تحریر: علی عمران شاہین 26اکتوبر کو آنے والے زلزلے نے اگرچہ صوبہ خیبر کے 16اضلاع کو بری طرح متاثر کیا لیکن اس زلزلے کے متاثرین کے ہر طرف سے جیسے نظر انداز کیا گیا وہ ایک دکھ بھری داستاں ہے۔انہی زلزلہ زدگان کے پاس جا کر اندازہ ہوا کہ وہ کن مصائب کیسے کیسے سامنا کر رہے ہیں۔آج بھی آپ ان علاقوں میں جا کر یا وہاں سے پوچھ کر اندازہ لگا سکتے ہیں کہ ان لوگوں کو کیسے چند گھڑیوں میں بھلا ہی دیا گیا۔سندھ کے صحرائے تھر میں نقل و حمل کے لئے اگر ”کیکٹرا” دیکھا تو زلزلہ زدہ شانگلہ میں ایک اور منفرد سواری نظر آئی۔ یہ ایک مخصوص ٹریکٹر ہے جس کے آگے اور پیچھے لوہے کے جنگلے لگا کر ان میں سامان لوڈ کیا جاتا ہے اور پھر یہ لوڈر ٹریکٹر ان پر پیچ اور ناقابل تصور راستوں پر روانہ ہو جاتا ہے جہاں کوئی دوسری سواری چند میٹر بھی آگے نہیں بڑھ سکتی۔ جب پہاڑوں میں موڑ کاٹنے کا مرحلہ آتا ہے تو ٹریکٹر کے ایک طرف کے ٹائروں کو بریک لگا کر اسی جگہ گھمایا اور موڑ کاٹ کر آگے بڑھا جاتا ہے کیونکہ یہاں گاڑی کے آگے یا پیچھے حرکت کی جگہ ہی نہیں ہوتی۔ ضلع شانگلہ کے علاقہ بیلے بابا پہنچیں تو ایسے ٹریکٹر بازار اور سڑک کنارے پر جگہ جگہ نظر آ جاتے ہیں۔
26 اکتوبر کے زلزلہ کے بعدیہی بیلے بابا میں امدادی مرکز بنا تو فلاح انسانیت فائونڈیشن نے ایسے ہی ٹریکٹر کرائے پر حاصل کر کے متاثرین کو کھانا اور راشن پہنچانا شروع کیا جو ایک نیا تجربہ اور نیا امتحان تھا۔کراچی اور حیدرآباد سے چھپنے والے ایک بڑے قومی روزنامہ کے معروف کالم نگار ”سیلانی” ایک ایسے ہی سفر میں فلاح انسانیت فائونڈیشن کے رضاکاروں کے ہمراہ تھے۔ بارش، سردی اور پھر ٹوٹے پھوٹے پہاڑی راستوں پر سفر کرتے ہوئے جب وہ ایک جگہ ٹرک کے پھسلنے کے باعث رکے کھڑے تھے تو وہ کہہ اٹھے ”یہ لوگ تو وہ جاں فدائی ہیں جنہیں میں نے اپنی آنکھوں سے دیکھ لیا ہے۔ یہاں کوئی دوسری این جی او یا تنظیم نہیں دیکھی جا سکتی اور یہ لوگ بغیر کسی لالچ کے یہاں آن پہنچے ہیں۔ ان لوگوں کے پاس یہاں کوئی (میڈیا کا) کیمرہ نہیں ہے۔ پرویز رشید صاحب! آپ ان کی کوریج پر پابندی لگاتے ہیں، بے شک لگائیں کہ ان لوگوں کو آپ کی طرف سے کسی تشہیر کی ضرورت ہی نہیں ہے۔ یہ لوگ تو صرف اللہ کی رضا کے لئے اس کام میں مصروف ہیں”۔زلزلہ زدہ چترال تک پہنچنے کے لئے بالعموم 19 ہزار فٹ بلند لواری ٹاپ عبور کرنا پڑتی ہے کیونکہ لواری ٹنل ایک زمانے سے زیرتعمیر ہے اور یہاں سے گزرنے کے لئے اب بھی خصوصی اجازت نامہ درکار ہوتا ہے۔ زلزلہ کے بعد جہاں متاثرہ علاقوں میں خلاف معمول بارشیں اور برفباری شروع ہوئی تو مشکلات میں اضافہ دوچند ہوا۔ جب ہم چکدرہ کے امدادی مرکز پہنچے تو حافظ عبدالرئوف کو ہلکے تبسم کے ساتھ بیٹھے پایا۔
انہوں نے اس کی فوراً ہی وضاحت یوں کی کہ ہماری 4گاڑیوں کو لواری ٹنل سے گزرنے کی اجازت مل گئی ہے… ان کے الفاظ سن کر سوچنے لگ گیا کہ انہیں اتنی خوشی ایک ایسی بات پر محسوس ہو رہی ہے کہ جس کا انہیں بظاہر تو کوئی فائدہ نہیں۔ کسی کو کیا پتہ کہ زلزلہ زدگان تک یہ لوگ کیسے کیسے پہنچ رہے ہیں، ہاں یہی سب تو دیکھ کر دور خلافت فاروقی یاد آ جاتا ہے کہ جب خلیفہ المسلمین حضرت عمر فاروق نے جنگ نہاوند کے لئے فوج روانہ کی۔ رومیوں کی سپرپاور سے بڑا معرکہ درپیش تھا اور خلیفہ دوم کی پریشانی سب سے زیادہ تھی۔ آپ ہر روز مدینہ کی طرف آنے والے راستے پر بیٹھ جاتے کہ میدان جنگ کی خبر ان تک پہنچ جائے۔ ایک روز ایک تیز رفتار گھڑسوار ان کے پاس پہنچا۔ سلام دعا کے بعد وہ کہنے لگا کہ میدان جنگ سے میں بتانے آیا ہوں کہ آپ کو معلوم ہوا فلاں صحابی بھی شہید ہو گئے، فلاں بھی شہید ہو گئے۔ پیامبرگھڑسوار کی باتیں سن کر عمر فاروق فرمانے لگے کہ مجھے صرف یہ بتائو کہ جنگ کا نتیجہ کیا نکلا…؟ کسی کی شہادت کا عمر کو پتہ چلے یا نہ چلے، اس سے کیا فرق پڑتا ہے۔ ان کا رب ان کی قربانی و شہادت سے خوب واقف ہے کہ جس کی خاطر انہوں نے جانیں قربان کر دی ہیں۔
Earthquake Victims
چکدرہ سٹی کے مسئول حبیب الرحمن بتا رہے تھے کہ زلزلے کے بعد ہم ایک تباہ حال گھر میں پہنچے تو ایک بوڑھی اماں ہمیں اپنے پاس دیکھ کر کہنے لگیں کہ آپ لوگ میری کوئی بات کریں یا نہ کریں، بس آپ لوگ میری دل جوئی کے لئے اور حال پوچھنے آ گئے میرے لئے یہی کافی ہے۔ زلزلہ کے بعد سب سے زیادہ زخمی مینگورہ ہسپتال میں لائے جاتے رہے جہاں کئی روز تک سینکڑوں مریضوں اور ان کے لواحقین کے لئے دن رات کھانا اور چائے کا اہتمام جاری رہا۔ اہل علاقہ آج تک یہ بات بھلانے کو تیار نہیں کہ ان لوگوں کو ہمارا اتنا بھی خیال ہے کہ یہ ہمارے لئے چائے تک کا اہتمام کر رہے ہیں۔ابو ہارون بتانے لگے کہ جیسے ہی زلزلہ آیا تو ہم چند ہی منٹوں میں اپنے ساتھیوں کے ہمراہ کئی علاقوں میں متاثرہ لوگوں کے پاس موجود تھے۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ کیا آپ کو پہلے سے ہی معلوم تھا کہ زلزلہ آنے والا ہے اور ہم نے سب سے پہلے پہنچ کر مدد کرنی ہے… اغز کے علاقہ میں ہم نے بازار میں نکل کر لوگوں سے تعاون جمع کرنا شروع کیا۔ دکانداروں کو چندہ دینے کی ترغیب دی اور پھر چند ہی گھنٹوں میں کھانا بھی تیار کر کے گھر گھر پہنچانا شروع کر دیا۔ یہاں کے لوگ ہمیں دیکھ کر کہہ رہے تھے کہ اب کے بعد تو ہماری محبتیں آپ لوگوں کے لئے ہی ہیں کہ جنہوں نے ہماری شکل کا ہی احساس نہیں کیا بلکہ ہماری عزت بھی متاثر نہیں ہونے دی۔ ہمیں قطاروں میں کھڑا نہیں کیا، انتظار کی سولی اور ذلت کے تماشے سے بچایا اور ہمیں ہمارے گھروں تک پہنچ کر محبت و الفت کا تحفہ پہنچایا۔
فلاح انسانیت فائونڈیشن کے امدادی کام کے مرکز چکدرہ میں تین دن آتے جاتے اور رہتے ہمیں ایک بار بھی کوئی شخص یہاں پر ایسا دیکھنے کو نہیں ملا کہ جس نے آ کر کہا ہو کہ مجھے امداد چاہئے، میرے ساتھ تعاون کریں کہ میں زلزلہ سے متاثرہ ہوں۔ یہ ان لوگوں کی غیرت و خودی ہے جو بہت کم ہی کہیں دیکھنے کو ملتی ہے۔ یقینا یہ لوگ قرآن کی اس آیت کریمہ کا مصداق ہیں کہ جس میں اللہ تعالیٰ اپنے بے بس و کمزور بندوں کی خوبی بیان فرماتا ہے کہ ”یہ لوگوں سے چمٹ کر سوال نہیں کرتے” اس فرمان ذی شان کی عملی تصویر دیکھنا ہو تو 26 اکتوبر 2015ء کو زلزلہ زدہ خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں جا کر دیکھیئے کہ جہاں صبر و حوصلے، ہمت و ایمان کی عجب داستانیں قدم قدم پر دیکھنے کو ملتی ہیں۔ سیلاب کے بعد زلزلہ کی آزمائش کا سامنا کرنے والے چترال میں کہیں کوئی بھکاری دیکھنے کو نہیں ملتا۔
اذان کے ساتھ ہی سب لوگ اپنے کاروبار اور دکانیں ادھ کھلی چھوڑ کر مساجد کی جانب روانہ ہو جاتے ہیں کہ یہاں چوری چکاری کا لوگ نام بھی نہیں جانتے۔ انہی لوگوں نے فلاح انسانیت فائونڈیشن کو خدمت انسانی کے لئے اپنے ہاں پایا تو اپنے دروازے ان کے لئے کھول دیئے۔ چترال کی مرکزی شاہی مسجد میں حافظ عبدالرئوف کو خصوصی طور پر خطبہ جمعة المبارک کی دعوت دی گئی، جہاں ہرنماز میں ہزاروں کا اجتماع ہوتا ہے۔محبت و خدمت کا یہ سفر جاری ہے، جہاں خدمت ایسی محبت سے دیکھنے کو ملتی ہے کہ کسی عزت نفس کو چرکہ نہ لگے کہ بادشاہ سے فقیر بنتے دیر نہیں لگتی اور اللہ تعالیٰ کا وعدہ ہے کہ وہ محتاجوں کی مدد کرنے سے اس قدر راضی ہو جاتا ہے کہ مددگاروں کو اپنی رحمت کے سائے میں ڈھانپ لیتا ہے۔ بلائوں اور مصیبتوں کو ٹال دیتا ہے۔ اللہ کا غصہ صدقہ کرنے سے ٹھنڈا ہو جاتا ہے… تو پھر اے اہل وطن! کیا خیال ہے…؟