ہاں وہ مجرم ہے بہت بڑا مجرم اس سمندر سے بھی کہیں بڑا خطا کار، جو ناجانے کب سے اس شہرِ ظلمت میں پڑا سانسیں لیتا اور سن کچھ دیکھتا رہتا ہے کبھی نہیں بپھرتا کہ اس شہر میں بلاؤں کی کوئی کمی ہے نہ طوفانوں کی اور وہ ٹھہرا سدا کا رضائے الہی کا پابند کئی چھوٹے بڑے سونامی جس کی تہوں میں رلتے پھرتے ہیں ایسے کہ رہائی کی کوئی صورت نظر نہیں آتی اس کا ایک قصور تو یہی ہے کہ اس نے ایک ایسے ملک میں آنکھ کھولی کہ جہاں مردہ پرستوں کا بسیرا ہی نہیں قبضہ بھی ہے۔ اور پھر وہ تو اس شہر کا باسی تھا کہ جہاں انسان کی اہمیت کسی خارش زدہ کتے جتنی بھی نہیں ہے۔ جہاں درندے راج کر تے ہیں۔ ہوس پرست، شہرت، اختیار ، طاقت اور اقتدار کے بھوکے انسان نما بھیڑئیے انسانی گوشت پر پلنے والے زندہ خور گدھ لاشوں کی سیاست اور خریدو فروخت کر نے والے نفس کے ٹٹو چنگیز، ہلاکو اور ہٹلر جیسے ظالم بھی جن کے آگے پانی بھرتے دکھائی دیں قابیل سے لیکر موجودہ عہد تک جنم لینے والے ہر قاتل سے زیادہ بے رحم، سفاک اور سنگدل جنکی سفاکی کے لئے کسی بھی زبان کی لغت میں درج الفاظ کم پڑ گئے ہیں۔
نفس کے غلام، غیروں کے ہاتھ ضمیر گروی رکھنے والے بے ضمیر”دوپائے”دشمن کے اشاروں پر ناچتے، کافروں کا اگُلا کھاتے، یہود و نصاری کے جوتے چاٹتے یہ بے ضمیر درندے، جو انسانیت سے اتنا دور ہیں جتنا شیطان رب کی رحمت سے ہو سکتا ہے۔ ابلیس کے ایسے چیلے کہ خباثت میں اسکے بھی کان کاٹتے ہیں وہ بھی جانے کب سے یہ اعتراف کر چکا کہ یہ تو اسکے بھی استاد نکلے۔ ایسے سفاک قاتل کہ بچے یتیم کرنے، ماؤں کی کوکھ اجاڑنے، بہنوں کے بھائی چھیننے، بھائیوں سے دودھ شریک جدا کرنے، دوستوں کو یاروں سے محروم کرنے، اور بیویوں کے سروں کا تاج چھیننے سے جنہیں قلبی سکون ملتا ہے۔ سو یہی انکادین ہے یہی مسلک، یہی انکی زبان ہے یہی قومیت، یہی مطمع نظر ہے یہی اولین مقصد، یہی واحدکارنامہ ہے یہی توشہ آخرت۔ بندوں کے روپ میں یہ درندے اور کسی پر ترس کھائیں بھی تو کیسے کہ انہیں خود اپنی جانوں پر بھی کبھی ترس نہیں آتا۔ ایسا لگتا ہے یہ کسی گود کے پالے نہیں۔ اگر ایسا ہوتا تو کسی کی گود، کسی کی کو کھ، کسی کامان، کسی کی آخری امید، واحد کمائی ہتھیانے کے لئے ہتھیار اٹھاتے کبھی تو توقف کرتے، کبھی تو کچھ سوچتے۔ یہ آزاد لوگ کاش کسی ذاتی بندھن کا تو پاس کرتے۔ کوئی نہ کوئی تعلق کوئی نہ کوئی رشتہ تو راہ کی دیوار ہوتا۔جو ان کے بڑھتے قدموں کو کبھی تو احساس کی زنجیر سے جکڑ کر روک لیتا احساس نہیں کچھ پاس نہیں کے حامل یہ لوگ ہر رشتے سے عاری ہیں جبھی توانکے دم قدم سے انسانیت قدم قدم پر بال بکھرائے ہر دم بین کرتی ہے۔
ابتدا میں جس مجرم کا ذکر کیا گیا اسے پہچاننا چنداں مشکل نہیں یہ مجرم میں بھی ہوں اور آپ بھی اس قوم کا ہر وہ فرد بھی جو اس دیس کا پر امن شہری ہے ۔یہ مجرم بارہ کہو مسجد کا گارڈ بھی ہے کہ جو انسانیت کا ڈھال بن کر اسکاسر فخر سے بلند کر گیا۔ اور اعتزاز بھی کی جس نے شجاعت کی انمٹ داستان رقم کی اسلم تنولی اور اس کے ساتھی شہداء بھی کہ جو ظلمت کے آگے سینہ سپر ہوکر قوم کا سینہ چوڑا کر گئے۔ اور وہ سینکڑوں اہلکار اور پر امن شہری بھی کہ جن کا واحد جرم یہ ہے کہ وطن سے پیار اور دہشت گردی سے انکار کرتے تھے۔ اس میں کیا شک ہے کہ آج ہمارے دیس میں دو طرح کے لوگوں آباد ہیں۔ ایک ظالم دوسرے مظلوم ظالم لوگ کون ہیں یہ بھی سب بخوبی جانتے ہیں ہاں البتہ یہ ضرور ہے کہ اس میں کچھ براہِ راست اس جرم میں شریک نہیں انکا جرم انکی ظلمت پرستی، نفس پرستی اور غفلت پرستی ہے۔انہی بے زبان زبان دراز لوگوں کے لئے شاعر نے کہا تھا چپ رہنے سے بھی چھن جاتا ہے اعزازِ سخن ظلم سہنے سے بھی ظالم کی مدد ہوتی ہے
یہ دراصل وہ صاحبانِ اختیار ہیں کہ جنہیں خوش قسمتی سے(اور ہماری بدقسمتی) یہ اختیار ملا ہے کہ وہ اس قوم کی تقدیر سے کھلواڑ کر سکیں۔ سو یہ منے بھائی اسی کام میں لگے ہوئے ہیں۔ اعتزاز کا اعزاز صرف یہ نہیں کہ وہ اس منصب کو پا گیا انبیاء بھی جس کی چاہ میں دن رات دعائیں مانگا کرتے تھے۔ اسکی شجاعت نے یہ درس بھی دیاہے کہ حمیت کسی ذاتی مفعت کو دیکھتی نہ غیرتِ ایمانی کسی مصلحت کے آگے سربہ سجود ہوتی ہے۔ وہ بتا گیا ہے کہ غیرت اس لئے بھی بڑی چیز ہے کہ یہ دریش کے سر کو تاج ہوتی ہے اس کا پیغام روشن دن کی طرح واضح ہے کہ کسی ذاتی مصلحت کو مصالحت کا نام دے کر ہاتھ پر ہاتھ دھر کر بیٹھنے والے ایک دن حسرت و یاس کی تصویر بن کر رہ جاتے ہیں ۔اس نے یہ بھی واضح کر دیا کہ قوم کا بچہ بچہ اپنے دشمن سے آگاہ ہے( سوائے صاحبانِ اختیار کے، جو ہوس اختیار کے زیرِ اثرالہام کو بھی ابہام بنا دیا دیتے ہیں ) سو جو اپنے دشمن کو جان اور پہچان لیتے ہیں وہ اس کی جان ضرور لیتے ہیں نہ لے پائیں تو اپنی ضرور قربان کر دیا کرتے ہیں۔ اس سلسلہ میں اس نے کربلا والوں کی تقلید کی ہے خود کو مقصد پر قربان کرتے ہوئے اس نے لمحہ بھر کو نہیں سوچا کہ اس میں جان جانا یقینی ہے۔
Country’s Enemy
اسے تو بس یہ یقین تھا کہ اس طرح اس کے وطن کا دشمن ناکام ہو جائیگا۔ سو وہ آگے بڑھا اور ہنس کر موت کو سینے سے لگا لیا پورے اعتماد اور کامل یقین کے ساتھ ڈرے بغیر کہ وہ جانتا تھا کہ مرتے وہی ہیں جو ڈرتے ہیں اور جو حق کی خاطر لڑتے ہیں وہ مر کر بھی نہیں مرتے وہ فنا ہو کے بھی فنا نہیں ہوتے کہ نیستی اک طرح کی ہستی ہے یہ وہ بستی ہے جو اہل ایمان و صاحبانِ یقین کے دم قدم سے بستی ہے اسلم تنولی کی شہادت اس رخ کی طرف واضح اشارہ ہے کہ دہشت گردوں کے خلاف ایکشن کسی نام نہاد اے پی سی کے کسی متفقہ اعلامیے کا ہرگز محتاج نہیں ہوتا۔ موت کی لے پالک سے جسے پیار ہوجائے وہ اسے ہر ایک قدم پر ڈرا ڈرا اور تڑپا تڑپا کر مارتی ہے۔ اس کی جدوجہد کا حاصل کیا یہ نہیں ہے کہ حملہ بہترین دفاع ہوتاہے اوریہ بھی ڈر ختم کرنا ہے تو اس خوف سے لڑ کر جیو ہر اس دہشت پسند سے جو جیو اور جینے دو کے فلسفے کا منکر ہے۔ زندگی سے پیار جب موت سے انکار بن جائے تو اندیشے سانپ بن کر ڈستے ہیں۔ the killer کی ہیرو کی طرح جو موت سے بھاگتا تھا تو موت اس کے پیچھے لپکتی تھی لیکن جس دن اس نے اپنے اندر کے خوف کو مات دی تووہی موت اس کے سائے سے بھی لرزہ براندام ہوئی۔ مرد چلے جائیں تو گھر یتیم ہو جاتے ہیں اس غازی کا گھر تو اس کی زندگی میں اڑا دیا گیا کہ اسے بقا کا جام پینا تھا جو فنا کی وادی میں اترنے سے ہاتھ آتا ہے۔ اس نے اجڑا گھر اپنی آنکھ سے دیکھا تو شیر کی غضبناک بھی ہوا اور بپھر کر حملہ آور بھی اپنے گھر کے آس پاس اس نے گڑھا دیکھا توقبر اور موت کا سارا خوف ہوا ہو گیا۔
اس کے اندر سے بربادی کا دھڑکا ایک دم، دم توڑ گیا کہ اب اسے آباد رکھنے لگی تھی اجڑ جانے کی خواہش بے نیاز سے جڑنا ہو تو اجڑنا ضروری ہو جاتا ہے ناں جبھی تو وہ ڈٹ گیا اور مٹی کے زرات کو ہتھیلی پر سجا کر ایک دن اپنی بیوی سے کہہ اٹھا اس مٹی سے غداری نہیں کروں گا کہ یہ ماں ہوتی ہے بیوی تو چھوڑی جا سکتی ہے ماں ہرگز نہیں اور پھر وہ اسی ماں پر قربان ہو کر اسی کی بانہوں اور ماممتا بھری آغوش میں سو گیا اس کے ایک ساتھی کے بارے میں بتایا گیا کہ اس کے دو بیٹے ہیں ایک پانچ دن کا اور ایک، ایک سال پانچ دن کا۔ شہید کے باپ اور ایک سالہ بیٹے کے تاثرات میں ایک قدر مشترک تھی دونوں کی آنکھ میں آنسوایک سوال بن کر رک سے گئے تھے۔ ایک ایسا سوال جو ناظر کو خاموش کرا دے، ظالم کی گردن جھکادے اور اسکا غرور خاک میں ملا دے۔ اب اسکی آنکھیں ہر چہرے میں اپنے باپ کا عکس کھوجتی اور ناکام ہوتی رہیں گی۔ اس کا دکھ کسی بے رحم کو محسوس ہو گا؟ ماضی کے قصے سنا کر دوسروں کے بچے مروانے والوں تم اس بچے اور اس جیسے سینکڑوں بچوں کے مجرم ہو قدرت ایک دن تم سے ضرور انکا حساب لے گی، ضرور لے گی اس دن تمہیں احساس ہوگا کہ تم نے بہت بری تجارت کی، سراسر گھاٹے کا سودا۔
کاش تمہیں جیتے جی اس کا احساس ہو جاتا۔ اے کاش میرا سلام پہنچے اس کم سن مجاہد اسلام و شہید پاکستان کو کہ جس نے یہ ثابت کر دیا کہ ہم ابھی راکھ کا ڈھیر نہیں بنے نہ ہی غیرت و حمیتِ ایمانی کی لو بجھ پائی ہے۔ کہتے ہیں خوف حد سے بے حد ہو نے لگے تو اس کے ساتھ بے کا سابقہ خوف کو چمٹ کرجڑ کر اسے جَڑ سے اکھاڑ دیا کرتا ہے۔ یہی کچھ اعتزاز کی قربانی کے نتیجے میں ظاہر ہوا اسکے شہادت کے اگلے روز ایک بھی بچہ سکول سے غیرحاضر نہیں تھا۔ اسے حکومت کیا اعزاز دے گی کہ اس نے شہادت کا عظیم رتبہ پا یا لیا ہے۔ پھر بھی دل کرتا ہے اسکی وہ کرسی اس کے لئے مختص کر دی جائے جہاں بیٹھ کر وہ تعلیم حاصل کیا کرتا تھا۔
اعتزاز کوئی تمہارا مقابلہ نہیں کر سکتا۔ ماضی کے جن مجاہدوں کا تذکرہ زبانِ خاص وعام ہے، وہ بھی نہیں کہ کافروں سے جہاد کرنا، اقتدار کی جنگ لڑنا، ہوسِ ملک گیری، مال غنیمت کے لالچ میں کشور کشائی کرنا اور بات ہے اور منافقوں سے لڑنا کچھ اوربات میری نظر میں تم ہی شہید اسلام اور تمہی شہیدِ پاکستان۔ شنید ہے کہ آپریشن کی تیاری کے لئے پر تولے جا رہے ہیں۔ اس پر سوائے اس کے اور کیا کہاجا سکتا ہے بڑی دیر کر دی ظالماں آتے آتے۔