تعلیم کسی بھی ملک کی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔لیکن بد قسمتی سے وطن عزیز میں تعلیم کے شعبے کو جس طرح سے نظر انداز کیا جا رہا ہے اس سے دن بہ دن صورتحال بگرتی جا رہی ہے۔ہمارے تعلیمی پسماندگی کن خطرناک حدوں کو چھو رہی ہے اس کا اندازہ لگانا مشکل ہے۔پاکستان میں تعلیم پر GDP قومی شرح پیداوار کاصرف 1.8فیصد خرچ کیا جا رہا ہے جو کہ انتہائی کم ہے۔اقوام متحدہ کی رپورٹ میں ترقی پذیر ممالک کو تعلیمی بجٹ کے لئے جی ڈی پی کا کم از کم پانچ فیصد حصہ خرچ کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔
ہمارے ہاں سیاستدان وعدے تو بہت کرتے ہیں لیکن نبھاتے کم ہی ہیں۔شرح خواندگی بہتر کرنے کی بات تو کرتے ہیں لیکن عملی اقدامات کی طرف نہیں بڑھتے۔سرکاری سطح پر تعلیم کے شعبے کیلئے کوششیں ناکافی نظر آتی ہیں۔شرح خواندگی کی بہتری کے لئے پرائیویٹ ادارے بھی کہیں نہ کہیںاپنی سطح پر کام کرتے دکھائی دیتے ہیں۔غزاا لی ایجوکیشن ٹرسٹ انہی اداروں میں سے ایک ادارہ ہے جو پوری شدو مد سے عملی میدان میں تعلیمی شعبے کے لئے خدمات سر انجام دے رہاہے۔مجھے غزالی ایجو کشن ٹرسٹ کے پروگرامز میں شرکت کا موقع ملتا رہتا ہے اس طرح سے اس ادارے کی سرگرمیوں سے آگاہی بھی ملتی ہے۔
میں نے غزالی ماڈل کا بغور جائزہ بھی لیا ہے،بغیر حکومتی تعاون کے اپنے وسائل کو بروئے کار لاتے ہوئے اس ادارے کا اب تک کا سفر محنت اور خدمت سے بھرپور ہے۔یہ واحد ادارہ جس کا نیٹ ورک پورے پاکستان میں موجود ہے،یہ ادارہ دیہاتوں اور پسماندہ علاقوں کے بچوں کوبلا معاوضہ زیور تعلیم سے آراستہ کر رہا ہے۔جو فی زمانہ کسی جہاد سے کم نہیں۔غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کا وسیع نیٹ ورک پاکستان کے 35اضلاع میں 325سکولوں پر مشتمل ہے جہاں 48000سے زائد طلبہ و طالبات کو 2400 اساتذہ علم جیسی لازوال دولت سے آراستہ کر نے میں مصروف ہیں۔
Students
سچ پوچھیئے تو ایسے ادارے اس دور میں کسی نعمت سے کم نہیں جو اپنے وسائل کی کمی کے باوجود اتنا خوبصورت کام کر رہے ہیں۔اس ادارے کی منفرد بات یہ بھی ہے کہ اپنے پلیٹ فارم سے یہ اساتذہ کو بھی مختلف پروگرامز کے ذریعے خراج تحسین پیش کرتے رہتے ہیں۔اس وقت یہ کمی دیکھنے میں آئی ہے جو یہ ادارہ اپنے طور پر پوری کرنے کی کوشش کر رہا ہے،اساتذہ قوم کے معمار ہوتے ہیں طلباء میںاساتذہ کی عزت و توقیر کے حوالے سے جذبہ بڑھانے کی ضرورت ہے۔ غزالی اپنے سکولوں میں یوم اساتذہ کے حوالے سے تقریبات کا انعقاد کر کے جہاں طلبہ و طالبات کی تربیت میں اہم کردار ادا کر رہا ہے،وہیں اساتذہ کی بے لوث خدمات کا اعتراف کرنا بھی اساتذہ سے محبت و عقیدت کا خوبصورت اظہار ہے۔
وسائل کی قلت اور نامساعد حالات کے باوجودیہ ادارہ اپنے عظیم مشن کی تکمیل میں مصروف ہے۔ جس وقت این جی اوز اور دوسرے ادارے شہری بچوں پر توجہ دے رہے ہیں یہ ادار ہ ان بے سہارا بچوں کا سہارا بن رہا ہے جو دور دراز کسی پسماندہ بستی میں رہ رہے ہیں اور وسائل نہ ہونے کی وجہ سے تعلیم حاصل نہیں کر پاتے۔ان یتیم بے آسرا بچوں کو زیور تعلیم سے آراستہ کرنا اس ادارے کا مشن ہے۔بڑھتی ہوئی تعلیمی جہالت کے لئے غزالی جیسے مزید سینکڑوں ادارے وجود میں آنے چاہیے۔مجھے نورالھدی کی وساطت سے اس ادارے کا تفصیلی دورہ کرنے کا بھی موقع ملا،غزالی ایجوکیشن ٹرسٹ کے ڈائریکٹر سید عامر محمود نے جب بتایا کہ غزالی معاشرے سے کٹے ہوئے بچے یعنی ذہنی و جسمانی طور پر معذور بچوں کی بھی تعلیم و تربیت کااہتمام بھی کرتا ہے۔
یہ جان کر نے حد خوشی بھی ہوئی کہ ایسے بچے جن کو خصوصی بچے کہا جاتا ہے مگر بدقسمتی سے ہمارا معاشرہ ان کو قبول کرنے کو تیار نہیں۔یہ ادارہ ان بچوں کو بھی اس قابل بناتا کہ وہ معاشرے میں اپنی استعداد کے مطابق کام کر سکیں۔ا سی طرح چند دن پہلے سعدیہ کیمپس جانے کا موقع ملا یہ ادارہ بھی خصوصی بچوں کے لئے صحیح معنوں میں خدمات سر انجام دے رہا ۔یہاں ڈاکٹر امجد ثاقب کے ادارے ”اخوت”کا ذکر نہ کرنا زیادتی ہوگی۔ڈاکٹر امجدجیسے خوش اخلاق اور ملنسار انسان سے ملاقات کے بعد آپ ان کے گرویدہ ہوجاتے ہیں ان کی ملک و قوم ے لئے خدمات کسی سے ڈھکی چھپی نہیں۔ایک ایسا ادارہ جس کا نام کاروان علم فائونڈیشن ہے خالد ارشاد صوفی قلم کار ہیں اس ادارے کے ذمہ دار بھی ہیں۔
یہ ادارہ زندگی سے ہارے ہوئے بچوں کو امید دیتا ہے ،بے سہارا بچوں کی کفالت کا ذمہ اٹھا کر جینے کی امنگ دیتا ہے۔میں اپنے ملک کے بدترین حالات کو دیکھتا ہوں اور پھر ان اداروں پر نظر جاتی ہے تو مایوسی کے گھٹا ٹوپ اندھیروں میں بھلی روشنی نظر آتی ہے۔
انگریزی کہاوت ہےGOD Help those,who help themselves یعنی خدا ان کی مدد کرتا ہے جو اپنی مدد آپ کرتے ہیں۔اگر ہم آج عہد کرلیں کہ ان اداروں کے دست بازو بنیں گے جہاںتک ہو سکے گا عملی تعاون کے لئے قدم بڑھائیں گے۔ تو ہمارا معاشرہ کتنا خوبصورت ہو جائے گا۔تو آئیے اپنے حصے ک شمع جلاتے ہیں۔!