َوی ایک پر کیف سی رات تھی۔ گھر اور مساجد میں زور و شور سے عبادت کی تیاری جاری تھی۔ کچھ عجیب سی کیفیت طاری تھی۔ ایک لطیف سا احساس اپنے گرد لپیٹے ہوا ہوئے تھا۔ ماہ مبارک ، مبارک گھڑیاں، عبادت کا جوش، سجدوں کی لذت، تلاوت کی مٹھاس، دعاﺅں کا سرور اور ساتھ ہی ساتھ پاکستان کی خوشخبری۔ ایک عجب احساس تھا۔پاکستان سب کی امنگوں کا محور، ابھی تھوڑی ہی دیر میں جس کے قیام کا اعلان ہونا تھا۔ ایک ایسا احساس کہ جس کا تصور کر تے ہی دل شاد ہوجاتا ہے، آنکھیں نم ہوجاتی ہیں، ایسی رات پہلے کبھی آئی تھی نہ اب تک آئی ہے۔ کتنا خوبصورت تحفہ تھا ۔پاکستان کتنا پیارا انعام تھا۔ اسلام کا قلعہ پاک لوگوں کی سرزمین۔ جس کے پیچھے ایک صدی کی جدوجہد ہے۔ 1857ءکی جنگ آزادی سے لے کر 1947ءتک مجدد الف ثانی سے لے کر محمد علی جناح تک۔ ایک مقابلہ تھا دو نظریات کا۔ دو قوموں کے درمیان ایک ایسا مقصد کے جس کو پانے کے لیے آگ کا جنگل اور خون کا دریا تھا۔ جس کے پیچھے ایک نظریہ تھا۔ ایک جنون تھا۔ یہ کھیل جنگ آزادی کے بعد شروع ہوا تھا جب برصغیر ہمارا نہیں رہا تھا۔ جب اس خطے کے خداداد پر انگریزوں کا تسلط قائم ہو چکا تھا۔ روئے زمیں پر مسلمانوں کا خدا کے علاوہ کوئی دوسرا سہارا نہ تھا۔ قدرت کو جیت ہماری ہی منظور تھی اس جیت کے لیے سیکڑوں انسانوں نے جان کا نذرانہ پیش کیا۔ اپنا خون دیا۔
بغیر کسی اجرت کے، بغیر پرواہ کیے کہ وہ کسی بہار کا سہاگ ہے، کس معصوم پھول کا با پ ہے، کسی مہرپیکر و وفا بہن کا بھائی ہے، کسی بوڑھی اور لاچار ماں کا نور نظر ہے۔ لیکن کیا کہنے اس مہربان رب کریم کے جس نے پھر ہمارے اپنوں کو ہی ہمارا رہبر بنایا۔ پھر محمد علی جناح جیسے قائد، اقبال جیسے درویش، مولانا ظفر علی خاں جیسے نڈر اور بے باک صحافی، لیاقت علی خاں جیسے حکمران اس کھیل کے اہم کردار بنے اور ان کے پاس قدرت کی طرف سے ہمارے تمام زخموں کا مرہم تھا۔ پھر ہوا کچھ یوں کہ آہستہ آہستہ سنبھل کر قافلے ان کے پیچھے چل پڑے اور بالآخر 23 مارچ 1940ءکو قرارداد پاکستان منظور ہوگئی۔ اب وقت تھا تحریک کا، جد و جہد کا۔ اقبال جیسا مرد قلندر ان قافلوں کو منزل کا نشان دے گیا تھا، انہیں اپنا خواب بتا گیا تھا اور کہہ گیا تھا کہ خواب کو تعبیر تک تم پہنچاﺅ گے۔ یہ خواب دیر پا خواب نہ تھا۔
صرف 7 سال کی مسافت پر ان قافلوں کی منزل پاکستان تھا۔ 14 اگست 1947 اور پھروہی ہوا جس کا تقدیر کو انتظار تھا۔ قافلے ٹوٹے، انسان بکے، عصمتیں لٹیں، پھول مسلے لیکن آخر میں پاکستان ملا۔ مگر اے اہل وطن! تم تو اداس ہو۔ تم نے تو یقیں کے دیپ بجھا دیے ہیں۔ تم تو بہت جلدی تھک گئے ہو۔ کیا تم خوش نہیں ہو کہ تم ان قافلوں کی نسل ہو جو پاکستان کے لیے چلے تھے؟ کیا تم خوش نہیں ہو کہ پاکستان کے لیے قربانی دینے والے تمہارے ہی آباءہیں؟ شاید تم بھول چکے ہو کہ اس پاک سرزمین کو خوں سے سیراب کیا گیا ہے۔ اس کی مٹی سے شہیدوں کے لہو کی مہک آتی ہے۔تم سمجھتے ہو کہ یہ خوں رائیگاں چلا گیا ہے۔ اب تو یہ وطن رہزنوں کے شکنجے میں ہے۔ مگر تم کیا جانو اے اہل وطن! کہ یہ پاکستان ہے۔ عالم اسلام کا قلعہ ہے۔ لا الٰہ الا اللہ کے نام پر قائم ہونے والی ریاست ہے۔
آج اسے لوٹا جا رہا ہے، اسے توڑنے کے منصوبے بنائے جارہے ہیں۔ اس کے تعلیمی اداروں کو تباہ کیا جا رہا ہے۔ تمہارے پاس حکومت نہیں، تمہارے پاس طاقت نہیں ،تمہارے پاس وسائل نہیں مگر ۔۔۔ اے ہم وطنو! ہر سال پچھلی روایات کو قائم رکھتے ہوئے تم سبز جھنڈے اور ستارہ و ہلال کے سائے تلے 14اگست تو مناتے ہو۔ اپنے آبا کی یاد تازہ کرتے ہو اور اس بات کی یاد دہانی کرتے ہو کہ تم پاکستانی ہو۔ یہ پاکستان تمھیں ایک صدی کی جد و جہد کے بعد ملا تھا۔ یہ سبز جھنڈا آج بھی ان شہید وں کی یاد تازہ کرتا ہے جن کے لہو سے یہ دھرتی آباد ہے اور 14اگست آج بھی تمہیں 70 سال پیچھے لے جاتا ہے اور لٹے قافلے، لہو سے تر ابدان، کٹے اعضا ، بے گور و کفن لاشوں کی ایک جھلک دکھا کر تمہیں کچھ یاد کراتا ہے۔ 70 سال پہلے 2نظریوں کے درمیان لڑی جانے والی جنگ میں جیت نظریہ پاکستان کی تھی۔ اب نظریہ پاکستان کے پاسباں تم ہو۔ اب اس خوں کا قرض تم نے چکانا ہے۔
وہ اپنا عہد نبھا چکے ہیں مگر تم اپنا عہد بھلا نہ دینا
ان کے حصے کا بہت سا کام ابھی باقی ہے جو تمہیں کرنا ہے۔ تم رو ح کارواں ہو۔ وہ تمہیں عنوان دے گئے ہیں مگر داستاں تم کو رقم کرنا ہے تو پھر اقبال کے شاہینو! اٹھو! تمہارا اقبال تم سے یہ کہہ کر گیا تھا کہ
خون صد ہزار انجم سے ہوتی ہے سحر پیدا
اٹھو! ہاتھوں سے ہاتھ ملاﺅ اور ایک ہو جاﺅ ، میدان میں اترو، اپنے شہیدوں کے خون کا قرض چکاﺅ۔ تاریخ پھر سے دہراﺅ اپنے حصے کا دیا جلاﺅ اور اس وطن کے ہر کونے میں امید کی شمع روشن کر دو کہ امید بنو، تعمیر کرو، سب مل کر پاکستان کی، وطن عزیز تمہارا ہی منتظر ہے۔۔۔