یہی شعبہ وکالت ہے۔ جو اِنسان کو انسانیت کا درس دینے اور ہر زمانوں کی تہذیبوں اور معاشروں میں بسنے والے جرائم پیشہ افراد کو قانون سے سخت سزائیں دلوا کر معاشروں میں امن و آشتی کا سب سے بڑا علمبردار بنا پھرتا ہے۔
مگر نہیں، بڑے افسوس کے ساتھ یہ کہنا پڑرہاہے کہ آج ہمارے یہاں پی آئی سی سی پر وکلاءکے المناک حملے کے بعد یہ شعبہ دہشت گردی کی جیتی جاگتی علامت بن گیاہے۔سانحہ پی آئی سی سی کے بعد سے عوام الناس کو ہر وکیل اور اِس شعبہ سے وابستہ افراد سے خوف آنے لگا ہے۔ غرض یہ کہ ہر عمر کے افراد میں کالے کوٹ کالی پینٹ اور سفید شرٹ والوں سے انجانی سی نفرت ہونے لگی ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ غلطی ڈاکٹرز کی بھی ہوگی۔ مگر اسپتال پر ٹڈی دل کے مانند حملہ تو وکلاءنے کیا ہے۔ ناں ! اِس لئے سارے معاملے کے قصوروار وکلاءہیں۔اگرچہ حکومت نے سانحہ پی آئی سی سی پر انکوائری کمیٹی تشکیل تو دے دی ہے۔سانحہ پی آئی سی سی میں مرنے والا تو مر گیااور زخمی ہونے والا زخمی ہوگیا ۔مگر ہمیشہ کی طرح تحقیقات بے نتیجہ ثابت ہوکر منوں مٹی تلے دبا دی جائے گی۔ پھر ساری قوم کسی نئے حادثے کی طرف دیکھ رہی ہوگی ۔
پچھلے دِنوں لاہور کے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیا لوجی (پی آئی سی سی) امراض قلب کے اسپتال میں سینکڑوں کالے کوٹ کالی پینٹ اور سفید شرٹ میں ملبوس قانون کے چاک وچوبند اور موٹے تازے جیالے رکھوالوں کی شکل میں غنڈہ عناصر کی ہونے والی دہشت گردی سے اِنسانیت کا سرشرم سے جھک گیاہے۔اگرآپ چاہیں تو اسپتال پر حملہ آوروں سے اپنے غصے کے اظہار کے لئے، شرم و حیاءاور غیرت دلانے والے الفاظ سے پہلے ”بے “ کا اضافہ لگا کرلکھیں ، پڑھیں اور پکارئیں ۔ جیسے غیرت سے پہلے ”بے غیرت“ حیاءسے پہلے ” بے حیائ“شرم سے پہلے ” بے شرم“ وغیرہ وغیرہ ۔
خیرآگے بڑھتے ہیں ،دیکھنے والوں نے دیکھ کر ضروریہ کہاہوگاکہ اسپتال پر وکلا ءکا حملے کا منظر اتنا درناک اور المنا ک تھا کہ حملہ آور وکلا ءکی کاروائیوں سے آسمان بھی روپڑاہوگا ۔اور زمین بھی تھراگئی ہوگئی. مگر کسی کے اشارے پر اسپتال پرحملہ کرنے کے لئے آنے والوں کے سینوں میں دل کے بجائے پتھر تھا ۔جنہوں نے قانون کی دھجیاں سوکھے ہوئے پھولوں کی پنکھڑیوں اور خزاں میں درختوں اور پودوں کے سُوکھے ہوئے پتوں کی طرح بکھیرکر رکھ دیا ۔اُنہوں نے ایسا کرنااپنا فخرجانا۔ کھیت کھلیان تباہ کردینے والی ٹڈی دل کی طرح اسپتال کا ستیاناس کیااور فاتحانہ انداز سے مزے سے چلے گئے۔
جس وقت اسپتال پر سَن آف شیطانوں کا حملہ جاری تھا۔ اِن حملہ آوروں کو دیکھ کر ایسا لگتا تھا کہ جیسے آج قانون کے رکھوالے کہلانے والوں پر شیطانیت سوار ہے۔ آج یہ سَن آف شیطان کے رول میں حیوانیت والے کام کررہے ہیں۔یقینااِن کا یہ کارنامہ تاقیامت سیاہ حرف میں تحریررہے گا کہ ایک زمانے کی بات ہے کہ پاکستان کے شہر لاہور میں پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر سینکڑوں وکلاءنے حملہ کیا تھا ۔جس کی مثال دنیا کی تاریخ میں نہیں ملتی ہے۔ اور اِس دوران گرفتاریاں آٹے میں نمک سے بھی کم مقداد میں عمل میں لائی گئیں تھیں۔ یعنی کہ سینکڑوںوکلاء کے ہجوم سے صرف چند ایک ہی حملہ آوروکلا ءپکڑے گئے تھے۔ پھر حکومت اور وکلاءتنظیموں کی مداخلت کے بعد شروع ہونے والے مذاکراتی عمل میں مصالحت ہو گئی تھی۔ جو گرفتار بھی ہوئے تھے۔ وہ بھی سزاسے بچ کر باعزت بری ہوئے۔ یوں وکلاءکے پی آئی سی سی پر حملے کے دوران جنتی اموات ہوئیں۔ اُن کے لئے جنت میں درجات کی بلندی اور زخمی ہونے والوں کے لئے دونوں (وکلاءتنظیموں اور حکومت کی )جانب سے جلد صحت یابی کے دعائیں کی گئیں۔ بس پھر سارے معاملے پر مٹی ڈال کر فائل بند کردی گئی۔ایسا ہمارے یہاں ہر مرتبہ ہوتا ہے۔
اُمید ہے کہ اِس مرتبہ بھی روایات کو قائم رکھا جائے گا۔ اور حملہ آور ہمیشہ کی طرح کسی بھی کڑی سزا سے بچ جا ئیں گے ۔کیوں کہ ہمارے یہاں 72سال سے ہر ایسے ویسے گھناو ¿نے فعل کے بعد یہی تو ہوتاآیا ہے۔ پھر ایسا ہوجائے گا؛ تو کسی کا کیا بگڑے گا؟ اور کسی کو شرم اور ندامت کیوں کر ہوگی؟ اور کون سا ابھی کوئی انوکھا ہونے جارہاہے ۔!! پی آئی سی سی پر حملہ آوروں کو کون سی کوئی کڑی سزا ملے گی ؟۔بس واقعہ دوچار روز مزید ذراپرانے ہولینے دو ۔یہی قانون کے رکھوالے اور حکومت سارے سانحہ کو ایسا گھوما دے گی کہ بس سارا الزام مرنے اور زخمی ہونے والوں کے سر آجائے گا ؛اور یوں وکلاءکی شکل میں اسپتال پر حملہ آور بچ نکلیں گے۔پھر مراجائے گا بیچارہ کوئی معصوم اور بے گناہ اِنسان ۔اور بس اِنصاف کے سارے تقاضے ہوگئے۔
امراض قلب کے اسپتال میں وکلاءکا حملہ ہوتے دیکھ کر یقینی طور پر ہر ذی شعور اور اِنسانیت کا احترام اور درد رکھنے والے کی زبان پہ ایک یہی جملہ آگیا ہوگا کہ ” پیداہوا وکیل تو شیطان نے کہا لو، آج میں بھی صاحبِ والاد ہوگیا“ یقینا جب کالے کوٹ کالی پینٹ اور سفید شرٹ میں ملبوس وکلاءپی آئی سی سی پر حملہ آورتھے ۔حقیقت میں یہ سب شیطان کے ہی بیٹے لگ رہے تھے۔ اگر اِن میں ذراسی بھی انسانیت یا اپنے پیشے کے اعتبار سے قانون کی لاج ہوتی تو حملہ آوروں میں شامل کوئی خاتون یا مرد وکیل ایسی حرکت کبھی نہ کرتا ۔جیسی اِن شیطان کے بیٹے اور بیٹیوں نے پنجاب انسٹیٹیوٹ آف کارڈیالوجی پر حملہ کے اسپتال کی ایمرجنسی آئی سی یو وارڈ میں توڑ پھوڑ کی اور اِسی حملے کے دوران تین مریض جان بحق اور کئی زخمی ہوئے۔ تاہم اِس سارے معاملے میں قصور وکلاءکا ہی ہے۔ کیوں کہ اسپتال پر حملہ کرنے یہی آئے تھے۔
اسپتال کا عملہ یا اسپتال کسی پر حملہ آوار ہونے نہیں گیاتھا۔ویسے بھی لاہور کے وکلاءکی غنڈہ گردی کی داستانیں بہت مشہور ہیں۔یہ کالے کوٹ کالی پینٹ اور سفید شرٹ والے خود کو قانون کا رکھوالا سمجھنے سے کہیں زیادہ سَن آف شیطان سمجھتے اور گردانتے ہوئے فخر محسوس کرتے ہیں۔اِسی لئے یہ اکثر اپنے وکلاءاور ججز پر بھی حملہ آورہوتے ہیں۔لازمی ہے کہ نئے پاکستان اور تبدیلی کی راہ پر گامزن وزیراعظم عمران خان کی حکومت اداروں کی بہتری کی ابتداءوکلاءبرادری کی غنڈہ گردی کو لگام دینے کے لئے سب سے پہلے وکلاءتنظیموں پر فی الفور پابندی لگائے اور اِنہیں شیطان کے جادوئی اثرسے آزادی دلانے کے اقدامات کرے اور اِن میں انسانیت اور قانون کے احترام کا جذبہ بیدار کرے۔ ورنہ وکلاءکی غنڈہ گردی جاری رہے گی۔(ختم شُد)