غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون کے مسودے کی منظوری

Protest

Protest

اسلام آباد (جیوڈیسک) پاکستانی پارلیمنٹ میں حزب اقتدار اور حزب مخالف سے تعلق رکھنے والے قانون سازوں نے غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون کے مسودے کو منظور کر لیا ہے۔

پارلیمنٹ کی انسانی حقوق سے متعلق کمیٹی نےجمعرات کے روز وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں ہونے والےاجلاس میں اس بل کو منظور کر لیا ہے ۔ توقع کی جا رہی ہے کہ اس بل کو حتمی منظوری کے لیے جلد پارلیمنٹ میں پیش کر دیا جائے گا۔

پاکستان مسلم لیگ نون کی رکنِ قومی اسمبلی مائزہ حمید نے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ’اس بل کے تحت غیرت کے نام پر قتل کے مقدموں میں تحقیقات کے بعد صرف جج کے پاس یہ اختیار ہوگا کہ وہ فیصلہ کرے کہ مقتولہ کے ورثا پر ملزم کو معاف کرنے کا دباؤ ڈالا جا رہا ہے یا نہیں۔‘

خیال رہے کہ پاکستان میں حقوق نسواں کی تنظیموں کا موقف رہا ہے کہ غیرت کے نام پر ہونے والے جرائم میں اکثر ملزم اس لیے سزاؤں سے بچ جاتے ہیں کہ پاکستان میں رائج قانون کے تحت مقتول کے ورثا قاتل کو معاف کرنے کا حق رکھتے ہیں۔

ماضی میں دائیں بازو کی سیاسی جماعتیں غیرت کے نام پر قتل کے خلاف قانون پر تحفظات کا اظہار کر چکی ہیں۔ مائزہ حمید کا کہنا ہے کہ ان تحفظات کو مدِ نظر رکھتے ہوئے پیپلز پارٹی کی سینیٹر صغرا امام کے 2015 کے بل میں تبدیلیاں لائی گئی ہیں۔

مائزہ حمید نے کہا کہ ’وزارتِ قانون اس بل کا مسودہ اس لیے ظاہر نہیں کر رہی ہے کیونکہ میڈیا کیڑے نکالتا ہے۔ اس بل پر پارلیمنٹ میں بحث ہوگی تو سب سامنے آ جائے گا۔‘ ’تمام سیاسی جماعتوں نے ان بل کو منظور کر لیا ہے۔ اور یہ وزیرِ اعظم کے لیے بہت اہم تھا تاکہ اعتراضات نہ ہوں جیسے کہ اسلامی نظریاتی کونسل کی جانب سے۔‘

ان کا مزید کہنا تھا کہ ’قندیل بلوچ کے قتل کے بعد حکومت نے اس بل کی منظوری کو ترجیح دی ہے۔‘

وزیر قانون زاہد حامد کی سربراہی میں 21 جولائی کو ہونے والے اجلاس میں سینیٹر مشاہد اللہ خان، سینیٹر سعید غنی، رانا افضل خان، خرم دستگیر خان، نوید قمر، اسد عمر، فاروق ستار اور مولانا فضل الرحمان شامل تھے۔