اُمیدِ بہار رکھ !

Chaos

Chaos

شیکسپیئر کا ایک ڈرامہ تھا جس میں عارضی جدائی کی بیقراری میں قلو پطرہ جل رہی تھی ، دور سے اس نے محسوس کیا کہ ایک خبر رساں آ رہا ہے وہ اس کے پاس گئی اور کہا کہ میرے کان مدت سے کسی اچھی خبر کی متلاشی ہے ان کانوں میں کوئی اچھی خبر کا رس گھول دو ۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ اُمید ، مایوسی، غم، خوشی، سکون، بے کلی، ہنگامہ، ہار جیت، خاموشی، اندھیرا اُجالا سب کچھ زندگی کے مختلف چہرے اور شکلیں ہوتی ہیں۔ جن سے ہمیں واسطہ پڑتا رہتا ہے لیکن اس صبح کے انتظار میں حضرت یعقوب علیہ الصلوٰة والسلام کی آنکھیں روزنِ دیوار زنداں ہوگئیں کہ کب یوسف علیہ الصلوٰة والسلام کی آمد کی صحیح خبر ملے۔

الف لیلیٰ کے داستان کا ابو الحسن بھی اس دیار کی گلیوں میں دیوانہ وار پھر رہا ہے کہ کوئی تو اچھی خبر لا کر سنائے جس سے مضطرب دل کو کچھ قرار آئے ۔ یوں تو ہر خواہش پوری نہیں ہوتی اور نہ ہی آرزوئوں کی منڈیر پر بیٹھے انتظار کے کبوتر مایوس ہوکر اڑتے ہیں کیونکہ انہیں تو کوئی نہ کوئی آشیانے کی تلاش ہوتی ہے۔ آج کل ہمارے ملک میں بھی یہاں کے باسی (عوام) کسی اچھی خبر کی نوید کے لئے بے چین ہیں۔ ان کے لئے سب سے بڑی خبر تو گیارہ مئی کی رات کو ہوگی جب پاکستان میں تبدیلی کی نویدِ صبح ملے گی۔ آج کل جس چینل کو ٹیون کریں۔

اس پر عوام کی رائے کے بارے میں کوئی نہ کوئی پروگرام نشر ہو رہا ہوتا ہے اور اس میں عوام سے یہی سننے کو ملتا ہے کہ اب کچھ نئے لوگ آئیں جو ہمارے حالات درست کر سکیں کیونکہ انہوں نے پرانے چہروں کو بہت آزما لیا سب نے انہیں دھوکہ ہی دیا ہے۔ اور اب عوام کسی اُمید پر جینا نہیں چاہتے بلکہ اُمیدِ صبح دیکھنا چاہتے ہیں جس میں ان کے لئے امن و امان کا بسیرا ہو، جس میں ان کے لئے روزگار مہیا ہو، جس میں ان کے لئے مہنگائی کے خاتمے کا اعلان ہو۔جس میں ان کے لئے لوڈ شیڈنگ کے خاتمے کا کوئی معقول اعلان ہو، جس میں ان کے لئے کرپشن کے خاتمے کی نوید ہو، جس میں ان کے لئے مستحکم پاکستان اور ترقی کرتی ہوئی عوام ہو۔

پاکستان میں آج تمام ہی پارٹیاں نِت نئے منشور کے ساتھ جلوہ گر ہیں اور اپنی اپنی سیاسی دکانداری کو چمکانے میں مگن ہیں۔ مگر اب ہماری عوام چاہتی ہے کہ حکمرانی کی یہ بارِ گراں نوجوان اور پڑھے لکھے لوگوں کے جوان اور مضبوط کاندھوں پر سجایا جائے جو پورے ملک کا بوجھ سنبھال سکیں۔ ٹی وی دیکھ کر اور لوگوں کی رائے سُن کر تو ایسا ہی محسوس ہو رہا ہے کہ ان کی بجھتی آنکھوں میں اب امید کی قندیلیں روشن ہورہی ہیں، نئے نئے سپنے بنے جانے لگے ہیں، عوام کو بڑی مدت کے بعد محسوس ہوا کہ ان کی حکومت ان کے لئے کچھ نہیں کرتی اس لئے وہ اب ایسی حکومت کا خواب دیکھنے لگے ہیں۔

Election Commission

Election Commission

جہاں ان کی سنی جائے، اور مسائل کا فوری تدارک بھی کیا جائے،بے روزگاروں نے بھی کچھ سکھ کا سانس لینا شروع کر دیا ہے کہ نئی حکومت ان کے زخم پر بھی مرہم رکھے گی۔ کیوں کہ آج تک تو ان کی مٹھی میں بند جگنو اندھرے کو روشنی میں نہیں بدل سکے ۔ نوجوانوں نے بھی جیسے ٹھان لی ہے کہ ان کے دل کی آواز ملک کے گوشے گوشے میں سنی جائے۔

صرف عہد و پیماں کرنے والی پارٹیاں انہیں ہر بار دھوکے سے ہی نوازتی ہیں۔ اب کہا یہ جا رہا ہے کہ کسی پر آنکھ بند کرکے جان و دل ہار دیا جائے ایسا نہیں ہونے والا۔ان کے جو مسائل برسوں سے حل طلب ہیں وہ کم از کم نئی حکومت کے دور میں ضرور حل کی سمت میں پیش قدمی کریں گے۔ ماضی کے تجربات سے ان امیدوں کو مزید تقویت ملتی ہے۔

عوام نے اب آزمودہ قیادت کو شاید خیر باد کہنے کا ارادہ کر لیا ہے ۔ اگر عوام کے ساتھ الیکشن کمیشن اور عدلیہ بھی انصاف کرے یعنی انصاف کے تقاضوں کو پورا کرے تو یقینا اس ملک میں کوئی مہذب، با شعور، محنتی حکومت وجود میں آ جائے ۔ اس وقت ایسی حکومت کی پاکستان اور اس کے عوام کو ضرورت بھی ہے جو ملک اور عوام کی ترقی کو اپنا مقصد سمجھتے ہوں۔ تاریخ سے بھی یہ بات شاہد ہے کہ مخلص قیادت نے ناممکنات کو ممکن کر دکھایا اور مخالفوں کے منہ پر تالے لگا دیے۔ صاف ستھری بے داغ امیج والے افراد کی نیت پر کوئی انگلی نہیں اٹھایا کرتا۔

ایسی حکومت وجود میں آئے جو غیروں کے قرضوں کی نادیدہ اور دیدہ بیڑیاں اتار پھینکے اور بیورو کریسی کی بے قابو گھوڑے کی گرفت سے بھی خود کو آزاد رکھے تاکہ اچھی روایت قائم ہو سکے اور حکمرانی کا مزہ بھی مل سکے۔ ہمارے ملک کا المیہ ہمیشہ سے یہی رہا ہے کہ جو بھی اقتدار میں آتا ہے وہ پہلے والے حکمرانوں کی ڈگر پر چلتا ہے کوئی کچھ نیا نہیں کرتا کہ جس سے عوام کو سہولت میسر آ جائے، وہی روایتی کہانیاں دہرائی جاتی ہیں جو پہلے والے نے کیا تھا۔

بس اب وقت آگیا ہے کہ ٹھوس فیصلے کرکے ملک کو ترقی کی راہوں پر ڈالا جائے۔ ہم سے بعد میں وجود آنے والا ملک بنگلہ دیش جو ہمارے ہی وطن کے ٹکرے کروا کر اپنے لئے خطہ زمین حاصل کیا اور آج کہاں سے کہاں پہنچ گیا ہے اور ہم ہیں کہ آپسی لڑائیوں میں اُلجھ کر پستی کی سمت پیش قدمی کر رہے ہیں۔عوام یہ اُمید کر رہی ہے کہ وہ مسائل جو پاکستانیوں کی ڈکشنری میں سرِفہرست ہیں ان کا ازالہ نئی حکومت کرے ۔ انتخابی منشور میں کیا گیا وعدہ تو بس وعدہ ہی رہتا ہے پورا نہیں کیا جاتا۔

Election

Election

گیارہ مئی کا الیکشن عوام کے لئے بھی دو اور دو چار کی طرح صاف ہے کہ یہ یہاں کے باسیوں کے لئے زندگی اور موت کا سوال ہے اور عوام اس پر اب کوئی مصالحت کرنے کو تیار نہیں۔ اب وہ فریب کھانے کے لئے تیار نہیں ، وہ صرف وعدوں پر نہیں رہیں گے، انہیں ٹھوس عملی اقدامات کی ضرورت ہے اس لئے کہ زندگی لہو لہو ہو گئی ہے، ہر گھر میں صفِ ماتم بچھا ہوا ہے، نصف شب کی دستکوں نے ان کے دلوں کی دھڑکنوں کو بڑھا دیا ہے ۔ ہزاروں خاندان اپنے اپنے لواحقین کی موت کے بعد کسمپرسی کی زندگی گزارنے پر مجبور ہو چکے ہیں اس لئے اب وہ کوئی بُھول بُھلیوں کا کھیل کھیلنے کو تیار نہیں۔

ویسے بھی وقت کسی کا انتظار نہیں کرتا۔ ایک لمحہ کی غلفت سے سینکڑوں سال کی مسافت گلے پڑ جاتی ہے ۔ مسیحا یا نجات دہندہ کی تلاش و آرزو نے عوام کو بیگانہ بنا دیا ہے۔ایک جیسی سیاست، ایک جیسے بیزار کن موضوعات اور مقدر بن جانے والے معمولات سے چھٹکارہ چاہتی ہے یہ عوام، یہ بھی سچ ہے کہ اس ملک کے نوجوانوں کا مستقبل سوکھے پتوں کے ڈھیر کی طرح جل رہا ہے کہیں درد کی چنگاری سلگتی دکھائی دیتی ہے اور دل سے صرف دھواں اٹھتا دکھائی دیتا ہے مگر اس دھویں کو کوئی بادلوں کے بسیرے میں تبدیل کرنے نہیں آتا۔ پھر بھی یہ عوام امیدوں کی روشنی کے لئے پُر عزم دکھائی دیتے ہیں وہ آج بھی اس محب اندھیرے سائے کو روشن صبح میں تبدیل ہونے کے آس میں جی رہے ہیں۔

عوام امید کرتی ہے کہ نئی سرکار جو گیارہ مئی کو وجود میں آنے کو ہے آفتاب و ماہتا ب کی طرح چمکیں اور جو داغ کئی سالوں کے دوران ان کے ماتھے پر سجائے گئے آئندہ برسوں میں ان کا نام و نشان نہ رہے۔عوام لگے بندھے معمولات کی راہوں پر چلنے کے لئے اب تیار نہیں اس لئے امید ہے کہ اب عوام کے ووٹوں کا جو تقدس ہے اسے عوام سوچ سمجھ کر استعمال کریں گے تاکہ پاکستان دنیا کے نقشے پر سرخروئی حاصل کر سکے۔ اختتامِ کلام بس اتنا کہ پاکستان ! زندہ باد، پاکستانی عوام زندہ باد۔

تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی