مجھے نہیں معلوم یہ کس کی تحریر ہے اس پر لکھا تھا ”بائوضی کی ڈائری سے ایک ورق” لیکن یہ اتنی خوبصورت تحریر ہے کہ اسے دنیا تک پہنچنا چاہیے یہ ایک نصیحت بھی ہے اذیت بھی ہے وصیت بھی ہے ان لوگوں کے لیے جو اپنی اولاد کے لیے حرام کما کر اپنی قبروں میں انگارے بھر لیتے ہیں اپنی عاقبت اندھیری کر لیتے ہیں اس دنیا کی ذلت تو شائد دنیا بھول جائے مگر آخرت خراب کرنے والوں کو کون سمجھائے کہ وہاں نیب کا قانون بدلے گا نہ ریکارڈ جلا سکو گے نہ بیان بدل سکو گے نہ بیٹا کام آئے گا نہ بیٹی ،نہ کوئی خط آسکے گا نہ کوئی خط جا سکے گا تمھارے اپنے ہی ہاتھ پائوں بولیں گے گواہی دیں گے کیا کرو گے ؟چلیے یہ تحریر پڑھتے ہیں۔
آج جمعرات ہے میرے لیے یہ دن بڑا بھاری ہوتا ہے پورا ہفتہ عام قیدیوں کے ساتھ بڑا سکون ہوتا ہے ہاں ہاں ٹھیک ہے وہ بھی مجھے چور چُوڑا کہتے رہتے ہیں ایسے ہی ایک دن ایک قیدی قریب سے گذرا تو بولا سارا ٹبر چور ہے پتہ نہیں میری کسی کونے میں سوئی ہوئی غیرت کیوں جاگ گئی اس کی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی تھی کہ بہت دنوں سے گھر کا کھانا نہیں کھایا تھا جیل کے کھانے میں وہ حرام کہاں جو آنکھوں کی شرم اور غیرت چھین لے اس لیے میں آجکل خود کو تھوڑا تھوڑا بیغیرت محسوس کر رہا ہوں وہ کیا ہے کہ بے غیرت محسوس کرنا بھی غیرت مندی کی ہی ایک سٹیج ہوتی ہے ھاں تو میں کہہ رہا تھا ایک قیدی قریب سے گذرا اس نے سارا ٹبر چور ہے کا نعرہ ابھی لگایا ہی تھا کہ میں نے اس کا گریبان پکڑ لیا میں نے کہا ہاں بھئی تم تو بڑے حاجی ثنا اللہ ہو ایویں جیل کاٹ رہے ہو ؟قیدی نے ایک جھٹکے سے اپنا گریبان چھڑایا اور میری توند پر کک مارتے ہوئے بولا ،او میاں ساب ! بڑی غیرت کھا گئے ہو خیر تے اے؟ اس وقت غیرت کہاں مر گئی تھی جب مریم کو قطری خط لینے بھیجا تھا اور ہاں محلے کی مرغی چرانے اور ملک کی دولت چرانے میں فرق ہوتا ہے۔
ابھی میں اس کے پیٹ میں گھونسا مارنے کا سوچ ہی رہا تھا کہ اس کے ساتھی قیدیوں نے چاروں طرف سے مجھے گھیر لیا سچی میں اتنے دنوں بعد اتنے سارے انسانوں کو دیکھ کر مجھے اچھا لگا ورنہ جمعرات کو تو بس گھر والے اور پٹواری ہی آتے ہیں میں نے کہا ہاں بھئی ہاں میں ہوں دلوں کا وزیراعظم آپ سب کا بہت شکریہ ،ایک قیدی نے میرے گریبان میں ہاتھ ڈالا میں نے گھبرا کر چھڑایا تو وہ پھٹ پھٹا کر جھولنے لگا ابھی میں اس صورت حال پر غور کر ہی رہا تھا کہ پیچھے سے ہنسنے کی آواز آئی دیکھا تو مریم اور شہباز میری حالت پر ہنس رہے تھے میرا منہ کڑوا ہو گیا ،شہباز بولا بائو جی جاب کیسی چل رہی ہے ؟پھر منہ دبا کر ہنسنے لگا ،مریم بولی ابا بھلا یہ کیا بات ہوئی آپ تو اچھے بھلے ہٹے کٹے نظر آ رہے ہیں سچی جب بھی اماں کی قبر پر جاتی ہوں انہیں تسلی دے کر آتی ہوں کہ اماں فکر نہ کریں بائو ضی کو جلد ہی آپ کے پاس لے کر آئوں گی اور یہاں آپ کا کوئی موڈ ہی نہیں ؟وہ منہ بنا کر میری دائیں طرف آکے بیٹھ گئی شہباز بھی بائیں طرف آکے بیٹھ گیا میں نے ماحول کو خوش گوار بنانے کی خاطر کہا ”آزو بازو تار بیچ میں سردار شہباز جھٹ بولا ”آزو بازو کنگھی بیچ میں بیٹھا بھنگی ”دونوں زور زور سے ہنسنے لگے میرا موڈ سخت خراب ہو گیا میں نے کہا ذرا مجھے ملکی صورت حال بتا دو کمبختو،مریم چمک کر بولی بائو جی بائو۔۔۔آپ کے لیے اچھی خبر ہے بلاول کو نیب نے بلا لیا ہے۔
اس نے حکومت کے خلاف بیانات دیے ہیں میرا موڈ اچھا ہو گیا کیونکہ میں نے ابا جی سے سنا تھا کھسروں کا دل نہیں دکھانا چاہیے ان کی دعا بد دعا ضرور لگتی ہے مریم نے میرے چہرے پر مسکراہٹ دیکھی تو بولی آپ کو کس بات پہ مسکرانا آ رہا ہے ؟ میں نے کہا بس پتر اچھے دن یاد آ گئے شہباز بولا بائو جی ہم نے ایک نیا بیان تیار کیا ہے کہ انہتر سالہ شخص جس کے دل میں آٹھ سٹنٹ ڈل چکے ہیں اس کو جیل میں نہیں رکھا جا سکتا میں نے کہا او شہباز اللہ سمجھے تم سے اگر جیل میں کوئی حسینہ انٹر ویو شنٹر ویو کرنے آ گئی اور اس کو تونے میری عمر بتا دی تو وہ کیسی مایوس ہو گی اچھا مریم پتر دیکھ تو نے اپنی اماں کے کپڑے تو پہننے نہیں ہیں کتنے ہزاروں سوٹ ،کروڑوں کی گھڑیاں ،پرس سب ویسے کے ویسے پڑے ہیں میں نے سنا ہے جو جیل میں اچھے کام کرتا ہے اس کو عورتوں کی جیل میں بھیج دیتے ہیں اگر ایسا ہوا نا مریم پتر تو میں ان گریب عورتوں کو تحفے دے دوں گا تیرا کیا جاتا ہے ؟ ہو سکتا ہے میں ان میں سے کسی کو تیری نویں اماں بنا دوں شہباز بولا اوہ بائو جی میں برقعہ پہن کر عورتوں کی جیل دیکھ آیا ہوں ایک بھی اچھی شکل نہیں ہے آپ ایسا کریں ٹائم نکال کر مر جائیں ہمارے پاس اس وقت آپ ہی کا سہارا ہے آپ کو کچھ نہ ہوا تو ہمیں بہت کچھ ہو جائے گا۔
مریم بولی ابا ویسے بھی اب آپ انہتر سال کے ہو گئے ہیں ہمارے ہاں مردوں کی ایورج عمر ستر سال ہے میں نے کہا پتر مجھے تو کم سے کم سو سال جینا چاہیے میں نے کون سا کبھی پاکستان میں علاج کرایا ہے ہمیشہ گورے ڈاکٹروں نے میرا گورا جسم دیکھا ویسے بھی مریم پتر پاکستانی ہسپتالوں کی کالی پیلی سوکھی سڑی نرسیں دیکھ کر جی برا ہوتا ہے بس تو ایک بار مجھے لندن پہنچا دے میری آنکھوں میں آنسو آ گئے ہائے کیا دن تھے جب میں ہر مہینے لندن ہوتا تھا عمران تیرا ککھ نہ جاوے مریم بولی ابا اماں کا علاج پاکستان کے خرچے پر دنیا کے مہنگے ترین ہسپتال میں ہوا تھا پھر بھی وہ مر گئی اس وقت مریم کے چہرے پر مجھے عجیب سی سفاکی نظر آئی جیسے کہہ رہی ہو تم کتنے ڈھیٹ ہو پاکستانی جیل کا پانی پی کر بھی جی رہے ہو ۔۔۔جیل میں لگے پیپل کے درختوں سے کوئی گدھ اڑتا ہوا دکھائی دیا میں نے گھبرا کر مریم اور شہباز کی طرف دیکھا ۔۔۔لیکن گدھ تو مردار کھاتے ہیں حرام سے پلی مخلوق گدھوں کی طرح انتظار نہیں کرتی ،مار دیتی ہے جمعرات کی ایک اور شام مجھے خوف زدہ کر کے ختم ہو رہی تھی !