اسلام آباد (جیوڈیسک) غیرت کے نام پر قتل اور خواتین کے خلاف ایسے ہی ہولناک جرائم کی روک تھام کے لیے ایک عرصے سے ایوان اقتدار سے موثر قانون سازی کے مطالبات کیے جاتے رہے ہیں لیکن سماجی رابطے کی ویب سائٹ “فیس بک” پر اپنی بے باک وڈیوز اور متنازع بیانات سے شہرت پانے والی ماڈل قندیل بلوچ کے رواں ماہ اپنے ہی بھائی کے ہاتھوں قتل نے ان مطالبات میں اضافہ کر دیا اور قانون سازی کے لیے حکومت پر خاصا دباؤ دیکھنے میں آیا۔
قندیل بلوچ کو ان کے بھائی وسیم نے 16 جولائی کو ملتان میں ان کے گھر پر گلا دبا کر مار ڈالا تھا اور اگلے روز گرفتار کیے جانے پر ملزم نے اپنے اس فعل کو”غیرت کے نام پر قتل” قرار دیا۔
پاکستانی پارلیمان کے دونوں ایوانوں کی ایک مشترکہ قائمہ کمیٹی نے غیرت کے نام پر قتل اور انسداد عصمت دری کے دو بل جمعرات کو اتفاق رائے سے منظور کیے جس کے بعد قوی امید ہے کہ یہ مجوزہ قوانین جلد ہی پارلیمان سے بھی منظور ہو جائیں گے۔
کمیٹی کے اجلاس کی صدارت کرنے والے وفاقی وزیر برائے قانون و انصاف زاہد حامد نے ان مجوزہ قوانین کے بارے میں صحافیوں کو بتایا کہ غیرت کے نام پر قتل کے خلاف مسودہ قانون میں قصاص کا حق برقرار رکھا گیا ہے لیکن اس کے باوجود عمر قید کی سزا دی جا سکے گی اور ایسے مقدمات میں پہلے کی طرح فریقین کو اپنے طور پر صلح کا حق حاصل نہیں ہوگا۔
انھوں نے بتایا کہ اب انسداد عصمت دری کا قانون متاثرہ خواتین اور مردوں دونوں کے لیے ہوگا اور اس کی درست تفتیش نہ کرنے والے پولیس اہلکار اور اس میں رکاوٹ ڈالنے والوں کے علاوہ متاثرہ فرد کی شناخت ظاہر کرنے والوں کو تین سال قید کی سزا ہوگی۔
پاکستان میں غیرت کے نام پر قتل کوئی غیرمعمولی بات نہیں اور ایسی وارداتوں میں چونکہ خاندان کے فرد ہی ملوث ہوتے ہیں تو لواحقین انھیں معاف کردیتے ہیں جس سے ملزمان قانون کے مطابق کڑی سزا سے بچ نکلنے میں کامیاب رہتے ہیں۔
انسانی حقوق کمیشن پاکستان کی چیئرپرسن زہرہ یوسف مسودہ قوانین کی قائمہ کمیٹی سے منظوری کو ایک اچھی شروعات قرار دیتے ہوئے کہتی ہیں کہ ایسے قوانین کی از حد ضرورت تھی۔
انھوں نے اس امید کا اظہار کیا کہ پارلیمان میں بھی اسے جلد منظور کر لیا جائے گا، لیکن ان کا کہنا تھا کہ قوانین کی موثر نفاذ کو یقینی بنانے کے لیے بھی اقدام کرنا ہوں گے۔
“اس میں تاخیر ہوئی ہے اور اس دوران بہت سارے واقعات ایسے سامنے آئے ہیں غیرت کے نام پر قتل کے علاوہ بھی جن میں انصاف نہیں ملا لوگوں کو اس کے نفاذ کی بھی اتنی ہی ضرور ہے کیونکہ یہ سمجھنا کہ قانون آئے گا اور غیرت کے نام پر قتل ختم ہو جائے گا یا کم ہو جائے گا اس کی اتنی امید نہیں ہے مجھے مگر یہ یہ ہے کہ ہوسکتا ہے کہ انصاف لوگوں کو ملنے لگے۔
زہرہ یوسف کہتی ہیں کہ قوانین بنانے کے بعد ان کی نہ صرف لوگوں بلکہ قانون نافذ کرنے والوں، پولیس اہلکاروں اور ماتحت عدلیہ کے لوگوں میں آگاہی کی بھی بہت ضرورت ہے۔
ادھر پنجاب پولیس نے قندیل بلوچ کے مقدمہ قتل میں تفتیش کے دوران دو مزید افراد کو گرفتار کیا ہے جن کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ ان میں سے ایک ملزم وسیم کا رشتے دار اور ایک وہ ٹیکسی ڈرائیور ہے جو قتل کے بعد وسیم کو ملتان سے ڈیرہ غازی خان لے کر گیا تھا۔
پولیس نے وسیم کو ڈیرہ غازی خان سے ہی گرفتار کیا تھا۔