تحریر : حفیظ خٹک اپنائیت کا احساس اس وقت شدت کے ساتھ ہوتا ہے جب آپ کا کوئی اپنا لاپتہ ہو جاتا ہے۔ درد کی کیفیت اس وقت ناقابل بیاں ہوتی ہے جب اس اپنے لاپتہ کا پتہ معلوم کرنے کیلئے ایک اک لمحہ آپ کو جہت کرنی پڑتی ہے ۔نہ دن اور نہ ہی رات کے کسی پہر ماں، باپ، بھائی، بہنیں اور بہت سارے اس ایک لاپتہ پیارے کا پتہ لگانے کیلئے قدم سے بڑھ کر اقدامات کرتے ہیں۔ بوڑھا باپ اندھیری راتوں میں گھر سے نکلتا ہے اور اپنے لاپتہ بیٹے کو آوازیں دیتا گھنٹون سڑک پر گذاردیتا ہے اس کی شریک حیات لاپتہ کی ماں اپنی بیٹیوں کے ہمراہ اپنے انداز میں پتہ کرنے جاتی ہیں۔ اس صورتحال میں کچھ اپنے عزیز و اقارب بھی اپنا اصل چہرہ دکھاتے ہیں ۔تلاش کا یہ سلسلہ اور اس سلسلے کی یہ شدت برقرار رہتی ہے۔ اس کی ایک وجہ بنیادی اور آخری وجہ وہ امید ہے جس کی بنیاد پر پہلے قدم سے لے کر آخری قدم تک اٹھایا جاتا ہے۔
امید صرف اللہ سے ہوتی ہے اور اسی اللہ سے اس امید کے بعد جدوجہد کی جاتی ہے اور بالاآخر کامیابی حاصل ہوتی ہے ۔ جس روز امید ختم ہوجاتی ہے اس وقت شکست کے سائے چھا جاتے ہیں ، انسان مایوس ہوجاتا ہے اور ایک مایوس انسان ایک شکست خوردہ انسان کی مانند اپنی زندگی کو بسر کرتا ہے۔اس لاپتہ والی کیفیت کے بعددو کیفیات ہوتی ہیں ایک یہ کہ اس لاپتہ کا پتہ چل جاتا ہے اور اس کے بعد اس کے حصول کی جانب بڑھنے کا اک عملِ مسلسل شروع ہوجاتا ہے جو ختم لاپتہ کے حصول پر ہی ہوتا ہے ۔ دوسری صورت کیفیت یہ ہے کہ وہ لاپتہ ملتا ہی نہیں ہے اور جدوجہد یا تو ازخود خاتمے کی جانب بڑھتی ہے یا پھر اس میں کامیابی کسی اور طرح سے حاصل ہوتی ہے ۔ایک اور کیفیت کا رخ یہ بھی ہوتا ہے کہ وہ لاپتہ سامنے آتا ہے لیکن وہ جب وہ سامنے آتا ہے تو اس میں زندگی کی سانسیں نہیں ہوتی ہیں ۔وہ اس لاپتہ والے دور میں ہی ابدی زندگی کی جانب کوچ کر چکا ہوتا ہے اور پھر ایسا بھی ہوتا ہے کہ لاپتہ کا پتہ اک طویل مدت بعد چلتا ہے لیکن اس وقت یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ وہ لاپتہ تو کسی دیار غیر میں ہے اور وہاں بھی قید میں ہے ۔ تکلیف کی شدت اس سمع اور بھی بڑھ جاتی ہے جب یہ بات سامنے آتی ہے کہ وہ دیارغیر میں ناکردہ گناہوں کی سزا کے باعث طویل مدت کیلئے پابند سلاسل ہے ۔اس کی آزادی اور باعزت رہائی اور وطن واپسی کیلئے فرد کی ،افراد کی قوم کی اقوام کی جہت شدت کے ساتھ بڑھتی ہے لیکن جب فیصلہ کنندگان دغا دے جائیں تو اس سمعے بھی کیفیت ناقابل بیان ہوتی چلی جاتی ہے۔
امنہ مسعود جنجوعہ ، برسوں سے اپنے لاپتہ شوہر کا پتہ لگانے کیلئے جدوجہد کر رہی ہیں ۔ ان کے کہے یہ الفاظ وہی محسوس کر سکتا ہے جس کا کوئی اپنا لاپتہ ہو گیا ہواور اس کا پتہ لگانے کیلئے کچھ جدوجہد اس نے کی ہو۔ تاہم یہ بات قابل تعریف ہے کہ امنہ مسعود جنجوعہ کو آج تک اپنے شوہر کی تلاش میں کامیابی نہیں مل سکی لیکن اس کے باوجود ان کی جدوجہد اللہ سے امید پر قائم ہیں انہیں اس بات کا یقین ہے کہ ایک دن انہیں کامیابی حاصل ہوگی اور ان کے زندگی کے جیون ساتھی ان سے آملیں گے ۔ اس جدوجہد کے نتیجے میں جو انہوں نے اپنے شوہر کی بازیابی کیلئے کی اب ایک باقاعدہ تحریک کی صورت اختیار کر چکی ہے یہ تحریک لاپتہ افراد کی بازیابی کیلئے سرگرم عمل ہے ان کی جدوجہد کے نتیجے میں اب تک 850سے زائد افراد کا نہ صرف پتہ چل چکا ہے بلکہ وہ اپنے گھروں کو واپس پہنچ کر اپنی زندگیوں کو خوش و خرم گذار رہے ہیں۔
Missing Persons
امریکہ میں ناکردہ گناہوں کی 86برسوں پر مشتمل سزا ، قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی قید خانے میں کاٹ رہی ہیں ۔ یہی ڈاکٹر عافیہ صدیقی 2003میں شہر قائد سے بچوں سمیت اغوا کی گئیں تو 5برسوں تک ان کا بھی ان کے اہل خانہ سمیت کسی کو علم نہ تھا کہ وہ اور اس کے بچے کہاں اور کس حال میں ہیں ۔ اس وقت یہی امنہ مسعود جنجوعہ تھیں جنہوں نے ان کی بازیابی کیلئے محنتیں کیں ان کی اور ان کے ساتھ ڈاکٹر عافیہ صدیقی کے اہل خانہ کی کوششوں کے بعد انہیں صورتحال کا علم ہوا ۔اس کے بعد سے قوم کی بیٹی کیلئے جدوجہد تیز تر ہوتی گئی اور 4لاپتہ افراد میں سے 3کا نہ صرف پتہ چلا بلکہ ان میں سے 2مریم اور احمد اپنی نانی کے پا س گھر پہنچ گئے اور آج تک وہیں ہیں اور اپنی ماں کی واپسی کیلئے جاری جدوجہد میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ایک چھوٹا بھائی سلمان رہ گیا جس کا آج تک کچھ بھی پتہ نہیں چلا سکا ہے کہ وہ ہے توکہاں اور کس حال میں ہے ۔ ان کی ماں ڈاکٹر عافیہ صدیقی جو امریکی جیل میں نا کردہ گناہوں کی سزا بھگت رہی ہیں اور جن کی رہائی کیلئے ملک کے موجودہ وزیر اعظم میاں نواز شریف نے قوم کی بیٹی کے اہل خانہ سے وعدہ کیا تھا لیکن انہوں نے اب تک اس وعدے کو پورا نہیں کیا ۔ پانامہ لیکس کے معاملات سے نواز شریف ، بیٹی مریم ،اور بیٹوں حسن و حسین نواز کو بچانے کیلئے قطری شاہی گھرانے سے خط تولکھوایا جا سکتا ہے لیکن قوم کی بیٹی ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے ان بیٹی مریم سے کیا گیا وعدہ پورا نہیں کیا جاسکتا ۔ وزیر اعظم کا یہ عمل اور اس پر ان کا ردعمل تمام عمر قوم کیلئے سوالیہ نشان بنا رہے گا۔
ڈاکٹر عافیہ صدیقی کی رہائی کیلئے برپا تحریک عافیہ موومنٹ رضا کاروں کی وہ تحریک ہے جس میں ا ب پوری قوم سے شامل ہوچکی ہے اس کے ساتھ عالمی سطح پر بھی انسانی حقوق کی تنظیمیں ان کے عزائم کی تکمیل کیلئے ان کیساتھ ہیں ۔ حالیہ امریکی صدارت کی منتقلی سے قبل ایک نادر موقع وزیراعظم کے پاس تھا کہ وہ صرف ایک خط امریکی حکومت کے نام لکھتے تو شاید ایسا ہوتا کہ ڈاکٹر عافیہ صدیقی اس وقت اپنے گھر میں ہوتیں لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا ۔ سیاسی مذہبی جماعتوں اور انسانی حقوق کی دیگر تنظیموں نے بڑی کوششیں کی لیکن سب رائیگاں چلی گئیں بلا آخرامریکی صدر بارک اوبامہ کی صدارت کا آخری دن بھی گذر گیا اور ان کی جگہ نئے امریکی صدر نے عہدہ سنبھال لیا ، ڈاکٹر عافیہ جس جیل میں تھیں وہ وہیں پر رہ گئیں ان کی رہائی کیلئے جدوجہد کرنے والے قدرے مایوس ضرور ہوئے لیکن ڈاکٹر فوزیہ صدیقی کی پریس کانفرنس نے سب ہی کے اندرنئے انداز میں اپنی جدوجہد کرنے اور کامیابی کے حصول تک جدوجہد کو جاری رکھنے کیلئے کیلئے دوبارہ پر امید کر دیا۔
Dr Fauzia Siddiqui
اپنی رہائش گاہ پر پریس کانفرنس کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سابقہ امریکی صدر اوبامہ نے 12صدور سے زیادہ قیدیوں کو جن کی تعداد 1750ہے انہیں رہا کیا ان ہی قیدیوں میں چند ایسے قیدی بھی تھے جنہوں نے اسنانیت سوز مظالم کئے لیکن اس کے باوجود ان کے صدور کی درخواست پر اوبامہ نے انہیں رہا کر دیا ۔ نواز شریف اگر ایک خط لکھ دیتے تو قوم کی بیٹی کی رہائی ممکن ہو جاتی لیکن انہوں نے ایسا نہیں کیا اس کے باوجود ہماری جدوجہد جاری رہے گی اور ہم وعدوں سے اور حکمرانوں کی باتوں مایوس ہونے والے نہیں بلکہ ہمیں امید صرف اللہ سے ہے لہذا عافیہ موومنٹ کے رضاکار ، عوام کے ساتھ مل کر اپنی جدوجہد جاری رکھیں اور اللہ سے اس بات کی امید رکھیں کہ ان کی کاوشوں کو اللہ قبول فرمائے گا اور انہیں عافیہ کی باعزت رہائی اور واپسی کی صورت میں ضرورکامیابی حاصل ہو گی۔