تحریر : امتیاز علی شاکر:لاہور جو غیرت بہن بیٹی کی عمر بلوغت کی حدود سے گزر کر بزرگی کے جنگل میں داخلے تک باپ ،بھائی کو بہن ،بیٹی کا نکاح کروانے پر مجبور نہیں کر پاتی ہم اسے غیرت تسلیم کرنے سے قاصر ہیں ،عورت پر بد چلنی کا الزام لگاکرقتل کرنے والوں کی غیرت انھیں یہ کیوں نہیں بتاتی کہ جب بچے بالغ ہوجائیں تو ان کے نکاح کردینے چاہیے ،عورت کسی دیواریادرخت کے ساتھ تو بدچلنی نہیں کرتی ،غیرت مند معاشرے کا غیرت مند مرد کسی کی بہن ،بیٹی کو بد چلن بنانے سے قبل اپنی قاتل غیرت کا گریبان کھول کرہواکیوں نہیں لگواتا؟جس معاشرے میں نکاح مشکل اوربدکاری آسان ہواسے غیرت کی بات کرتے وقت کروڑ بارسوچناچاہئے ،آدھی درجن بچے پیداکرنے کے بعد بیوی پربدچلنی کے شبہ میں بیوی کے ساتھ معصوم بچوں کوبھی قتل کردیاجاتاہے۔
شوہر کی غیرت اچانک کیسے جاگ جاتی ہے؟جھگڑابیوی کے ساتھ اورصرف چھ دن کی معصوم بچی کوقتل کردینا یہ غیرت تو نہیں حیوانیت ہے،کیاچھ دن کی عمر میں باپ نے بیٹی کوقتل کرکے غیرت کے تقاضے پورے کئے یادائرہ انسانیت سے خارج ہوگیا؟صبح سویرے اخبار کھولاتو اس خبر نے سچ میں رولادیا، الٰہ آباد میں سفاک شخص نے بیوی سے جھگڑنے کے بعد 6 روز کی بچی سمیت 3 کم سن بچوں کو زندہ جلا دیا،ملزم خود بھی زخمی ہوگیا۔کہاجاتاہے کہ غیرت اور غربت نے معاشرے میں عدم برداشت کو فروغ دیا ہے ،راقم غربت یا غیرت کو الزام دیئے بغیر جہالت کو پھانسی چڑھانے کاحامی ہے ،جومرد بہن ،بیٹی کو وراثت میں حق نہیں دیتاوہ نہ توغریب ہے اورنہ ہی غیرت مند۔ غیرت کے نام پر ہونے والے قتل کے واقعات میں جہاں ایک طرف اضافہ ہوتا جارہا ہے وہیں ان واقعات میں ملوث ملزمان زیادہ تر سزا سے بچ جاتے ہیں۔
عام طورپرقاتل باپ،بھائی یاشوہر ہوتے ہیں جنہیں جلد گھروالے معاف کردیتے ہیں اورمقدمہ ختم ہوجاتاہے،ریاست بھنگ پی کر سوتی رہتی ہے،اس قاتل غیرت کا شکار زیادہ تر عورت ہی ہوتی ہے ایسا بہت کم ہوتاہے کہ کوئی مرد غیرت کے نام پر قتل ہو ۔ مردوں کی غیرت صرف خواتین پر تشدد کرنے یا انہیں جان سے مارنے میں ہی رکھی ہے؟رپورٹ شدہ اعدادوشمار کو اکٹھاکیاجائے توایک محتاط اندازے کے مطابق 2015ء میں ملک میں 1096 خواتین کو غیرت کے نام پر قتل کیا گیا جبکہ 2014ء میں غیرت کے نام پر قتل کی جانے والی خواتین کی تعداد 1005 رہی۔ 2013ء میں قتل ہونے والی خواتین کی تعداد 869 تھی۔ایک رپورٹ کے مطابق پاکستان میں پچھلے پانچ سال میں پنجاب اور سندھ میں پانچ ہزار خواتین غیرت کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
یاد رہے کہ غیرت کابہانہ بناکرخواتین کے قتل کے زیادہ واقعات رپورٹ نہیں ہوتے ،ہواکی بیٹی کو راتوں رات ٹھکانے لگادیاجاتاہے،لوگ بیٹی کاجنازہ توپڑھ لیتے ہیں پراپنی عزت کاجنازہ نکلتادیکھ کر خاموشی اختیارکرلیتے ہیں ۔معاشرے میں دہشتگردی پھیلاتی نام نہاد ،جعلی غیرت پر بہت بڑا سوال اٹھتا ہے کہ کیا عورت پر بزدلانہ تشدد کرنا اسے ناحق قتل کرنا ہی غیرت ہے؟راقم کے خیال میں جومردعورت کووراثت میں حصہ نہیں دیتا،بالغ ہونے پرنکاح نہیں کرواتا،جومعاشرہ بیٹی پیداہونے پرسوگ مناتاہواس کانہ تو مذہب کے ساتھ کوئی تعلق ہوسکتاہے اور نہ ہی غیرت کے ساتھ ،عورت محرم مرد کی موجودگی میں خودکومحفوظ تصورکرتی ہے افسوس کہ یہی محرم مردغیرت کابہانہ بناکر ایک کمزورکوناحق قتل کردیتاہے۔
دنیاکی تاریخ گواہ ہے کہ زمانہ جہالت میں عورت مظلوم ہی رہی ہے۔ یونان ، مصر، عراق ، ہند، چین سمیت دنیاکے کونے کونے میںبسنے والی ہرقوم عورت کوانسان تصورکرنے سے قاصر رہی،دنیامیں کوئی ایسی جگہ نہیں تھی جہاں عورتوں پر ظلم کے پہاڑ نہ توڑے جاتے ہوں۔ لوگ عیش وعشرت کی غرض سے خواتین کی خریدوفروخت کرتے ان کے ساتھ حیوانوں سے بھی بْرا سلوک کیاجاتاتھا؛ حتی کہ اہلِ عرب عورت کے وجود کو موجبِ عار سمجھتے تھے اور لڑکیوں کو زندہ درگور کردیتے تھے۔ ہندوستان میں شوہر کی چتا پر اس کی بیوہ کو جلایا جاتا تھا۔ واہیانہ مذاہب کے پیروکارعورت کو گناہ کا سرچشمہ اور باعث شرم سمجھتے تھے۔ اکثرمعاشروں اور تہذیبوں میں خواتین کی سماجی حیثیت نہیں تھی۔اپنی ہی بیٹی کو حقیر وذلیل نگاہوں سے دیکھاجاتا ،اسلام کی روشنی پھیلی توعورت کواس کااصل مقام دیاگیا،وراثت میں حصہ دے کرمعاشی طورپرمضبوط کیاگیا،مردوں پرخواتین کے حقوق فرض کردیئے گئے،بیٹی کوزحمت سے رحمت بنادیاگیا،بیوی کے حقوق واضع کردیئے گئے،تعلیم و تربیت کاحکم صادرفرمادیاگیا،شک کی بنیادپرتشددسے روک دیاگیا۔افسوس کے آج مسلم معاشرے میں شک کی بنیادیادیگروجوہات کی بناپرخواتین کوقتل کرکے غیرت کاسرفخرسے بلند کیاجاتاہے جبکہ یہ فخرکانہیں شرم کامقام ہے،دورحاضرمیں جاہل معاشرہ جسے غیرت بیان کرتاہے یہ غیرت تو نہیں!