تحریر: شہزاد حسین بھٹی الشفاء آئی ٹرسٹ ہسپتال راولپنڈی ملک کا اہم اور معتبر ہسپتال سمجھا جا تا ہے اور اسکی آنکھوں کے امراض کے حوالے سے بہت خدمات ہیں۔اس سال یہ ادارہ اپنے قیام کی سلور جوبلی منانے جا رہا ہے۔ اس ہسپتال کی تعمیر 1985ء میں شروع ہوئی جبکہ1991ء میں ہسپتال نے آنکھوںکے امراض کا علاج باقاعدگی سے شروع کر دیا ۔اس ہسپتال کے بانی لیفٹینٹ جنرل جہانداد خان ہیں جنہوں نے دکھی انسانیت کی خدمت اور ملک میں آنکھوں کی امراض کے حوالے سے کوئی مناسب ہسپتال نہ ہونے کی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے اس ہسپتال کی بنیاد رکھی اور اپنی ریٹائرمنٹ کے بعد تمام جمع پونجھی اس ہسپتال کی تعمیر کے لیے وقف کر دی یہی نہیں بلکہ ہر چھوٹے بڑے عطیئے کے لیے ملک کے دوردراز کے علاقوں کے دورئے کئے اور اہل ثروت لوگوں سے رابطے کرکے ہسپتال کی تعمیر اور مشینری کی خریداری کے لیے فنڈز کی دسیتیابی کو یقینی بنایا۔
ہر مسلمان کو چاہیے کہ وہ اپنی آخرت کو سنوارنے لے لیے اپنی زندگی میں ہی کوئی ایسے عوامی فلاحی کام کرکے ضرور جائے جس سے انسانیت مستفید ہوسکے جیسے کہ مدرسہ، سکول، کنواں ، لنگر، ہسپتال وغیرہ۔ یہ صدقہ جاریہ ہے اور اس کا اجرعظیم ہے۔ بلاشبہ الشفاء آئی ٹرسٹ ہسپتال جنرل جہانداد کی جانب سے نہ صرف اپنے علاقے بلکہ پورے ملک کے عوام کے لیے ایک نعمت سے کم نہ ہے۔ یہاں روزانہ ہزاروں کی تعداد میں مریض آنکھوں کے مختلف امراض کے حوالے سے آتے ہیں اورشفاء منجانب اللہ حاصل کرکے جاتے ہیں۔ آج اس ادارے کے کئی ذیلی ادارے بھی وجود میں آچکے ہیںجو کوہاٹ، سکھر اور مظفر آباد میں بھی قائم ہو چکے ہیں۔ دُوسری طرف ہسپتال کی بدانتظامی ، مریضوں کے ساتھ بدسلوکی، اور ایڈہاک ازم نے ہسپتال کے حسن کو گہنا کر رکھ دیا ہے۔برسوں سے تعینات نا اہل انتظامیہ اور ڈاکٹر مافیا نے جنرل جہانداد کی وفات کے بعد ہسپتال کی توقیر اور وقار میں اضافے کے بجائے اسے کرپشن اور بد انتظامی کا گڑھ بنا دیا ہے۔
Trainee doctors
ہسپتال کا انتظام ایک ایسا شخص چلا رہا ہے جسکا میڈیکل لائن سے دور دور تک کو ئی تعلق نہیں ہے جس کی وجہ سے ہسپتال کے معاملات دن بدن بگڑتے جا رہے ہیں ہسپتال میں انتظامیہ کی دن بدن بڑھتی ہوئی مداخلت سے ڈاکڑز اور پیرامیڈیکل سٹاف میں شدید بے چینی پائی جا تی ہے اور ہسپتال میں انتظا میہ کے ٹاوٹوں کا راج ہے۔نئے مالی سال کے آنے سے قبل ملازمین کو نکا لنے اور من پسند سٹاف رکھنے کے لیے من گھڑت اور بے بنیا د الزامات لگا کر پیرامیڈیکل سٹاف کو نکالنا معمول بن گیا ہے۔ معمولی باتوں پر تنخواہ کاٹنا،وارننگ اور شوکاز یہاں کا دلچسپ مشغلہ ہے۔ہسپتال میں تعینات ٹرینی ڈااکڑوں کے تجربوں کی بھینٹ چڑھنے والے اکثر مریضوں کی آنکھیں انفیکشن کا شکار ہو جاتی ہیں جن پر ہسپتال سے دی جانے والی ادویات اثر نہیں کرتیں اور ان مریضوں کو فورا ڈسچارج کر کے گھر روانہ کر دیا جا تا ہے تاکہ ہسپتال کی بدنامی نہ ہو۔ یہ بھی معلوم ہو ا ہے کہ ہسپتال میں ہر وقت انفیکٹڈز مریضوں کی تعداد 20سے 25کے درمیان رہتی ہے۔ ہسپتال کی انتظامیہ ٹرینی ڈاکڑوں کی غلطیوں کو چھپاتی ہے اور نا کردہ گناہوں کی سزا پیر امیڈیکل سٹاف کو دی جاتی ہے۔
ہسپتال میںموجود ساٹھ سال سے زائدالمعیاد سٹاف اور عملہ متحرک اور فعال انداز میں کام نہیں کر سکتا لیکن بھاری معاوضوںکی وجہ سے وہ نوکری کو کمبل کی طرح چھوڑنے سے قاصر ہے۔دلچسپ بات جو معلوم ہوئی وہ یہ ہے کہ وارڈوں میںآپریشن کے بعد ڈاکٹروں کے وزٹ کے بجائے ہسپتال انتظامیہ کے افسران روزانہ کی بنیاد پر راونڈ کرتے ہیں جو مریضوں کی بیماری اور کئیر کے حوالے سے وہ کردار ادا نہیں کر سکتے جو ڈاکٹر کر سکتے ہیں۔ اسی طرح ہسپتالوں میں وارڈوں کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ ہر وارڈ کا انچار ج کوئی ڈاکٹر ہوتا ہے جبکہ یہ واحد ہسپتا ل ہے جہاں وارڈوں کی انچار ج نرسز ہیں اور ہر خطا میمنے کی طرح نرسز کو ہی دی جاتی ہے۔مجھے یہ سن کر بھی بہت افسوس ہوا اور میں یہ لکھنے پر مجبور ہوں کہ اس ہسپتال کا انتظامی عملہ انتہائی غیر تربیت یافتہ ہے اور سرعام وارڈوں میں عملے پر برس پڑتا ہے جو کہ اس ہسپتال میں آنے والے مریضوں اور انکے لواحقین پر اچھا تاثر نہیں چھوڑتا۔اس ہسپتال میںکوئی ایس او پی نہیں کہ کس نے کیا جاب کرنی ہے اور کسے رپورٹ کرنا ہے ۔ ہسپتال میں نان کوالیفائیڈ سٹاف بھرتی کیا ہوا ہے جو بجائے ادارے کی نیک نامی میں اضافہ کرنے کے اسے بدنام کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑ رہا۔جونیئرز کو سینئرز پر ترجیع دے کر پرانے ملازمین کا استحصال معمول کی بات ہے۔
جنرل جہانداد کی گذشتہ برسی کے موقع پر جنرل جہانداد کی بیٹی کو بھی مدعو کیا گیا لیکن بطور مہمان جو سلوک ان کے ساتھ کیا گیا وہ زبان زد وعام ہے۔اگر ہم اس ملک کے ہیروز اور مسیحاوں کی اولادوں کو عزت و احترام نہیں دے سکتے تو پھر ہمیں ان کے چھوڑے ہوئے ترکے پر عیاشی بھی زیب نہیں دیتی۔ اس ہسپتال میں مریضوں کے ساتھ بدسلوکی، عملے کے ساتھ بدتمیزی اور کرپشن کی اتنی مثالیں ہیں جنہیں اس کالم میں سمیٹا نہیں جا سکتا۔صدر مملکت جو سرپرست اعلٰی ہیں اس ہسپتال کے اور ٹرسٹیوں کو چاہیے کہ وہ ہسپتال میں پائی جانے والی خرابیوں کا فوری نوٹس لیں اور ہسپتال کا انتظام کسی پروفیشنل ڈاکڑ کے سپرد کیا جائے تاکہ وہ اسے ایک ہسپتال کے انداز میں چلا سکے اور کالی بھیڑوں کو نکلا باہر کیا جائے جو آئے دن نت نئے تجربات کر کر کے اس ہسپتال کی اینٹ سے اینٹ بجا دی ہے۔