کچھ مختلف ہوں لیکن انسان تو ہوں میں

Children

Children

تحریر : ممتاز ملک.پیرس

ہر انسان میں اسکی جنس کے ہارمونز ہی اسے دوسری جنس سے مختلف صورت میں پیدا کرنے کا باعث ہوتے ہیں۔ جیسے میل ہارمونز ایک بیٹے کی صورت میں انسانی وجود عطا کرتا ہے تو اسے طرح فی میل ہارمونز بیٹی کی صورت میں دنیا پر ایک وجود کو لاتے ہیں

گویا کھیل ہے سارا ایکس اور وائی کروموسومز کا ۔ پھر جب کہیں یہ ہارمومونز اور کروموسومز اپنا توازن برقرار نہیں رکھ پاتے تو دنیا میں آنے والا بچہ بطور انسان کچھ مختلف مزاج اور عادات اور کبھی جسمانی ساخت کی کسی کمی بیشی کیساتھ تولد ہوتا ہے۔

اس میں اہم بات یہ ہوتی ہے کہ وہ بیک وقت لڑکے کے وجود میں لڑکی کے ہارمونز کیساتھ پیدا ہوتا ہے یا پھر لڑکی کے وجود میں لڑکوں جیسے ہارمونل عناصر کو لیکر پیدا ہوتی ہے ۔

ان بچوں میں جو وہ دکھائی دیتے ہیں ان کہ عادات اور انداز اس سے مختلف جنس کو ظاہر کرتی ہے ۔ یوں ان کا جسم اور ذہن دو دنیاوں کو لیکر سفر کر رہا ہوتا ہے ۔

ہم انہیں خواجہ سرا، ہیجڑا ، کھسرا ، کراس جینڈر کے ناموں سے پکارتے ہیں اور ایسے ناموں سے عجیب سے گھٹیا سی لذت بھی حاصل کرتے ہیں ۔ کیوں ؟ یہ بات آج تک ہمارے پلے نہیں پڑی ۔ کیا ان کا جسمانی اور روحانی کشمکش کا یہ کھیل انہیں انسانوں کی فہرست سے خارج کر دیتا ہے ؟ کیا ان کی رگوں میں خون کا رنگ سرخ نہیں ہے ؟ کیا ان کے سینے میں بھی دل موجود نہیں ہے یا سر میں دماغ موجود نہیں ہے؟ انہیں بھوک نہیں لگتی یا انہیں چوٹ لگنے پر درد نہیں ہوتا ؟ انکی آنکھ سے تکلیف میں آنسو نہیں بہتے؟

ان کی کوئی عزت نفس نہیں ہوتی ؟

یا ان کی کوئی کمی انہیں اچھوت بناتی ہے جو آپ کو بھی لگ جائے گی ؟

یہ بات سارے معاشرے کو تو سمجھنی ہی چاہیئے لیکن سب سے پہلے یہ باتیں اس کے والدین کو سمجھ آنی چاہیئیں ۔ کہ کسی ایک عادت یا رویئے یا جسمانی کمی بیشی سے اس کے باقی سب جذبات و احساسات سن نہیں ہو جاتے ۔ بلکہ وہ جس امتحان کیساتھ پیدا ہوا ہے اسے زیادہ تحفظ اور محبت کی ضروت ہے ۔ کبھی آزما کر دیکھیئے آپ کے بڑھاپے اور بیماری میں ساری نارمل اولادوں سے کئی گنا زیادہ یہ آپ کی خدمت بھی کرتے ہیں اور آپ سے محبت بھی کرتے ہیں ۔

ان بچوں کو اللہ کی رضا سمجھ کر جس رخ پر ان کا جھکاو ہے اس سے بدل کر جس وجود میں وہ دکھتے ہیں، اسمیں لانے کے لیئے انہیں اسی طرح کے کاموں اور مشاغل میں مصروف رکھنا بھی ایک کوشش ہو سکتی ہے۔

ان کے حقوق کی حفاظت کرنا والدین اور بہن بھائیوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے ۔

ان بچوں کو بھرپور تعلیم اور تربیت کی ضرورت ہوتی ہے ۔ ۔تاکہ یہ معاشی طور پر بھی خود مختار ہو سکیں ۔ اور کسی کی بھی محتاجی سے محفوظ رہیں ۔ یہ دل کے بیحد نازک ہوتے ہیں۔ ہمارے معاشرے کی دوسری خرابیوں میں یہ بھی سر فہرست ہے کیونکہ یہ بچے دوسروں کی نظروں کے تیر بھی سہتے ہیں ، ان کے مذاق کو بھی جھیلتے ہیں ۔ شاید سامنے والے اپنے عورت اور مرد ہونے کو اپنا ہی کوئی کارنامہ سمجھتے ہیں اور یہ ان کے لیئے کوئی لطیفہ ہے ۔ لیکن وہ والدین خصوصا والد جو ایسے بچے کو اپنے لیئے خدا کی رضا سے زیادہ اپنی بدنامی پر تعبیر کرتے ہیں ۔ وہ یہ بات بھول جاتے ہیں کہ خود ان کے مرد ہونے میں بھی ان کا اپنا کوئی کمال نہیں ہے ۔

یہ بچہ خود سے اس کشمکش کی زندگی کو منتخب کر کے نہیں آیا ۔ آپ سے زیادہ وہ آزمائش میں ہے ۔ جو کبھی اپنی روح کو فالو کرنا چاہتا ہے اور کبھی اپنے جسم کو ماننے کی کوشش کرتا ہے ۔ ایسے بچوں کے والدین اور بہن بھائیوں کو ان کے ساتھ خاص محبت اور لگاو کی ضرورت ہوتی ہے ۔ انہیں خود سے دور مت کیجیئے ۔ ورنہ ہمارا معاشرہ انہیں نہ تو کوئ عزت دیتا ہے اور نہ ہی تحفظ ۔ ان کو بھی نارمل بچوں کیساتھ پڑھنے کا پورا حق ہے ۔ لیکن ایسا تبھی ممکن ہو گا جب ہمارے معاشرے کے بالغ افراد اپنی بالغ نظری کا مظاہرہ کرتے ہوئے اپنی اولادوں کو یہ تربیت دیں کہ کسی کی کسی کمی پر، مذہب پر، عقائد پر کبھی آپ بات نہیں کرینگے ۔ یا کہیں بات یو تو اس کا مذاق نہیں اڑائینگے۔

ہمیں اس بات کی آج تک سمجھ نہیں آ سکی کہ پیدا کرنے والے ماں باپ اپنی ہی اولاد سے کسی کمی یا اس کے کچھ مختلف ہونے پر اس سے نفرت کیسے کر لیتے ہیں ۔ اللہ پاک نے یہ اولاد آپ کی تربیت اور آپ کی محبت پر برابر کے حق کیساتھ عطا فرمائی یے ۔

بلکہ کچھ مختلف بچوں کو آپ کی زیادہ محبت اور رہنمائی کی ضرورت ہوتی ہے ۔

یہ اولاد آپ سے باقی اولادوں سے کہیں زیادہ محبت کرتی ہے ۔ آپ کے لیئے دعا گو ہوتی ہے ۔

خدا کے لیئے انہیں دھتکاریں مت ۔ ورنہ یہ معصوم برے اور بدکار لوگوں کے ہتھے چڑھ کر کیسے کیسے کاموں میں ملوث کر دیئے جاتے ہیں کہ آپ اس کا تصور بھی نہیں کرسکتے ۔

یاد رکھیئے آپ کو خدا کے سامنے اس اولاد کے بارے میں بھی برابر کا جوابدہ ہونا ہو گا ۔

Mumtaz Malik

Mumtaz Malik

تحریر : ممتاز ملک.پیرس