تحریر: روشن خٹک ایک عرصہ دراز سے یہ بات محسوس کی جا رہی تھی کہ وطنِ عزیز میں آئے روز خواتین کے ساتھ ہتک آمیز رویوں، گھریلو تشدد، خواتین کو زندہ جلائے جانے، تیزاب گردی، جسمانی تشدد ، اور غیرت کے نام پر ہزاروں خواتین کے قتل جیسے واقعات میں اضافہ ہو رہا ہے، جسے روکنے کے لئے مو ثر قانون سازی کی اشّد ضرورت ہے۔پاکستان میں خواتین کو اگر چہ دیگر کئی قسم کے مسائل کا سامنا ہے مگر ان میں ”غیرت یا عزت کے نام پر قتل ” ایک بہت بڑا مسئلہ رہا ہے ، غیرت کے نام پر قتل کا مطلب یہ ہے کہ کوئی خاتون کسی مرد سے شادی کیے بغیر جسمانی تعلق قائم کر لے ۔اس زمرے میں کسی دوسرے ایسے آ دمی سے شادی کر نا بھی شامل ہے جو خاندان والوں کو پسند نہ ہو ۔امنیسٹیی انٹر نیشنل کے اعداد و شمار کے مطابق پاکستان میں سال 2013ممیں غیرت کے نام پر 869 قتل ہوئے، سال2014میں یہ 1000تھی ا ور سال 2015میں یہ تعداد بڑھ کر1100ہو گئی تھی۔یقینا یہ ایک تشویشناک صورتِ حال ہے اور اس کا سدِ باب ہونا چاہیے۔
مگر اب مقامِ شکر ہے کہ گزشتہ روز پارلیمنٹ نے غیرت کے نام پر قتل اور ریپ سے متعلق بل متفقہ طور پر منظور کر لئے ہیں۔ یہ دونوں بل پارلیمنٹ میں حزبِ مخالف کی بڑی جماعت پاکستان پیپلز پارٹی کے سینیٹر فرحت اللہ بابر نے پیش کئے تھے ۔ اس بل کے تحت غیرت کے نام پر قتل کے مقد مات کو ناقابلِ تصفیہ قرار دیا گیا ہے، فریقین کو راضی نامہ کا اختیار نہیں ہو گا۔اور بل کے تحت مجرم قرار دئیے جانے والے شخص کو عمر قید سے کم سزا نہیں دی جا سکے گی ۔ ریپ کے مقدمات میں ڈی این اے ٹیسٹ کو لازمی قرار دیا گیا ہے۔ اس کے علاوہ متا ثرہ خاتون کی شناخت ظاہر نہیں کی جا سکے گی۔
Voilence on Women
ریپ کے مقد مات میں یہ بھی کہا گیا ہے کہ ان مقدمات کا فیصلہ نوے روز میں کیا جائے گا۔ واضح رہے ،یہ دونوں بل گزشتہ ڈھائی سال سے التوا کا شکار تھے کیونکہ حکمران جماعت کے بعض اتحادی جماعتوں کو ان دونوں بلوں پرتحفظات تھے۔ امیر جماعتِ اسلامی سینیٹر سراج الحق نے خواتین سے زیادتی اور غیرت کے نام پر بل کی مخالفت کرتے ہو ئے کہا کہ یہ بل شریعت کے منافی ہے کیونکہ اس میں فریقین کو صلح کے حق سے محروم کر دیا گیا ہے جو کہ اسلامی احکامات کی کھلی خلاف ورزی ہے۔
ہو سکتا ہے دیگر مذہبی جماعتوں یا بعض علماء دین کو اس بِل پر اعتراض ہو، دین کی باریکیاں وہی جانتے ہیں البتہ ہمارے زیرِ مطالعہ یہ بات ضرور رہی ہے کہ کہ اسلام نے کسی شخص کو انفرادی طور پر یہ حق نہیں دیا کہ وہ ان سزاوں کا نفاذ کرے جو اسلام نے مقرر کی ہیںْاس معاملے میں کو ئی شخص قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔
اگر یہ سزائیں دینے کا کوئی حق رکھتا ہے تو وہ حکومت ہے ۔نبی کریم نے اپنے دور میں ایک مشہور صحابی سعد بن عباد رضی اللہ تعالیٰ کو سر زنش کی کہ ایک شوہر کسی ایسے شخص کو قتل کرنے کا اختیار نہیں رکھتا جسے وہ اپنے بیوی کے ساتھ قابلِ اعتراض حالت میں دیکھے، روایات میں آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ و سلم نے سعد کو بتایا کہ وہ اس سے زیادہ غیرت مند ہیں اور اللہ تعالیٰ نبی صلی اللہ علیہ و سلم سے زیادہ غیرت مند ہے۔
law
اس سے مراد یہ ہے کہ غیرت اپنی جگہ لیکن کوئی انسان بھی قانون کو ہاتھ میں نہیں لے سکتا۔سزائیں دینے کے لئے اسلام کا بتایا ہوا صحیح طریقہ اختیار کرنا چا ہیےْ قرآن مجد کے مطابق موت کی سزا صرف دو صورتوں میں دی جا سکتی ہے ،، ایک صورت میں جب کسی نے کسی دوسرے کو جان سے مار دیا ہو۔ دوسرے اس صورت میں جب کو ئی شخص معاشرے میں بد امنی اور فساد پھیلانے کا مرتکب رہا ہو،کسی اور جرم کی سزا موت نہیں۔ بناء بر ایں ہم سمجھتے ہیں کہ موجودہ حالات میں اس بِل کا پاس ہو نا اندھیرے میں ایک چھوٹی سی کرن ضرور ہے۔
ایسا ملک جہاں قندیل بلوچ کے والدین کی اند و ہناک حالت ہمارے سامنے ہے، وہاں ایسے بِل کا بھاری اکثریت سے پاس ہونا اس بات کا امکان ظاہر کرتا ہے کہ شائد یہ سلسلہ کسی طرح رک سکے، کیونکہ اس طرح کے کیسز میں زبر دستی کی معافی ایک ایسی تلوار ہے جو شائد ملک کی ہر عورت کے سر پر لٹکتی رہتی تھی۔قانون اور عدالتوں کی موجودگی میں لوگوں کا خود ہی عدالت لگا کر خود ہی فیصلہ کر دینا اور پھر گھر کے لوگ خود ہی اس فیصلہ پر عملدرآمد بھی کر دیتے ہیں، جو کہ انصاف کے مروجہ تقاضوں کی تو ہین ہے ، اس سے معاشرے میں لا قانونیت کا رحجان بڑھتا ہے۔اس لئے ہم سمجھتے ہیں کہ قتل کے نام پر قتل کے لئے قانون سازی مو جودہ حکومت کا ایک اچھا اقدام ہے مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس کا نفاذ بھی یقینی بنایا جائے۔