اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستان کی پارلیمنٹ نے جمعرات کے روز غیرت کے نام پر قتل سے متعلق قوانیں کی منظوری دے دی جس کا طویل عرصے سے انتظار کیا جا رہا تھا۔
اس قانون کی عدم موجودگی کے باعث قاتلوں کو سزاؤں سے بچ نکلنے کا راستہ مل جاتا تھا۔
نئے قانون کے تحت عزت کے نام پرقتل کرنے والوں کو لازماً عمر قید یعنی 25 سال جیل کی سزا کاٹنا ہوگی۔ اور مقتول کے ورثاء کے معافی دینے کا اختیار ختم کردیا گیا ہے۔
اس سے قبل قتل کیے جانے والے افراد کے ورثاء کو یہ حق حاصل تھا کہ وہ قاتل کو معاف کرسکتے تھے۔
اس سقم کا فائدہ اٹھاتے ہوئے مقتول کے ورثاء تصفیہ کرکے عدالت میں قاتل کو معافی دے دیتے تھے جس سے وہ رسزا سے بچ جاتا تھا۔ کئی واقعات میں قاتل اور مقتول کا تعلق ایک ہی خاندان سے ہوتا تھا اور قاتل کو سزا نہیں ہوتی تھی۔
انسانی حقوق کی تنظیموں کا کہنا ہے کہ پاکستان میں ہرسال سینکڑوں عورتوں کو خاندان کی عزت بچانے کے لیے مبینہ طور پر غیرت کے نام پر قتل کردیا جاتا ہے۔
اکثر واقعات میں غیرت کے نام پر قتل ہونے والے اپنی پسند کی شادی کرنے والے نوجوان جوڑے ہوتے ہیں۔
جولائی میں ایک ماڈل اور سوشل میڈیا کی ایک اسٹار قندیل بلوچ کو اس کے بھائی نے گلا گھونٹ کر ہلاک کردیا تھا۔ اس نے اپنے اعترافی بیان میں کہا تھا کہ اس نے اپنی بہن کو قابل اعتراض حرکات کی وجہ سے قتل کیا ہے۔
قندیل بلوچ کا قتل بہت دنوں تک مقامی اور بین الاقوامی میڈیا کی شہ سرخیوں کا موضوع بنا رہا تھا۔
پارلیمنٹ نے اس بل میں خواتین سے جبری جنیسی زیادتی سے متعلق دفعات کی بھی منظوری دی جس کے تحت اب ریپ کا نشانہ بننے والی خواتین کا ڈی این اے کرانا ضروری ہو گا اور عورت کی شناخت کو ظاہر نہیں کیا جائے گا۔
ریپ سے متعلق دفعات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کا فیصلہ 90 دن کے اندر ہوگا۔ اگر ایسا واقعہ تھانے کی حدود کے اندر ہوا تو مجرم کو دوہری سزا ملے گی۔