تحریر : مسز جمشید خاکوانی وزیر اعظم ہائوس میں شرمین عبید چنائے کی فلم ”اے گرل ان دا ریور، دی پرائس آف فار گیو نیس” کی تقریب رونمائی سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم نواز شریف نے کہا غیرت کے نام پر قتل غیرت نہیں جرم ہے خواتین کو تحفظ فراہم کرنے کے ہر ممکن اقدام کریں گے یقینا یہ ایک احسن اقدام ہے اور شرمین عبید چنائے اس سلسلے میں ایوارڈ بھی وصول کر چکی ہیں شرمین ایک ٹی ای ڈی فیلو اور ہلال امتیاز پاکستان کے دوسرے سب سے بڑے اعزاز کی وصول کنندہ ہے۔
دنیا میں سب سے زیادہ بااثر لوگوں کی سالانہ لسٹ میں اس کا 37واں نمبر ہے لیکن کیا شرمین عبید چنائے پاکستان کی غالب اکثریت کی نمائندگی کرتی ہے؟ کیا وہ ان لواحقین سے ملی کس بات نے انہیں اس انتہائی اقدام پہ مجبور کیا؟ ایسا کیا ہوتا ہے کہ جان چھڑکنے والے ماں باپ عزیز رشتہ دار اپنی ہی بیٹی کو اتنی بے دردی سے اینٹیں مار مار کر موت کے گھاٹ اتار دیتے ہیں۔
یہ ہمارے سماج کا رویہ ہے جو جینے نہیں دیتا لوگوں کی تضحیک آمیز نظریں طعنے بازیاں گھر والوں کو زندہ در گور کر دیتی ہیں لڑکیاں اپنی نادانی میں جو گل کھلاتی ہیں اس کا خمیازہ پورے خاندان کو بھگتنا پڑتا ہے جس کی وجہ سے انکی ذہنی حالت ابتر ہو جاتی ہے غیرت کے نام پہ قتل ایک نفسیاتی المیہ ہے اس کی روک تھام کے لیے ان عوامل کو دور کرنا ہو گا کہ آخر ایسا ہوتا کیوں ہے دیکھا جائے تو بہت پڑھی لکھی لڑکیاں ایسے عوامل سے دور رہتی ہیں کیونکہ ایک تو تعلیم انہیں شعور دیتی ہے دوسرا تعلیم کو سنجیدگی سے حاصل کرنے کے لیے ان کے پاس اتنا وقت ہی نہیں ہوتا کہ دوسری خرافات میں وقت گذارا جائے۔
Honor Killing
ایسے لوگوں کی تعداد آٹے میں نمک کے برابر ہے جو اعلی تعلیم یافتہ ہوں اور غیرت کے نام پر قتل بازیوں میں ملوث ہوں اگر لڑکیاں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہوں تو وہ ان مسائل سے دور رہتی ہیں کم تعلیم بجائے خود ایک المیہ ہے اس میں لڑکیاں نہ ادھر کی رہتی ہیں نہ ادھر کی ،وہ کھلی آنکھوں سے خواب دیکھنا شروع کر دیتی ہیں ان کے خواب اونچے اور قد چھوٹے ہوتے ہیں لیکن غیرت کے نام پر قتل میں مرد چاہے ان پڑھ ہو یا اعلیٰ تعلیم یافتہ وہ ایک ہی جیسی ذہنیت کا حامل ہوتا ہے کہ طعنے دینے والے ،غیرت و عزت کا مذاق اڑانے والے یکساں ذہنیت رکھتے ہیں وہ اس وقت تک مذاق اڑاتے رہتے ہیں جب تک کسی کی جان نہیں چلی جاتی لہذا شرمین عبید چنائے کو اس پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے صرف لڑکیوں پر ہونے والے ظلم کو اجاگر کرنے سے سوائے پاکستان کی بدنامی کے اور کوئی مثبت اثر نہیں ہو گا۔
شرمین کو ایسی لڑکیوں کے والدین سے بھی ملنا چاہیے ان کے حالات کو جانچنا چاہیے کہ لڑکی کے فرار کے بعد ان پر کیا گذرتی ہے ہمارا کلچر مغرب جیسا نہیں کہ جہاں اٹھارہ سالہ لڑکے لڑکیوں کو اپنی زندگی خود گذارنے کے لیے گھر چھوڑنا پڑتا ہے گذارے کے لیے وہ دنیا کے بہترین اور بد ترین دونوں طرح کے کام کرنے پر مجبور ہوتے ہیں ان کو کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا کہ انہوں نے شادی کی یا شادی کے بغیر بچے پیدا کیے جسم فروشی کر کے پیسہ کمایا یا کسی جائز ذریعے سے ضروریات پوری کیں ؟جہاں اس طرح کا چیک ہی نہ ہو وہاں سب ایک جیسے ہوتے ہیں ان کے والدین کو ایسے طعنے نہیں سننے پڑتے نہ یہ انکی عزت و غیرت کا مسلئہ ہوتا ہے وہ جہاں چاہیں شادی کریں کوئی روک ٹوک نہیں ہوتی جب چاہیں بندھن توڑ دیں کوئی پوچھنے والا نہیں ہوتا انکے ماضی کی پوچھ گچھ نہیں ہوتی ہمارے ہاں ہر ہر لمحے کا حساب ہوتا ہے حتی کہ کوئی لڑکی بھاگ کر شادی کرے یا لو میرج کر لے قبر تک جانے تک اس کا احتساب ہوتا رہتا ہے یہی وجہ ہے کہ ماں باپ اپنی بچیوں کو ایسے حالات سے بچانے کے لیے قدغنیں لگاتے ہیں۔
اس کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ شادی کو ایک مشکل ترین فریضہ بنا دیا گیا ہے لڑکیاں جہیز جمع کرتے کرتے بوڑھی ہو جاتی ہیں ،کہیں بڑی بہنوں کے ہوتے چھوٹی بہنوں کی باری نہیں آتی تو ایسے میں چونکہ ہر لڑکی کی فطرت ایک جیسی نہیں ہوتی لہذا کوئی نہ کوئی ایسی بھی ہوتی ہے جو سہرے کے پھول کھلنے کا انتظار نہیں کرتی اور گھر سے بھاگ جاتی ہے اسی طرح لڑکے بھی کہیں ماں باپ کی پسند نہ پسنداور کہیں بڑی بہنوں کی ذمہ داریوں میں پھنسے ہونے کی وجہ سے بعض اوقات کم عمر نادان لڑکیوں کو گھر سے بھگانے اور ورغلانے کا سبب بنتے ہیں آجکل کیبل پر دیکھے جانے والے ڈراموںکے گلیمر نے بھی آفت ڈھائی ہوئی ہے خوبصورت جدید ملبوسات اور میک اپ لڑکیوں کے لیے کشش کا باعث ہوتے ہیں کمتر اور غریب گھرانوں کی لڑکیاں ایسی چیزوں کے لیے بھی ورغلانے میں آ جاتی ہیں۔
کم تعلیم یا کم عمری کی وجہ سے انہیں عقل سمجھ نہیں ہوتی آنکھوں پر چمکیلی پٹی بندھ جاتی ہے جس کی وجہ سے وہ ایسے قدم اٹھاتی ہیں جو بعد میں غیرت کے نام پر قتل کا باعث بن جاتے ہیں۔ان عوامل میں عورتوں کا حسد ،مکاری،اور رشتوں کی سفاکی بھی بہت بڑا کردار ادا کرتی ہے ساس بہو کا جھگڑا ہو یا نند بھاوج کا مردوں کو طعنے دیکر اشتعال دلانے میں ان کا اہم کردار ہوتا ہے یہ ایک حقیقی واقعہ ہے بلکہ میں ایسی لاتعداد مثالیں دے سکتی ہوں۔
چارسدہ کے علاقے عمر زئی میں ایک گھر کے موبائل پر رانگ کال آئی جسے ایک عورت نے ریسیو کیا یہ احساس ہونے پر کہ واز اجنبی ہے اس نے رانگ نمبر کہہ کر فون رکھ دیا لیکن وہ لڑکا آواز سن چکا تھا کہ فون اٹینڈ کرنے والی جوان عورت لگتی تھی اس نے مسلسل کالز اور میسج کرنا شروع کر دیے جانو تم موبائل کیوں نہیں اٹھا رہی ؟اور اسی طرح کے اور میسج کرتا رہا اس عورت کی ساس لڑائی جھگڑے والی خاتون تھی اور بہو سے خوش بھی نہ تھی کیونکہ اس کی بیٹی اس کی بہو کے بھائی کے نکاح میں تھی اور وہ اس گھر میں خوش نہ تھی لہذا وہ بہو کو زک کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیتی تھی اگلے دن جب فون بجا تو ساس نے اٹھا لیا لڑکا چھوٹتے ہی بولا جانو تم فون کیوں نہیں اٹھا رہی تھی میں تمھارے لیے تڑپ رہا ہوں ساس خاموشی سے سنتی رہی اور پھر فون بند کر دیا رات کو کو جب اس کا بیٹا گھر آیا تو اس نے تمام واقعہ نمک مرچ لگا کر بتایا اور فون پر میسج بھی دکھائے جس پر شوہر سخت اشتعال میں آگیا اس نے بیوی کو رسی سے باندھ کر زدوکوب کیا اور پھر اس کے بھائی اور ماں کو بھی بلا لیا اس کے بھائی کو بہن کے ”کرتوت” بتائے اس عرصے میں اس کی ساس مسلسل طعنہ بازی کرتی رہی جس پر اس کی بہو کا بھائی بھی طیش میں آ گیا اور اپنی بہن کے سر میں چار گولیاں مار کر اسے قتل کر دیا۔
A Girl in the River
اس مقتولہ عورت کے ایک اور بھائی نے اپنی بہن کی ساس ،شوہر،اپنے بھائی اور اس نامعلوم فون کرنے والے کے خلاف ایف آئی آر کٹوا دی ان کو پولیس پکڑ کے لے گئی جب پولیس نے موبائل کا ڈیٹا ریکارڈ چیک کیا تو معلوم ہوا مقتولہ نے صرف ایک بار فون ریسیو کیا تھا باقی سب کالز اور میسج یکطرفہ تھے جب اس بات کا علم اس کے قاتل بھائی کو ہوا تو اس نے جیل میں خودکشی کر لی اور اپنے بھی چار بچوں کو یتیم کر گیا جس طرح اس نے اپنی بہن کے چھ بچوں کو بن ماں کے کیا تھا یوں عورتوں کی رنجش اور فساد میں دوگھر اجڑ گئے اور دس بچے یتیم ہو گئے ۔یہ صرف جہالت ہے اور عورتوں کے حسد کو بنیادی عوامل قرار دیا جا سکتا ہے۔
اہم بات یہ ہے کہ اعتراض اس امر پہ نہیں کہ ایسی ڈاکیو منٹری نہ بنائی جائیں یا غیرت کے نام پر قتل جائز فعل ہے بلکہ نقطہ اعتراض یہ ہے کہ تصویر کا ایک پہلو دکھانے سے بین الاقوامی سطع پر پاکستان کا جو تاثر اجاگر ہو رہا ہے کہ شائد پاکستان میں دہشت گردی ، تیزاب گردی ،ونی اور اور غیرت کے نام پر قتل کے سوا کچھ نہیں ہوتا یہاں کے سب لوگ جہالت میں ڈوبے ہیں اور پڑھی لکھی مثبت سوچ ہے ہی نہیں یہ بات پاکستان اور مسلمانوں کا منفی تاثر پیش کرتی ہے۔
اگر ان ڈاکیو منٹریز میں مظلوم اور ملزم کو موضوع بنانے کی بجائے تصویر کے دونوں رخ دکھائے جائیں کہ لڑکی کو کیا عوامل ایسے قدم اٹھانے پر مجبور کرتے ہیں اور لواحقین کو اس کے بعد کس کرب سے گذرنا پڑتا ہے کہ وہ غیرت کے نام پہ قتل جیسے قبیح فعل کو ہی آخری حل سمجھتے ہیں ایسے کون سے اقدامات ہیں جو ایسے نفسیاتی رویوں کی بجائے مثبت سوچ کو ہمارے معاشرے میں فروغ دیں کہ لوگ غیرت کی دھند میں اندھا ہونے کی بجائے ٹھنڈے دل سے معاملات پر غور کریں تا کہ معصوم انسانی جانیں بچائی جا سکیں۔