تحریر : روہیل اکبر جے آئی ٹی کے ارکان نے کمال درجہ پر اپنا کام انجام دیا ہے کسی حاضر وزیراعظم کے خلاف پاکستانی تاریخ میں پہلی بار ایسی تحقیقاتی رپورٹ دی گئی ہے اورجے آئی ٹی ارکان تاریخ کی عدالت میں سرخرو ہوئے ہیں، سرکاری ملازم ہوتے ہوئے انہوں نے اتنی جرات کا مظاہرہ کیاہر طرف سے شاباش جے آئی ٹی کی صدائیں بلند ہوئی حکومت کے پاس اب کچھ نہیں بچا وزیراعظم نواز شریف اور ان کی فیملی گناہ گار ثابت ہوچکی ہے ملکی تاریخ میں اس سے زیادہ شرمندگی کسی منتخب وزیراعظم کو کم ہی دیکھنا پڑی نواز شریف کی فیملی کی طرف سے جھوٹے اورجعلی دستاویزات پیش کی گئیں سٹیل ملز کی فروخت کے جعلی ثبوت اورمریم نواز بینیفشری ثابت ہو گئیں اسکے ساتھ ساتھ طارق شفیع بھی جھوٹے ثابت ہوئے ہیں خود وزیراعظم کے نام ایک کمپنی نکل آئی چودھری مل کی ریکارڈ ٹمپرنگ ثابت ہو گئی اورسب سے بڑھ کر شریف فیملی کی آمدنی اور طرز زندگی میں بھی فرق ثابت ہوگیا جسکا مطلب یہ بنتا ہے کہ یہ ناجائز آمدنی سے زندگی بسر کر رہے ہیں اتنی بڑی تفتیش اور رپورٹ کے بعد اب اور کیا رہ گیا ہے؟، میاں صاحب مزید کیا چاہتے ہیں۔
اب انہیں استعفا دینا چاہیے دیکھا جائے تو پوری دنیا میں پاکستانیوں کی اس سے زیادہ بے عزتی اورنہیں ہو سکتی کہ جس پر الزامات ثابت ہو جائیں اور وہی شخص بدستور وزیراعظم بھی رہے ۔ ابھی بھی کچھ مفاد پرست عناصر ملکی دولت لوٹنے والوں کو بچانے کی فکر میں ہے اور آئے روز کوئی نہ کوئی نیا شوشہ چھوڑا جارہا ہے اور ان میں سے اکثر وہی افراد ہیں جو خود بھی کسی نہ کسی طرح خود اس کرپشن کا حصہ رہے ہیں ایسے لوگوں کو بلواسطہ یا بلا واسطہ کچھ نہ کچھ حصہ ملتا رہا ہے اور ابھی تک مل رہا ہے جبکہ کچھ لوگ جن میں جاوید ہاشمی صاحب بھی شامل ہیں فرماتے ہیں کہ آج تک صرف سیاستدانوں کا ہی احتساب ہوا ہے جبکہ باقی کے جج،جرنیل اور بیوروکریسی کا آج تک احتساب نہیں ہوا یہ بات بلکل درست اور حقیقت ہے مگر جنہوں نے ان کا احتساب کرنا ہوتا ہے وہ خود کرپشن کی دلدل میں ڈوبے ہوتے ہیں ملک کے غریب لوگوں کا خون چوس چوس کریہ سیاسی جونکیں انہیں اس قابل ہی نہیں چھوڑتے کہ وہ اپنے پاؤں پر کھڑے ہوکر ان سیاسی دوکانداروں کا ساتھ دیں سکیں جبکہ اربوں روپے ڈکارنے والے اندر سے خود اتنے کمزور ہوتے ہیں کہ انہیں سوائے لوٹ مار کے کچھ دکھائی نہیں دیتا اور جو لوٹ مار کے نئے نئے طریقے ایجاد کرکے انہیں راستہ دکھائے اسے یہ اپنے سرکا تاج بنا لیتے ہیں۔
لیاقت علی خان کے بعد پاکستان کی تاریخ میںآج تک ایسا کوئی حکمران نہیں آیا جس نے یہ سوچاہو کہ جن لوگوں نے مجھے ووٹ دیکر اس قابل کیا ہے کہ میں ایک عام سی جگہ سے اٹھ کر اقتدار کے ایوانوں میں پہنچ گیا ہوں مجھے کوئی جانتا نہیں تھا اور اب پوری دنیا میں دسترس میں آگئی ہے اور میں اپنے انہی ووٹرز کے لیے ہی کچھ کردو مگر پیسے کی حرس نے ہمیں حیوان بنا رکھا ہے اب ججز اور جرنیلوں کے احتساب کی بات کرنے والے اپنے آپ کو اس قابل بنالیں کہ ان پر کوئی انگلی نہ اٹھا سکے تب وہ جسکا چاہیں احتساب کرلیں مگر جب تک ہم اجتماعی طور پر لوٹ مار کرتے رہیں گے اس وقت تک کسی کا احتساب نہیں ہوسکتااورانکا ساتھ دینے والے بھی انکا ساتھ دیتے رہیں گے اور یہ نظام بھی ایسے ہی چلتا رہے گا مگر ان سب لٹیروں اور چوروں کے درمیاں ہماری قابل فخر عدلیہ کے معزز جج صاحبان موجود ہیں جنہوں نے کمال ایمانداری سے جے آئی ٹی بنائی اور پھر اس میں ایسے افراد کو شامل کیا۔
جنہوں نے سالوں پر محیط کام کودنوں میں سرانجام دیا ملک اور قوم کی محبت میں دن رات کام کرکے جنوں کو بھی پیچھے چھوڑ دیااور اتنی محنت سے کام کرکے ثابت کردیا کہ ہماری مٹی میں ابھی بھی ایسے شاہکار افراد موجود ہیں جن کو اگر موقعہ دیا جائے تو وہ پاکستان کی تقدیر بدل کررکھ دینگے مگر ہمارے حکمرانوں نے کسی بھی قابل افسر کو اس قابل ہی نہیں چھوڑا کہ وہ کھل کر ملک اور قوم کے لیے کام کرسکے ہمیشہ ایسے افراد کو اہم عہدوں پر بٹھایا گیا جنہوں نے حکمرانوں کے آگے سرجھکائے رکھا اور اپنی سیٹ پکی کرنے کے لیے کرپٹ اور نااہل حکمرانوں کی ہاں میں ہاں ملائے رکھی جب ایسے حکمران اور انکی خوش آمدکرنے والے افسران موجود ہوں تو پھر ایسے لوٹ مار کاسلسلہ جاری رہتا ہے ججز اور جرنیل پر انگلی اٹھانے والے سب سے پہلے اپنے گریبان میں جھانکیں کہ کیا وہ تو کسی ایسے گھناؤنے کام میں ملوث تونہیں جسکی وجہ سے ملک اور قوم پسماندگی کی دلدل میں دھنس رہے ہوں مگر مفاد پرست سیاستدانوں کی ہمیشہ سے یہی سوچ اور کوشش رہی ہے کہ وہ کسی نہ کسی طرح عوام کے منہ سے نوالہ چھین لیں جب بھوک ستائے تو پھر انہیں ایک نوالہ کھلادو تاکہ قوم اپنی بھوک مٹانے کے لیے انہی کے گرد گھومتی رہے اور حکمران اپنے لوٹ مارکے کام میں ملوث رہیں کیا ہی اچھا ہو کہ ہم اپنے چھوٹ چھوٹے مفادات کی خاطر بڑے بڑے لٹیروں کا ساتھ دینے کی بجائے ایسے لوگوں کو منتخب کریں جو پیسے کے زور پر الیکشن نہ لڑتے ہوں کمانے کی ہوس نہ ہو اور دلیری سے سب کا احتساب کرسکے اس وقت جماعت اسلامی کے امیر جناب سراج الحق صاحب کمال کی شخصیت ہیں جنہوں نے ملک اور قوم کی محبت میں دن رات ایک کررکھا ہے اکیلے عمران خان نے وزیراعظم اور انکی پوری فیملی کی کرپشن کو بے نقاب کرکے رکھ دیا ہے اور اب وہ لوگ بھی بے نقاب ہورہے ہیں جو کسی نہ کسی طریقہ سے لوٹ مار میں پانامہ چوروں کے ساتھ منسلک رہے ہیں کیونکہ اس وقت ہر محب وطن پاکستانی اور قوم کی تنزلی کا درد دل رکھنے والا فرد صرف ایک ہی بات سوچ رہا ہے کہ اگر اس بار بڑے چور بچ گئے تو پھر ملک میں آنے والے کرپشن کے سیلاب کو کوئی بھی روک نہیں سکے گا۔
ہمارے ادارے تو پہلے ہی کرپشن کی دیمک سے کھوکھلے ہوچکے ہیں مگر پانچ اراکین پر مشتمل جے آئی ٹی ممبران کی ٹیم نے تمام تر دھمکیوں اور الزامات کے باوجود یہ ثابت کردیا ہے کہ ابھی بھی ایسے افراد موجود ہیں جن کے جسم کے اند رزندہ انسانوں والا خون دوڑ رہا ہے اور انکے خون کی حرارت نے یہ بھی ثابت کردیا ہے کہ جب بھی کسی محب وطن شخص کو کوئی ذمہ داری دی جائے تو پھر وہ اپنے اور اپنے خاندان کے تمام مفادات بالائے طاق رکھ کر قوم کی بہتری کے لیے سوچتا ہے اور انہی پانچ افراد نے تمام سیاستدانوں سمیت مختلف صحافیوں کے ان تمام خدشات ،شکوک اور شبہات پر پانی پھیر دیا جو کہتے تھے کہ حکومتی سرپرستی میں کام کرنے والی جے آئی ٹی اپنا کام درست نہیں کرسکے گی مگر ان افراد کے کام کودیکھتے ہوئے ثابت ہوگیا ہے کہ زرا نم ہو تو یہ مٹی بڑی زرخیز ہے ساقی ۔جے آئی ٹی کے تمام ممبران اور سپریم کورٹ کے چیف جسٹس جناب ثاقب نثار سمیت تمام ججز کو میرا اور پوری قوم کا سلام جنہوں نے حاکم وقت کے سامنے کلمہ حق کہہ کر پکے مسلمان اور محب وطن پاکستان ہونے کا ثبوت دیا ہے اللہ تعالی ہم سب کا حامی و ناصر ہو (آمین)۔