تحریر: مسکان احزم 2مارچ 1972 میں پاکستان کے ایک شہر کراچی میں آنکھ کھولنے والی عافیہ صدیقی جنہیں آج سے تقریبا پندرہ سال پہل 2003 میں اغواء کرلیا گیا تھا’کہنے کو تو وہ اس ملک کی بیٹی ہیں جسے حاصل کرنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ یہاں بیٹیوں کی عزت وناموس کی حفاظت کی جا سکے۔ لیکن میں اٹھارہ سال کی ہوگئی مگر آج تک اس مقصد میں کامیابی کہیں بھی نظر نہیں آئی۔
غیرت و عزت کے نام پر قتل کرنے والو کیا عافیہ صدیقی کا یہ قصور تھا کہ وہ ایسے ملک میں پیدا ہوگئیں جس کا خواب جناح نے اس لیے دیکھا تھا کہ وہ اپنی قوم کی بیٹیوں ،ماؤں اور بہنوں کو مضبوط قلعہ فراہم کر سکیں۔لیکن جب عافیہ صدیقی کو اس ملک میں دیکھتی ہوں جہاں عورت کو صرف نفس کی تسکین کا ذریعہ سمجھا جاتا ہے تو دل آٹھ آٹھ آنسو روتا ہے۔بیٹی پرائے ملک میں ستم پہ ستم سہہ رہی ہو توجانتے ہیں کہ کیسا محسوس ہوتا ہے؟کوئی نہیں جانتا اگرجانتا تو آج صرف عافیہ کی ماں ہی نہ تڑپ رہی ہوتی۔کہاں جاتی ہے ان لوگوں کی غیرت جب عافیہ صدیقی کو قابلِ افسوس حالت میں سوشل میڈیا پہ دکھایا جاتا ہے؟
Gairat
غیرت کو جوش اس لیے نہیں آتا کیونکہ یہ گناہ کرنے والے بھی ہم خود ہیں۔اپنے گناہوں پر تو پردہ ڈالا جاتا ہے ۔ڈھنڈورا پیٹنے کی حماقت کون کرے گا یہاں؟ میں ان باتوں کا ذمہ دار اپنے حکمرانوں کو نہیں سمجھتی کہ وہ کیوں اب تک عافیہ کو رہا نہیں کرواکر لائے۔کیونکہ یہ ان کا دوش نہیں ہے۔انہیں ہم ہاتھ پکڑ کر خود اس مقام تک لائے ہیں۔اصل بات تو یہ ہے کہ ہماری غیرت نہیں جاگتی۔ہم میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا کہ وہ جسے غیرقانونی طور پر اغوائ کرلیا گیا تھا،وہ ہماری بیٹی ہے،اس قوم کی عزت ہے۔اس ملک کی بیٹی ہے جس کی آبیاری ہمارے آباؤاجداد نے اپنے خون سے کی ۔کیا محض اس لیے کہ ہر دور میں عافیہ صدیقی کو اغواء کیا جائے؟ہر بیٹی ،ہر ماں۔ہر بہن اس ملک میں خود کو محفوظ نہ سمجھ سکے؟
اس سے بڑی بدقسمتی اور کیا ہوسکتی ہے کہ جب بھی کسی سے یہ پوچھا جائے کہ عافیہ صدیقی کو جانتے ہو؟تو آگے سے جواب آتا ہے کہ کیا وہ کوئی فلمسٹار ہے؟اور بعض تو فلمسٹار کی حد تک بھی نہیں جانتے۔کوئی بھی نہیں جانتا کہ عافیہ کون ہے؟اس بات پر دھول جما دی گئی ہے۔وقت نے اس واقعے کے بہت سے پہلوؤں کے اوراق پھاڑ کر ہوا میں اچھال دیئے ہیں۔
Freedom
کیا پاکستان کی اٹھارہ کروڑ عوام ایک بیٹی کو آزاد نہیں کرواسکتی؟ ہاں نہیں کرواسکتی۔ اور جب تک نہیں کرواسکتی تب تک میں بھی عافیہ صدیقی ہوں۔اس قوم کی ہر بیٹی،ہرماں،ہربہین عافیہ صدیقی ہے۔آج نہیں تو کل یہ قوم ہر عورت کو عافیہ بنا ہی دے گی۔ہر عورت عافیہ کی طرح اغواء ہوگی اور تب تک ہوگی جب تک اس قوم کے غیرت مند مرد مریل کبوتر کی طرح آنکھیں بند کیے بیٹھے رہیں گے۔ایک تجویز ان سب کے لیے جن کی غیرت تب جاگتی ہے جب اسے سویا رہنا چاہیے اور جب جگاناچاہیئے تو تب یہ لوگ خود بھی آنکھیں بند کر کے سوجاتے ہیں کہاگر بیٹیوں کی عزتوں کے جنازے یونہی نکالنے ہیں تو ان کو پیدا ہوتے ہیں تابوت میں بند کردیا کرو۔منوں مٹی ڈھال دیا کرو یہ مٹی تم سے بہتر حفاظت کرسکتی ہے اس ملک کی بیٹیوں کی۔اور ایک سوال اس ملک کے ہرفرد کے لیے کہ عافیہ صدیقی کا جرم تھا کیا؟