تحریر : طارق حسین بٹ شان پچھلے کئی ماہ سے پورا ملک عجیب و غریب بخار میں مبتلا ہے۔ پاناما لیکس نے پوری قوم کو اپنی گرفت میں لے رکھا ہے۔ الیکٹرانک میڈیا کے تو وارے نیارے ہیں کیونکہ پاناما لیکس ان کی ریٹنگ کو گرنے نہیں دے رہا ۔سپریم کورٹ میں اس مقدمہ کی روزانہ سماعت نے بہت سی آرزوئوں کو زبان عطا کررکھی ہے ۔ایک طبقہ یہ سمجھ رہا ہے کہ پاناما لیکس کے بطن سے ایک نیا پاکستان ظہور پذیر ہوگا۔کرپشن کا خاتمہ ہوگا اور ایسے نظامِ حکومت کی داغ بیل ڈا لی جائیگی جس میں قومی دولت لوٹنے والوں کیلئے وطنِ عزیز میں کوئی جگہ نہیں ہوگی۔غریب کا المیہ یہی ہے کہ وہ خواب پالتا رہتا ہے اس چیز سے بے خبر کے اس کے یہ خواب شرمندہِ تعبیر بھی ہو سکیں گے یا کہ نہیں؟غربت میں زندہ رہنے والے ہمیشہ سہانے دنوں کے خواب دیکھتے رہتے ہیں ۔ان کی شدید خواہش ہوتی ہے کہ ان کے لختِ جگر بھی اعلی سکولوں میں زیورِ تعلیم سے آراستہ ہوں اور ایک دن وہ بھی پاکستان کے اعلی عہدوں پر فائز ہوں لیکن ان کی ایسی تمام خواہشوں کو پاکستانی اشرافیہ اپنے پیروں تلے کچل کر رکھ دیتی ہے۔
اشرافیہ کیلئے عوام کی کوئی اہمیت نہیں ہوتی۔ان کیلئے مال و دولت اور سیم و زر سے محبت انسانوں کی محبت سے زیادہ قوی ہوتی ہے لہذا ان کا سارا وقت دولت سمیٹنے میں صرف ہو تا ہے۔اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ پاکستان کے خزانے پر چند خاندانوں کا قبضہ ہے اور وہ اس قبضے سے دست بردار ہونے کیلئے آمادہ نہیں ہیں۔ایک خاندان سے جان چھوٹتی ہے تو دوسرا خاندان دولت سمیٹنے کیلئے سامنے آ جاتا ہے۔وہ عوام کی خیر خواہی کا لبادہ اوڑھ کر انھیں دھوکہ دیتے ہیں حالانکہ مقصد صرف دولت ہڑپ کرنا ہوتا ہے۔میثاقِ جمہوریت کے بعد تو یہ طے ہو چکا ہے کہ چند مخصوص خاندان ہی پاکستان کی تمام دولت کے حقدار ہوں گے۔مفاہمتی سیاست نے پاکستان کے جسم کو جس بری طرح سے نوچا ہے وہ اپنے تئیں کسی المیہ سے کم نہیں ہے۔جمہوری نظام کی بقا اور استحکام پر کوئی دو رائے نہیں لیکن سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا ہم نے جمہوری رویوں کی روح کو خود پر بھی لاگو کیا ہے یا ہم زبانی جمع خرچ کر رہے ہیں ؟ کیا ہم اپنے قول و فعل سے جمہوریت سے اپنی وابستگی ظاہر کر رہے ہیں یا صرف جمہوریت جمہوریت کا کھیل کھیل رہے ہیں ؟بادی النظر میں تو ایسے ہی نظر آ رہا ہے کہ جمہوریت کی بجائے خاندانی اور شخصی سیاست کو آگے بڑھایا جا رہا ہے۔
میثاقِ جمہوریت میں بے شمار ادارے بنائے جانے تھے اور ان اداروں کو آزادانہ فضا میں کام کرنے کا آئینی انتظام کرنا تھا لیکن بدقسمتی سے حکمرانوں نے ایساکچھ نہیں کیا۔بجائے اس کہ وہ ادارے بنا کر خود کو انہی اداروں کے سامنے احتساب کیلئے پیش کرتے انھوں نے ان اداروں کو ذاتی غلام بنا کر خود کو ہر قسم کے احتساب سے بالا تر قرار دے لیا۔مفاہمتی سیاست کے تحت مک مکا کا ایک نیا کلچر متعارف ہوا جس میں دونوں بڑی جماعتیں اپنے اپنے ڈومائن مین من مانی کررہی ہیں ۔گلیاں ہو جان سونیاں وچ مراز یار پھرے کے مصداق وہ جو جی میں آتا ہے کرتے جا رہے ہیں کیونکہ ان سے جوابدہی لینے والا دور دور تک کوئی نہیں۔۔اپوزیشن اس لئے آواز بلند نہیں کرتی کہ اس کے اپنے مفادات حکومت کے ساتھ جڑے ہوئے ہیں اور حکومت اس لئے بے اعتنا ئی برتتی ہے کہ وہ خود کرپشن میں لتھری ہوئی ہے۔
جہاں تک جمہوری نظام کا تعلق ہے تو اس میں حکومت اور اپوزیشن جمہوریت کے دو پہیے ہوتے ہیں۔حکو موت کا کام پالیسیاں بنانا اور ریاستی امور چلانا ہوتاہے جبکہ اپوزیشن کا کام حکومتی اقدامات پر تنقید کرنا اور عوام کو با خبر کرنا ہو تا ہے۔اب اگر اپوزیشن بھی ذاتی مفادات کی خاطر حکومت کے ساتھ مل جائیگی تو پھر جمہوریت کی گاڑی کیسے چلے گی؟عوامی مفادات کا تحفظ کون کرے گا؟حکومتی کمزوریوں کو کون بے نقاب کرے گا؟حکومتی لوٹ مار کو کون اجاگر کرے گا؟قومی خزانے کے بے دریغ استعمال پر کون سراپا احتجاج ہو گا؟عوامی حقوق کے تحفظ کیلئے کون اپنا خون پسینہ بہائے گا؟ کون ہو گا جو حکومت کی کرپشن پر سیخ پا ہو گا او قومی دولت لوٹنے پر اس کے ہاتھ روکے گا؟ آئین وقانون اور انصاف کو کون یقینی بنائیگا؟کون ہو گا جو عوام کے مفادات کیلئے اپنے شب و روز قربان کریگا اور انھیں ایک نئی صبح کی امید دلائے گا؟پاناما لیکس کا مقدمہ نئی امید کی داستان ہے۔
Supreme Court
مجھے نہیں پتہ کہ اس مقدمہ کا فیصلہ کیا ہو گا لیکن اس سے یہ ضرو رہوا ہے کہ محروم طبقات کے جذبات میں جولانی کا احساس انگڑائیاں لے رہا ہے ۔انھیں اپنے سنہرے مستقبل کی ایک سنہری جھلک نظر آ رہی ہے ۔انھیں زندہ رہنے کا ایک حوصلہ عطا ہو رہا ہے۔انھیں ایک ایسی بنیاد فراہم ہو رہی جس پر وہ بھی اپنے سپنوں کا محل تعمیر کر سکتے ہیں۔انھیں کل کی خوشخالی کا ایک ایسا منظر نظر آرہا ہے جس میں ان کی آنے والی نسلوں کا بھی حصہ ہوگا۔مایوسی کے بھنور میں پھنسی ہوئی قوم کیلئے پاناما لیکس خوش بختی کا ایک ایسا استعارہ ہے جوان کا دامن خوشیوں سے بھر سکتا ہے۔کون ہے جو خوشی نہیں چاہتا؟ کون ہے جو خوشخالی نہیں چاہتا؟ کون ہے جو آسودگی نہیں چاہتا؟ کون ہے جو فارغ البالی نہیں چاہتا؟کون ہے جو انصاف نہیں چاہتا؟ کون ہے جو قانون کی حکمرانی نہیں چاہتا؟ کون ہے جو آئین کی بالا دستی نہیں چاہتا؟ کون ہے جو میزانِ عدل میں مساوات نہیں چاہتا؟سچ تو یہ ہے کہ عوام کا مزاج ہمیشہ قانون و انصاف کی علمبرداری کا امین رہا ہے۔وہ زورآور اور کمزور کو ایک ہی پلڑے میں دیکھنے کے آرزو مند رہے ہیں یہ الگ بات کہ طاقت ور اپنی طاقت سے عوامی آرزوئوں کا خون کر دیتے ہیں۔حکمران من مانی کرتے اور اپنا سارا وقت کمزوروں کا سر جھکانے میں صرف کر دیتے ہیں۔
پاناما لیکس اسی طرزِ فکر سے ٹکرائو کا ایک اچھوتا مقدمہ ہے۔ایک طرف عدل و مساوات کی مستقل اقدار اور خواہشوں کے پالے ہوئے عوام ہیں جبکہ دوسری طرف لعل و زرو جواہر سے محبت کرنے والے مخصوص گروہ ہیں ۔یہ جنگ ازل سے جاری ہے اور ابد تک جاری رہے گی۔لوگ بدل جاتے ہیں، چہرے بدل جاتے ہیں،حواری بدل جاتے ہیں،قوانین بدل جاتے ہیں ،معاشرے بدل جاتے ہیں ،رہن سہن بدل جاتے ہیں،اقدار بدل جاتی ہیں،نظام بدل جاتا ہے ،رسمیں بدل جاتی ہیں لیکن ا زل سے شروع ہونے والی استحصالی ذہپنیت نہیں بدلتی ۔یہ کبھی شداد کی شکل میں جلوہ گر ہوتی ہے،کبھی فرعون کا روپ دھارتی ہے،کبھی قارون کے لبادے میں ظاہر ہوتی ہے کبھی ہامان کا بھیس بدلتی ہے اورکبھی نمرودکا ہیو لہ تراش لیتی ہے۔نعرہ صرف ایک ہے کہ دنیا ہمیں جواب دہ ہے اور ہم کسی کو جواب دہ نہیں ۔ہمارا اقتدار،ہمارا ما ل،ہماری دولت ، ہماراخزانہ، ہماری فہم و فراست ،ہمارہی کامیابی اور ہماری رفعت ہماری عقل و دانش کا صلہ ہے۔
ہمیں حکمران ہونے کی جہت سے استثناء حاصل ہے لہذا کسی انسان کو یہ حق تفویض نہیں کیا جا سکتا کہ وہ ہمارا محاسبہ کرے اور ہمیں قانون و انصاف کے کٹہرے میں کھڑا کرے۔ ہم حکمرانی کرنے کیلئے پیدا ہوئے ہیں اورہماری لغت میں حکمران ہر قانون سے بالا تر ہو تا ہے۔تاریخ اس بات پر گواہ ہے کہ شہنشائوں نے کبھی خود کو قانون کے سامنے سر نگوں نہیں کیا لہذا ہم بھی نہیں کریں گے ۔جب برتری کا زعم قلب و نگاہ میں فتور پیدا کر دیتا ہے تو پھر سب کچھ ہیچ اور کم تر نظر آتا ہے۔انسان خود د کو ایک ایسی مسند پر فائز کر لیتاہے جہاں پر اسے دوسرے انسان حقیر اور چھوٹے نظر آتے ہیں۔حکمران زعمِ باطل میںمبتلا ہو جاتے ہیں کہ ان کا اقتدار سدا قائم رہنا ہے اور عوام کا مقدر فقط ان کے اقتدار کے سامنے خود کو سرنگوں کرنا ہے۔وہ بھول جاتے ہیں کہ ایک دن انھیں بھی قانون کے کٹہرے میں کھڑا ہونا ہے اور اپنے اعمال کا حساب دینا ہے۔ یاد رکھو اعمال کا حساب ایک اٹل حقیقت ہے۔ پانامالیکس اسی حساب دہی کی ایک ہلکی سے جھلک ہے۔کاش حکمران سمجھ جائیں کہ ان کا آخری وقت آ پہنچا ہے ۔جب وقت کا بے رحم ہاتھ اٹھ جاتا ہے تو پھر کوئی بچانے کی سکت نہیں رکھتا۔سیانوں کا قول ہے کہ مشکل وقت میں پتے بھی ہوا دینے لگتے ہیں اور شائد وہ وقت اب بالکل سر پر کھڑا ہے۔،۔