تحریر : قادر خان یوسف زئی پاکستان میں سینیٹ کے انتخابات عموماََ تنقید کی زد میں رہے ہیں۔ ہارس ٹریڈنگ کے حوالے سے سینیٹ انتخابات میں اراکین کی وفاداریوں پر کڑی نظر رکھی جاتی ہے۔ وزیر اعظم شاہد خاقان عباسی کا کہناہے کہ “میری خواہش ہوگی کہ جس نے بھی سینیٹ الیکشن میں “ہارس ٹریڈنگ”کی اس کا نام عوام کے سامنے لایا جائے، پیسے کی طاقت سے بننے والا سینیٹر مُلک کو خدمت کیا کرے گا ؟۔”وزیر اعظم ِ پاکستان کا کہنا بالکل درست ہے کیونکہ پیسے کی طاقت سے آنے والا سینیٹر جس نے براہ راست عوام سے ووٹ بھی نہیں لئے ہوتے وہ کیونکر عوام کو جواب دہ ہوسکتا ہے۔ سینیٹر کو عوامی حلقوں میں جاکر کارنر میٹنگ یا جلسے جلوس یا پھر انہیں عوام سے وعدے وعید کرنے کی بھی ضرورت نہیں ہوتی کیونکہ ان کا انتخاب عوام نہیں کرتے بلکہ سیاسی جماعتیں کرتی ہیں۔سینیٹر کومنتخب کرنے کے طریقہ کار میں صوبائی اسمبلیوں کے نمائندوں کو کلیدی حیثیت حاصل ہوتی ہے کیونکہ یہی نمائندے ایوان بالا کے لئے سینیٹرز منتخب کرتے ہیں۔
موجودہ سینیٹ کے انتخابات اس حوالے سے کافی دلچسپ صورتحال اختیار کرگئے ہیں کیونکہ عام انتخابات میں چند مہینے ہی باقی ہیں اور زیادہ تر صوبائی اسمبلی کے اراکین کو اس بات کا بھی یقین نہیں ہے کہ ان کی سیاسی جماعت انہیں عام انتخابات میں ٹکٹ فراہم کرے گی یا نہیں ۔ یا پھر ایسے اراکین صوبائی اسمبلی کی بھی بڑی کثیر تعداد کو خدشات لاحق ہیں کہ عام انتخابات میں وہ دوبارہ کامیاب بھی ہوسکیں گے یا نہیں، جس کی وجہ سے ہارس ٹریڈنگ کے امکانات بڑھ گئے ہیں ۔ خاص طور پر وطن ِ عزیز میں کسی بھی وقت سیاسی تبدیلی کی فضائوں کی باز گشت وتحفظات نے بھی ایک بے یقینی کی صورتحال کو جنم دے رکھا ہے ۔ سینیٹ کے حوالے سے کھل کر بات کرنے میں کوئی قباحت اس لئے نہیں ہے کیونکہ وزیر اعظم سے لیکر عام شخص بھی سینیٹ میں ہارس ٹریڈنگ پر اپنے خیالات کا اظہار بر ملا کررہا ہے۔ وزیر خارجہ خواجہ آصف کا کہنا ہے کہ “سینیٹ الیکشن میں جو ہارس ٹریڈنگ کررہا ہے اسے سب جانتے ہیں ۔”سینیٹ انتخابات میں صوبہ پختونخوا ، فاٹا ، بلوچستان اور سندھ (بالخصوص کراچی و حیدرآباد )میں ہارس ٹریڈنگ کئے جانے کے الزامات قبل از وقت انتخابات عائد کئے جا رہے ہیں۔
دعویٰ کیا جاتاہے کہ بلوچستان حکومت کی تبدیلی ایک جمہوری طریق کار کے مطابق ہوئی ہے اس لئے سینیٹ کے حوالے سے پارٹی امیدواروں کو ہی ووٹ دیئے جائیں گے۔ یہ بات بڑی عجیب ہے کہ سینیٹ میں پارٹی امیدواروں کو ووٹ دیئے جائیں گے کیونکہ جس طرح بلوچستان میں صوبائی حکومت تبدیل ہوئی اور صرف پانچ نشستیں رکھنے والی جماعت کے حصے میں ملک کے حساس ترین صوبے کی وزارت اعلیٰ آئی، بذات خود یہ جمہوریت کے نام پر سوالیہ نشان ہے۔ ملک بھر سے ( ق) سینیٹ کے انتخابات میں اس بار نمائندگی سے محروم بھی ہو رہی ہے ۔ لیکن بلوچستان میں جس طرح صورتحال پیدا ہوئی اُسے بھی نظر انداز نہیں کیا جاسکتا کہ پاکستان مسلم لیگ ق سینیٹ میں جمہوریت کے چمتکار سے دوبارہ نمائندگی حاصل کرسکتی ہے۔ یقینی طور پر بلوچستان میں سینیٹ انتخابات کے نتائج پاکستانی سیاست میں انمٹ نقوش چھوڑ جائیں گے اور ہمیشہ کی طرح کوئی بھی سبق نہیں سیکھے گا ۔س طرح بلوچستان کے حوالے سے قیاس آرائیاں اپنے عروج پر ہیں کہ پی پی پی کی بلوچستان میں نمائندگی نہ ہونے کے باوجود سینیٹ میں نمائندگی ملنے کے امکانات روشن ہیں۔تاہم یہ بروقت سینیٹ انتخابات کے وقت تک تبصرے کوموخر رکھتے ہیں۔
صوبہ پختونخوا میں تحریک انصاف کے رہنما کی جانب سے اپنے ہی وزیر اعلیٰ پر الزامات نے بھی قبل ازوقت کئی سوالات کھڑے دیئے ہیں ،جس میں الزام لگایا گیا ہے من پسند شخصیات کو سینیٹ کے ٹکٹ دیئے گئے ہیں اور اُن سے کہا ہے کہ وہ دولت کی طاقت سے سینیٹ کی نشستوں میں کامیابی حاصل کریں۔ سندھ کے شہری علاقوں میں ایم کیو ایم کی نشستوں پر گروپ بندیوں نے بھی سیاسی ماحول کو کافی گرما دیا ہے ۔ دلچسپ صورتحال یہ بھی ہے کہ پاک سر زمین پارٹی جیسے ابھی عوام کے مینڈیٹ کو اپنے حق میں ثابت کرنا باقی ہے ۔ وہ بھی ایم کیو ایم کے منحرف اراکین سے سینیٹ میں نمائندگی حاصل کرنے کیلئے کوشاں ہے ۔ جمہوریت کی اصطلاح میںچھوٹے بڑے جلسے کرنا مینڈیٹ نہیں کہلاتا بلکہ عام انتخابات میں ووٹ کی طاقت مینڈیٹ کا تعین کرتا ہے ۔ ایم کیو ایم سینیٹ کی نشستوں میں دوبارہ کامیابی حاصل کرنے کیلئے اپنے اراکین پر سخت نظر بھی رکھ رہی ہے۔ جس طرح سینیٹ کے ٹکٹ اور اختیارات کی جنگ میں ایم کیو ایم کے کنوینر اور رابطہ کمیٹی کے اراکین کے درمیان اختلافات ہوئے اس سے لگتا ہے کہ شائد ایم کیو ایم کو سینیٹ انتخابات ہی میں نہیں بلکہ عام انتخابات میں بھی کسی غیر متوقع صورتحال کا بھی سامنا ہوسکتا ہے۔یہ تو نہیں کہا جاسکتا کہ پاک سرزمین پارٹی کسی دوسرے پارٹی کے مینڈیٹ پر دو اراکین کی سینیٹ کی نمائندگی حاصل کرکے کوئی بڑا اپ سیٹ کرے گی لیکن اس بات کے خدشات بہرحال موجود ہیں کہ ایم کیو ایم کے صوبائی اسمبلی کے اراکین ، اپنی جماعت کے غیر محفوظ مستقبل کی وجہ سے سینیٹ کے انتخابات میں” من مانی “کرسکتے ہیں۔ اس من مانی کابراہ راست فائدہ پیپلز پارٹی سمیت کسی بھی دوسری جماعت کو پہنچ سکتا ہے۔
سینیٹ انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ بڑے پیمانے پر ہونے کے واضح امکانات ہیں ۔ پاکستان مسلم لیگ ن اپنی عددی اکثریت کی بنا پر سینیٹ کی چیئرمین شپ کیلئے کمربستہ ہے جبکہ پاکستان پیپلز پارٹی سینیٹ میں واضح کامیابی کے لئے فاٹا سے لیکر کراچی اور پنجاب سے لیکر بلوچستان تک شطرنج کی بساط بچھا چکی ہے۔ مفاہمت کے جادو گر کا مقابلہ تین بار ادھورے وزیر اعظم سے ہے ۔ عمران خان کی سیاسی پختگی کا مظاہرہ ان کی جانب سے مالی طور پر مضبوط امیدواروں کو ٹکٹ دینے کی صورت میں سامنے آچکا ہے ۔تاہم ایسا نہیں ہے کہ کسی دوسری جماعت نے کسی متوسط طبقے سے تعلق رکھنے والے کو سینیٹ میں نمائندہ بنانے کیلئے ٹکٹ جاری کیا ہو ۔ تقریباََ تمام جماعتوں نے تمام نشستوں کیلئے اشرافیہ کو ہی ٹکٹ دیئے ہیں کیونکہ سینیٹ کے انتخابات میں سب سے بڑا کردار برستی مال و زر کا ہی ہوتا ہے۔ کوئی اس بات کو رد نہیں کرسکتا کہ سینیٹ کے انتخابات میں ہارس ٹریڈنگ عام روایت بن چکی ہے۔ بیشترامیدوار اپنے ووٹرز کو دولت کے ترازو میں تول کر اُن کی قیمت لگاتے ہیں اور یہ تماشہ کسی سے پوشیدہ بھی نہیںکیونکہ ایوان بالا میںکامیابی کے لئے محبت و جنگ میں سب جائز ہے ، کا فارمولا نہایت خوش اسلوبی سے انجام دیا جاتا ہے۔
سینیٹ کے چیئرمین اجلاسوں و اپنی قراردادوں میں ایوان بالا کی بے توقیری کا نوحہ کئی بار پڑھ چکے ہیں ۔ سینیٹر کتنی مراعات لیتا ہے اور سینیٹ کے اراکین پر کتنے کھرب روپے خرچ ہوتے ہیں اس سے بھی کوئی بے خبر نہیں ہے لیکن اس سے بھی کوئی واقف نہیں ہے کہ اس ایوان بالا سے عام عوام کوکیا فوائد مل رہے ہیں۔ کیا پارلیمانی نظام میں ایک ایوانی مقننہ کافی نہیں ہے ۔ واضح رہے کہ پارلیمانی نظام کے تحت تقریباََ40ممالک میں یک ایوانی پارلیمنٹ ،32ممالک میں دو ایوانی پارلیمنٹ جبکہ تقریباََ37ممالک میں صدارتی نظام قائم ہے ۔ دورویہ قانون ساز اداروں میں ایک ایسا ایوان جو عوام کے ووٹوں کے بغیر منتخب ہوتے ہیں ۔ جہاں کھربوں روپے کی ہارس ٹریڈنگ کی جاتی ہے، کیا ا س سے معاشی طور پر کمزور مملکت اور غربت کی نچلی سطح سے بھی گرے ہوئے عوام متحمل ہوسکتے ہیں؟۔ کیا حکومتی معاملات چلانے کیلئے سینکڑوں صوبائی اسمبلیوں کے اراکین ، قومی اسمبلیوں کے اراکین ناکافی ہیں۔ یہ خصوصی نشستوں پر من پسند افراد کو نوازنے کا قانون کیا واقعی جمہوری روایات کی پاس داری کرتا ہے۔
طاقت کا سر چشمہ عوام کو قرار دیئے جانے والے اس نظام میں عوام کو یہ حق کیوں نہیں حاصل کہ وہ ایوان بالا اور خصوصی نشستوں کیلئے بھی اپنے ووٹ کا حق استعمال کریں۔ ہمیں پارلیمانی نظام میں نوکر شاہی اور منتخب اراکین کے کھربوں روپوں خرچ کرنے والوں کے بارے میں سوچنا ہوگا کہ کھربوں روپے لینے والے اس مراعات یافتہ طبقے سے غریب عوام کو کیا فوائد ملتے ہیں۔ سینکڑوں اراکین اسمبلی نے مملکت کو ترقی یافتہ بنانے ، سستے فوری و شفاف انصاف کی فراہمی اور امن و امان کے علاوہ وطن ِ عزیز کو فلاحی ریاست بنانے کیلئے کیا کارہائے کارنامے سر انجام دیئے ہیں۔ کیا قانون ساز اسمبلی کے لئے ہم ٹھیکداروں کو منتخب کرتے ہیں یا پھر عوام اپنے نمائندوں سے فلاحی ریاست کی تکمیل آرزوہے۔ قیام ِپاکستان کے مقاصد پرمبنی ایک فلاحی مملکت ہمارا خواب تھا جس کی تعبیر ابھی تک نہیں مل سکی یا پھر غلامی کی جدید قسموں میں جکڑے رہنا پاکستانی عوام کی تقدیر ہے ۔ عنانِ حکومت توفرد واحد بھی بخوبی چلاسکتا ہے۔ یہ سینیٹ ، قومی ، صوبائی ، مشیروں کی فوج ظفر اشرافیہ کے نمائندہ ہیں یا پھر غریب و پسے ہوئے طبقوں کی ۔ ہم نے یہ فیصلہ کبھی تو کرنا ہوگا کہ ہارس ٹریڈنگ جیسی روایت کب تک غریب عوام پر مسلط رہے گی۔