ایک جج صاحب لکھتے ہیں مجھے ایک قتل کے کیس کا فیصلہ کرنا تھا میرے اندر بہت کشمکش تھی کیونکہ وہ نوجوان مجھے بھی قاتل نہیں لگتا تھا وہ چیختا روتا جج صاحب میں نے قتل نہیں کیا بہتان ہے مجھ پر مگر ثبوت اس کے خلاف تھے میں چاہتے ہوئے بھی کچھ نہیں کر سکتا تھا میں نے مقدمے کو تین ماہ لیٹ بھی کیا شائد کہیں سے اس کے حق میں کچھ آ جائے مگر نہیں ،آخر مجھے فیصلہ سنانا پڑا آخری دنوں میں میں اس کے پاس گیا اور اس سے پوچھا یاد کرو تم سے کوئی ایسا گناہ ہوا ہو جو تم نے معمولی سمجھ کر بھلا دیا ہو؟ وہ سوچوں میں پڑ گیا پھر وہ یکدم چلایا ہاں مجھ سے ایک گناہ ہوا تھا میں نے ایک بے زبان کتیا کو اذیت دی تھی ایک بے زبان جانور پر ظلم کی سزا ملی ہے مجھے ۔۔اسی طرح کا ایک سچااقعہ ہے وہ بھی اپنی ماں کا اکلوتا بیٹا تھا اس کی ساری امیدوں کا مرکز اس کے باپ نے اس کی ماں کو طلاق دے کر دوسری شادی کر لی تھی تب وہ تین سال کا تھا میکہ مضبوط تھا اس کی ماں میکے کے در پر آن پڑی بھائیوں نے اسے الگ گھر لے دیا اس کے اخراجات اور تعلیم کا زمہ بھی اٹھا لیا وہ اسکول داخل ہو گیا لیکن تعلیم میں دلچسپی نہ ہونے کے برابر جب تک چھوٹا تھا ماں سنبھالے رہی جیسے ہی بڑا ہوا اسکول سے بھاگ جاتا سارا دن غلیل لے کر باغوں اور درختوں کے زخیرے میں معصوم پرندوں کو مارتا کبھی ایئر گن کبھی غلیل کوئی پرندہ اس کی زد سے بچ نہ پاتا پرندوں کے گھونسلے اجاڑنا اس کا خاص مشغلہ تھا شائد وہ اپنی ماں کے آنسووں کا بدلہ اس طرح لیتا جو ہر وقت اس کے باپ کو کوس کوس کر بہایا کرتی لوگ آ کے شکایت کرتے کہ اپنے لڑکے کو روکو معصوم پرندوں پر ظلم اچھی بات نہیں وہ اس کو ڈانٹ ڈپٹ کرتی مگر اس ظلم سے سختی سے نہ روکا جب وہ اٹھارہ سال کا ہوا تب اس کے کندھے میں درد رہنے لگا ماں نے ڈاکٹروں کو دکھایا دم درود کرایا مگر درد بڑھتا گیا جوں جوں دوا کی اب اس کا باہر جانا موقوف ہوا وہ بستر پر پڑا مچھلی کی طرح تڑپتا کچھ سمجھ نہیں آتی تھی تب اس کے کندھے پر پھوڑا نمودار ہوا جسکی شکل انتہائی خوفناک تھی کینسر تشخیص ہوا اور کینسر ہمیشہ آخری سٹیج پر نمودار ہوتا ہے تب تو نہ کوئی ایسے ٹیسٹ ہوتے تھے نہ کینسر کا علاج ،اس کی چیخوں سے سارا محلہ گونجتا لوگ توبہ توبہ کرتے کہ دیکھو اسی کندھے پر یہ سارا دن بندوق رکھ کر پرندے مارتا تھا۔
وہ فیشن کی دنیا کا ابھرتا ہوا نام تھی ناموری کا شوق اور کچھ کر گذرنے کا جذبہ،دو پیارے سے بیٹے شوہر اس پر فدا ہر قدم پر ساتھ دیتا گھر گاڑی ہر چیز میسر سر اٹھا کے چلتی تھی لا پرواہی اس کے پرکشش وجود کا حصہ تھی تو غرور اس کی آنکھوں میں ہلکورے لیتا تھا آپ جو چاہو وہ حاصل کر سکتے ہو وہ بڑی ادا سے کہتی کامیابیوں کا یہ سفر جاری تھا جب اس کا ایک بیٹا حاثے کا شکار ہو گیا وہ جیسے آسمان سے زمین پر آ گری جان دینے والے شوہر کو چپ لگ گئی یہ تمھاری لاپرواہی سے ہوا ہے ایک دن وہ چیخ پڑا اس عمر کے بچوں کو مائیں سنبھالتی ہیں لیکن تمہیں تو ناموری میں آگے اور آگے جانا تھا ناں؟کچھ عرصہ وہ سناٹوں میں رہی پھر نشے میں پناہ ڈھونڈی بے تحاشہ سگریٹ پیتی اور دھویں میں اپنا مستقبل تلاش کرتی آہستہ آہستہ سب کے سمجھانے پر خود کو سمیٹا دوبارہ کام شروع کیا۔
شوہر چھوڑ کر بیرون ملک جا بسا تھا اب جینا بھی تھا گھر بھی چلانا تھا لیکن اب وہ پہچانی نہیں جاتی تھی کیا ہوا وہ رعب و طنطنہ؟اللہ سب کو غرور اور برے انجام سے بچائے ہمارا میڈیا پہلے ایک برائی کو پھیلاتا ہے پھراس پر پروگرام کرتا ہے یاد رکھیے برائی ہر دور میں ہوتی ہے یہ نہیں کہ اب عمران خان کی حکومت آگئی ہے تو برائیاں آ گئی ہیں یا نواز شریف دور میں جرائم ہوئے یا زرداری نے برائیوں کو جنم دیا برائیاں ہر دور میں ہوتی ہیں شیطان ازل سے انسان کا دشمن ہے ایسے ہی تو نہیں مختلف قومیں تباہ ہوتی رہیں لیکن گناہ سے زیادہ گناہ کی تشہیر جرم ہے گناہ ہے اب حالات ایسے ہو گئے ہیں کہ گناہ کو بڑھا چڑھا کر پیش کیا جاتا مجرم کو ہیرو بنا کر پیش کیا جاتا ہے عورت مرد کے درمیان نفرت کی فضا پیدا کی جا رہی ہے۔
ہر چیز اپنے محور سے ہٹ رہی ہے یہی وہ چیز ہے جو ہمیں تباہی کی طرف لے جا رہی ہے ظلم بڑھتا جا رہا ہے اور کوئی بھی یہ ماننے کو تیار نہیں ہوتا کہ اس ظلم میں وہ بھی شریک تھا حال ہی میں اسماء نامی ایک عورت کی سٹوری منظر عام پر آئی جس نے راتوں رات شہرت حاصل کر لی بظاہر یہ ایک بیوی پر شوہر کے تشدد کا معاملہ تھا لیکن دیکھا جائے تو یہ بھی بے راہروی کی ایک داستان ہے جس کو یہ عورت اسماء عزیز بھول چکی ہو گی کہ اس نے زندگی کا سفر کیسے شروع کیا اسماء کی ملاقات 2016میں فیصل سے ملاقات ایک ڈانس پارٹی میں ہوئی جو محبت میں بدل گئی اس پارٹی میں دونوں نے خوب نشہ کر رکھا تھا اس سے قبل اسما اپنے ایک شوہر سے طلاق لے چکی تھی اور دوسرے شوہر سے اس کے تعلقات کشیدہ تھے۔
جبکہ فیصل کے اپنی بیوی سے تعلقات درمیانہ نوعیت کے تھے جس پر دونوں نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے پہلے ازدواجی تعلقات ختم کر کے نئی زندگی کا آغاذ کرتے ہیں جس پر اسما عزیز نے تیسری اور فیصل نے دوسری شادی کی اسماء کے پہلے شوہر سے دو بچے ہیں جس میں اٹھارہ سالہ بیٹا انس اور سولہ سالہ بیٹی نمل شامل ہیں اور اسما کی اپنی عمر چالیس بیالیس سال ہے اس کی پہلی شادی اٹھارہ سال کی عمر میں ہوئی تھے جو کچھ سال ہی چل سکی تھی یہ بات تو منظر عام پر آ ہی چکی ہے کہ دونوں میاں بیوی نشہ کرتے ہیں اور وقوعہ کے وقت بھی وہ دونوں آئس نشہ کیا ہوا تھا اگر کوئی شخص نشے میں ہو اور وہ تشدد بھی کرے تو سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ عورت کی ٹنڈ اتنی صاف ستھری کی جائے قینچی یا استرا لازماً اسکو کہیں بھی لگ سکتے تھے اس نے مزاحمت بھی کی ہو گی آرام سے سر جھکا کر کون عورت اپنے سر کے بال صاف کراتی ہے اس میں یا تو شہرت حاصل کرنے کی خواہش ہوگی یا پھر کسی کے ساتھ کوئی اور معاملہ ہوگا۔
ہو سکتا ہے میاں بیوی نے کسی سے شرط لگائی ہو ،یہ ڈانس پارٹیاں اٹینڈ کرنے والے نیک پارسا تو ہو نہیں سکتے نہ ہی یہ کوئی بیوی پر تشدد کا کیس ہے آخر وہ ملازم کدھر ہیں جن کے سامنے اس نے بیوی کو ننگا کر کے پنکھے سے لٹکانے کی دھمکیاں دیں اسے مارا پیٹا بڑی آسانی سے سب کچھ سامنے آ سکتا ہے لیکن نہ جانے کیا چھپانے کی کوشش کی جا رہی ہے اس کے پیچھے جو بھی کہانی ہے وہ کھلے نہ کھلے لیکن یہ بھیانک پہلو ضرور آشکار ہو رہا ہے کہ اس مملکت خداداد میں کیا کیا گھنائونے کام ہو رہے ہیں جن کی طرف کوئی دھیان نہیں دے رہا سب اپنے حال میں مست ہیں لیکن اللہ تعالےٰ سب ظلم اور جرم دیکھ رہا ہے وہ نہ بے خبر ہے نہ ہی وہ بھولتا ہے۔