دینی سیاسی جماعتوں کا اتحاد ،متحدہ مجلس عمل پاکستانی عوام کے لیے امید کی کرن ہے۔ پاکستان ٧٠ سال سے مسائل کا شکار ہے۔اس عرصہ کے دوران پاکستان سے بعد میں آزادی حاصل کرنے والے ملکوں نے ترقی کی منازل طے کرلی ہیں۔ مگر پاکستان ابھی تک اپنی منزل حاصل نہیں کر سکا بلکہ قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہوا ہے۔ اس کی کیا وجوہات ہیں؟لیاقت علی خان صاحب کے بعد ملک کی ترقی کے بجائے حکمران مسلم لیگ وزارتوںکے پیچھے لگی رہی۔ پاکستان کے ازلی دشمن بھارت کے وزیر اعظم نہرو صاحب نے کہا تھا کہ میں اتنی شیروانیاں نہیںبدلتا،پاکستان جتنے وزیر اعظم بدلتا ہے۔ پاکستان کی سرزمین زرخیز ہے اس کے عوام جفا کش اور توانا ہیں۔ اس کا نہری نظام دنیا کا بہترین نظام ہے۔اس کے سارے موسم ترقی کے لیے بہترین ہیں۔ اس کے ایک طرف سمندر ہے جس سے دنیا سے روابط قائم ہیں۔ اس کی گیری سمندری بند رگائیں ہیں جو ہر موسم میں آپریٹیو رہتی ہیں۔
اب تو بلوچستان کی گوادر بندر گاہ بھی آپریٹیو ہو گئی ہے۔اس پر دنیا کی نظر ہے۔اس کے دوسری طرف بلند بالاچوٹیوں والے پہاڑ ہیں ۔جن پر سال بھر برف جمی رہتی ہے۔جو آہستہ آہستہ پگھل کر اس کے دریائوں میں پانی کی سپلائی کو یقینی بناتی ہیں۔جس سے دنیا کا بہترین زری نظام چلتا رہتا ہے۔اس میںبیک وقت چار موسم رہتے ہیں۔ ایک طرف سخت گرمی ہوتی ہے تو دوسری طرف پہاڑوں میں موسم ٹھنڈا رہتا ہے۔ سمندری علاقوں میں موسم معتدل رہتا ہے۔اس کے صحرائوں گرمی رہتی ہے۔ پاکستان میں بے انتہاقدرتی معدنیات موجود ہیں۔بلوچستان میں ریکوڈک، تین سو میل لمبی پٹی پر سونے کے دخاہر موجود ہیں۔ ملک میں تیل کے ذخاہر ہیں۔ سوئی کے مقام سے قدرتی گیس پورے پاکستان میں سپلائی کی جارہی ہے۔ ایٹم بم کے لیے یونیوریم اس کے پہاڑوں سے نکل رہا ہے۔ پاکستان ایسے خطے میں واقع ہے کہ جس پر دنیا کی نظریں لگی رہتی ہیں۔ یہ دنیا کی ایک ارب پچھتر کروڑ مسلمان آبادی والے ملکوں کے ساتھ جوڑا ہوا ملک ہے۔ مسلمانوں نے دنیا پر ایک ہزار سال شاندار حکمرانی کی ہے۔
یورپ ،سپین،برصغیر،میڈل ایسٹ، فار ایسٹ جہاں بھی دیکھیں مسلمان مملکتوں کے آثار اب بھی موجود ہیں۔پاکستان کا نقشہ شاعر اسلام علامہ شیخ محمد اقبال نے اپنی نظموں میں کھینچا ہے۔ جسے پاکستان کے مسلمان پڑھ کر اپنے شاندار ماضی کو یاد کرتے رہتے ہیں۔ اسی اقبال نے برصغیر میں اسلامی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان کا خواب دیکھا تھا۔ جس کو حقیقت بنانے میں وقت کے عظیم قانون دان حضرت قائد اعظم محمد علی جناح نے جمہوری جد وجہد کے ذریعے، اُس وقت کے رائج کیمونسٹ نظام اور سرمایادارانہ نظام کے حامیوں کے مقابلے میںچودہ سو سال پہلے قائم کی گئی ، مدینہ کی اسلامی ریاست کونمونہ طور پرپیش کر کے اسلامی نظام طرز زندگی کو دوبارہ سے بحال کرنے کے کا منصوبے کو پیش کر کے حاصل کیا تھا۔مگر پاکستان کی لیڈر شپ اس میں حقیقی رنگ نہ بھر سکی۔ یہ صرف لیڈر شپ کا قصور ہے۔ اب ایم ایم اے اس کو انشاء اللہ پورا کرنے کے عزم کے ساتھ میدان عمل میں اتری ہے۔
قاعد اعظم کے وژن کو اگر تازہ کیا جائے تو کچھ اس طرح ہے کہ ٢٦مارچ ١٩٤٨ء چٹاگانگ میں قائد نے فرمایا تھا” اتنا یقین سے کہہ سکتا ہوں کہ ہمارا (مقصدحیات) اسلام کے بنیادی اصولوں پر مشتمل جمہوری نوعیت کا ہو گا ان اصولوں کا اطلاق ہماری زندگی پر اسی طرح ہو گا جس طرح تیرہ سو سال قبل ہوا تھا” ۔پھر١٤ فروری ١٩٤٨ء کو قائد اعظم نے سبی میں دربار سے خطاب میں فرمایا تھا ” ہماری نجات کا واحد ذریعہ ان زرین اصولوں پر مشتمل ضابطہ حیات پر عمل کرنا ہے جو قوانین ہمارے پیغمبر حضرت محمد مصطفیٰ ۖ نے قائم کر دیے ہیں”۔قائد کی اتنی صاف اسلام کے راستے کی طرف رہنمائی کے باوجود ہم نے اپنی ترجیحات کا تعین کیوں نہیں کیا؟ اس کا جواب پاکستان کے حکمرانوں اورقوم نے اللہ کو دینا ہے جس نے مثل مدینہ اسلامی ریاست عطا کی تھی جو ہم نے اسلام کے نام پر حاصل کی تھی اور قائد کی روح کو بھی پاکستانی قوم نے جواب دینا ہے کہ جس نے پاکستان کا اسلامی راستہ اپنے عمل اور بیانات میں متعین کر دیاتھا قائد اعظم تو یقیناً اللہ سے اَجر پا لیں گے کہ انہوں نے سچ کر دکھایا، کیا ہم اللہ کے سامنے اس جواب دہی کے لیے تیار ہیں….؟یہ اسی صورت میں ممکن ہے کہ ہم اللہ سے عہد کریں کہ آج سے ہر پاکستانی اس ملک میں مثل مدینہ اسلامی مملکت اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مدینہ کہ فلاحی ریاست کے طرز پرنظام حکومت قائم کر نے کی کوشش کریں گے۔
ملک میں چند ماہ بعد عام الیکشن منعقد ہونے والے ہیں۔ نون مسلم لیگ، تحریک انصاف اور پیپلز پارٹی الیکشن میں متوقع طور پر اپنے امیدوار کھڑے کریں گی۔ کیا ان سے توقع کی جا سکتی ہے کہ جیتنے کی شکل میں قائد اعظم کے وژن اور علامہ اقبال کے خواب کے مطابق اسلامی جمہوریہ پاکستان میں مدینہ کی فلاحی ریاست کے طرز کا نظام حکومت قائم کریں گے؟جواب ہے کہ نہیں قطعی نہیں! وہ اس لیے کہ تجربہ بتاتا ہے کہ نون لیگ اور پیپلز پارٹی اس سے قبل تین تین بار ملک میں حکومتیں قائم کر چکیں ہیں۔اس دوران ملک کو قائد اعظم کو نقصان پہنچایا اور پاکستان کو روشن خیال، سیکولر ، بھارتی اور مغربی طرز پر ہی چلاتی رہیں۔ساری خرابی ان دونوں پارٹیوں کی وجہ سے ہوئی۔پیپلز پارٹی کے دورمیں فوج کو بدنام کرنے کے لیے اس کے وزیر خارجہ حسین حقانی نے میمو گیٹ کی سازش کی۔ پیپلز پارٹی کے آصف علی زرد ری صاحب نے اسے اپنے صدراتی دفتر میں پناہ دی۔پھر ملک سے فرار کروایا ۔پاکستان کی عدالت عالیہ میں اس پر مقدمہ قائم ہے۔ عدات سے اب بگوڑا بنا ہوا ہے۔ایبٹ آباد میں امریکا نے پاکستان کے اندر اس کی آزادی کو روندتے ہوئے بغیر اطلاع کے کاروائی کی۔پیپلز پارٹی کے وزیر اعظم نے اس کاروائی کی تاہید کی تھی۔
نو ن لیگ کے نا اہل وزیر اعظم نواز شریف صاحب نے اپنے ٢٨ سال دور اقتدار میں اسلامی نظام حکومت اور قائد اعظم کے دو قومی نظریہ کی مخالفت کی۔کہا کہ ہندوئوں اور مسلمانوں کی تہذیب، تمدن اور ثقافت ایک جیسی ہے۔ بس ایک سرحد کی لکیر نے ان کو ایک دوسرے سے علیحدہ کیا ہوا ہے۔ بجائیاسلامی نظام حکومت قائم کرنے کے بھارتی ثقافت تمدن اور تہذیب کو پروان چڑھایا۔ازلی دشمن بھارت سے کشمیر کو ایک طرف رکھ کر آلو پیاز کی تجارت کی بات کی۔فوج کے خلاف اعلانیہ کام کیا۔ جب سے نا اہل قرار دیا گیا اور آمدنی سے زیادہ وسائل اور ممکنہ کرپشن کے مقدمے قائم ہونے پر عدلیہ اور فوج کو نشانہ بنایا ہوا ہے۔ اب اپنی کرپشن سے عوام کی نظریں ہٹانے کے لیے، پاکستان کی سا لمیت کے خلاف بیان بازی پر اُتر آیا ہے۔
تحریک انصاف کا لیڈر خود تو پاکستان میں مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے نظام کو قائم کرنے کی باتیں تو کرتا ہے۔ دلوں کے حال تو اللہ ہی جنتا ہے۔ گو کہ عمران خان صاحب کرپشن سے بھی پاک ہیں۔ خیبر پختون خواہ میں ان کی اور جماعت اسلامی کی متحدہ حکومت نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں۔ مگر اس کے ارد گرد لوگ نون لیگ اور پیپلز پارٹی سے بھاگے ہوئے لوگ جمع ہو گئے ہیں اور ہو رہے ہیں۔ کیا جس پارٹی کے پاس ایسے بگوڑے جمع ہو گئے ہوں۔ وہاں ایک اکیلے عمران خان صاحب کی سوچ کو پروان چھڑنے دیں گے؟۔ویسے بھی عمران خان پر الزام ہے کہ اس نے اپنے جلسوں میں قوم کی بچیوں کو ناچ گھانے پر لگا دیا ہے۔ اُس کے لیے پاکستان کو قائد اعظم کے وژن ، مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست پر چلانے کے لیے سرے سے ٹیم ہی موجود نہیں۔
پاکستان میں قائد اعظم کے وژن کے مطابق مدینہ کی اصلاحی ریاست طرز کے نظام حکومت قائم کرنے کے لیے متحدہ مجلس عمل قائم ہو چکی ہے۔ ان کے ہی اسلاف نے ملک میں دستوری مہم شروع کی تھی۔اسلامی آئین بنانے کی کوششیں کی تھی۔ جس کی وجہ سے قرار داد پاکستان کو آئین پاکستان میں داخل کیا گیا۔ان پر کوئی بھی کرپشن کا لزام نہیں لگا۔ نہ یہی اس کے کسی لیڈر کا نام آف شور کمپنیوں میں آیا ہے۔ اس سے قبل خیبر پختونخواہ میں ٢٠١٢ء میں کامیابی سے ٥ سال حکومت بھی کر چکے ہیں۔
بین القوامی مالیاتی ادارے ایم ایم اے کی ٥ سالہ حکومت کی شفایت کی تعریف بھی کی تھی۔ ان ہی کے بڑوں ، مفتی محمود احمد، پروفیسر غفور احمد اور علامہ شاہ احمد نورانی صدیقی صاحبان کی کوششوں اور محنت سے ملک ١٩٧٤ء کا اسلامی آئین محروم ذوالفقارعلی بھٹو صاحب کی وزیر اعظم شپ کے دورمیں بنا تھا۔ اسی آئین کے تحت قادیانیوں کو غیر مسلم بھی قرار دیا گیا تھا۔ صاحبو!ایم ایم اے کے بزرگوں کا سابقہ ریکارڈ اور ٢١٠٢ء کی خیبر پختون خواہ کی کرپشن سے پاک اور کامیاب حکومت طرز حکومت کو سامنے رکھتے ہوئے ،بجا طور پرتوقع کی جا سکتی ہے کہ اگر پاکستان کے عوام نے آنے والے الیکشن میں ان کو ووٹ دے کر کامیاب کیا تو یہ پاکستان کو قاعد اعظم کے وژن کے مطابق مدینہ کی فلاحی اسلامی ریاست کے طرز کا نظام حکومت دیں گے۔اللہ پاکستان کو مدینہ کی اسلامی فلاحی ریاست کے طرز کا نظامِ حکومت عطا فر مائے۔ اس کام کے لیے پاکستان کے عوام کو متحدہ مجلس عمل میں امید کی کرن نظر آ رہی ہے۔