب کی جنگ مسلط کر دی گئی ہے چند سال پہلے کسی کو یہ معلوم نہیں تھا کہ دنیا گلوبل ویلیج ہے۔ گلوبل ویلیج کا نعرہ مغرب سے آیا اور مغرب کے پیروکاروں نے اِسے پھیلایا جس کا مقصد یہی ہے کہ دنیا کو ایک تہذیب کے زیر اثر لایا جائے جہاں ایک نظام ہو، ایک تہذیب ہو، اور اِسکے ہر رسم و رواج کو دوسری تہذیبیں قبول کریں۔ اِسے اپنی زندگی کا جزوِ لازم بنالیں اور اِسی منصوبے کی تکمیل کیلئے وہ جدوجہد میں مصروف ہیں۔

Mumtaz Awan

Mumtaz Awan

تحریر:ممتاز اعوان
برائے رابطہ:03215473472