تحریر : سید توقیر زیدی وزیراعظم نواز شریف نے مْلک بھر میں 39 جدید ترین ہسپتالوں کی تعمیر کا حکم دیا ہے، اِن ہسپتالوں پر 110 ارب روپے لاگت آئے گی اور یہ مْلک کے مختلف حصوں میں تعمیر کئے جائیں گے، اسلام آباد میں چھ چھ سو بستروں کے تین ہسپتال تعمیر کئے جائیں گے، آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان میں ایک ایک سو بستروں کے چار سے پانچ اور مْلک کے باقی حصوں میں 500 بستروں کے دس اور 250 بستروں کے 20 ہسپتال تعمیر ہوں گے۔
اِس پروگرام کا مقصد ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر کو بہتر بنانا ہے۔ وزیراعظم کو آبادی، ہسپتالوں میں بستروں کی شرح اور مریضوں کے لئے سہولتوں کی دستیابی کے تناظر میں بریفنگ دی گئی۔ اجلاس کو بتایا گیا کہ2016ء میں مْلک میں ایک ہزار افراد کے لئے ہاسپٹل بیڈ کا تناسب62ء ہے، جو2015ء میں61ء ، 2005 میں 7ء ، اور 1970ء میں5ء تھا۔ وزیراعظم نے راولپنڈی کے گائنی ہسپتال کا کام دوبارہ شروع کرنے کی ہدایت دی، جس پر صوبوں کو اختیارات کی منتقلی کی بنا پر کام بند کر دیا گیا تھا، وزیراعظم نے ہدایت کی کہ وفاقی حکومت اِس ہسپتال کی عمارت کو مکمل کرے اور ہسپتال کو چلایا جائے، اس ہسپتال سمیت تمام ہسپتال اگلے18 ماہ میں مکمل کرنے کی ہدایت کی گئی ہے، اِن تمام منصوبوں کے لئے وزیراعظم آفس اور وزارتِ خزانہ مل کر فنڈز مختص کریں گے۔
یومیہ پراگریس کی مانیٹرنگ کے لئے ہیلتھ کیئر انفراسٹرکچر کمیٹی قائم کی جائے گی۔جیسا کہ اوپر دیئے گئے اعداد و شمار سے واضح ہو جاتا ہے اِس وقت ایک ہزار افراد کے لئے ایک بستر بھی نہیں ہے۔ اگرچہ گزشتہ برسوں کی نسبت بہتری تو موجود ہے تاہم صحت کی سہولتوں اور ہسپتالوں کی تعداد کے حساب سے اِس وقت حالات قطعاً تسلی بخش نہیں ہیں۔ اول تو ہسپتال بہت کم ہیں اور جو موجود ہیں وہاں سہولتوں کا فقدان ہے، چند بڑے شہروں کے تھوڑے سے ہسپتال ایسے ہیں، جنہیں معیاری قرار دیا جا سکتا ہے ورنہ اکثر و بیشتر ہسپتالوں کی بْری حالت ہے، عمارتیں پرانی اور خستہ حال ہیں، وارڈوں اور بستروں وغیرہ کی صفائی ستھرائی پر کوئی توجہ نہیں دی جاتی۔ دیہی علاقوں میں اول تو ہسپتال ہیں نہیں، جہاں موجود ہیں وہاں ڈاکٹر اور دوسرا عملہ نہیں ہے، ڈاکٹروں کا تبادلہ کیا جائے تو وہ دیہی علاقوں کا رْخ نہیں کرتے، تبادلوں کے احکامات کو ہَوا میں اْڑا دیتے ہیں۔ امراض کی تشخیص کے لئے استعمال ہونے والی ای سی جی، ایکسرے اور الٹرا ساؤنڈ مشینیں تو بڑے شہروں کے ہسپتالوں میں بھی خراب رہتی ہیں، تصور کیا جا سکتا ہے کہ دیہی ہسپتالوں کا کیا حال ہو گا۔
Hospitals Construction
گزشتہ دِنوں وزیراعلیٰ پنجاب نے کئی ہسپتالوں کا دورہ کیا تو کسی بھی ہسپتال میں اے سی نہیں چل رہے تھے جس پر وہ ناراض بھی ہوئے اور یہ ہدایت بھی کی گئی کہ اے سی فوری طور پر درست کرائے جائیں، لیکن کیا محض اظہارِ ناراضی سے ہسپتالوں کے اے سی چل پڑیں گے؟ جن ہسپتالوں کا وزیراعلیٰ نے دورہ کیا تھا وہاں کسی افسر کو خفیہ طور پر بھیج کر معلوم تو کرائیں کہ کیا ان کی ہدایت پر اے سی چل پڑے ہیں یا بدستور بند ہیں۔یہ اے سی مرمت طلب تھے، دفاتر کے اے سی ہوتے تو جلد مرمت ہو جاتی،وارڈوں کی کون پروا کرتا ہے؟اگر محض وزیراعلیٰ کی سرزنش سے کام درست ہونا ہوتے تو اب تک کم از کم پنجاب میں بہت بہتری آ چکی ہوتی، باقی مْلک کا حال تو جو ہے لاہور جیسے شہر میں کسی بھی سرکاری ہسپتال میں چلے جائیں، ایک ایک بیڈ پر دو دو مریض لیٹے ہوں گے، ان مریضوں سے پوچھ لیں کہ اْن کا علاج کیسے ہوتا ہے تو وہ شکایت کْناں نظر آئیں گے۔ لاہور میں دِل کے امراض کا ایک ہسپتال ہے جس پر پورے صوبے سے آنے والے مریضوں کا بوجھ ہے، ڈاکٹروں کے شیڈول میں کئی کئی ماہ تک مریضوں کے آپریشن کی باری نہیں آتی۔
اب اِس ہسپتال میں ایک سو بستروں کی نئی ایمرجنسی تعمیر ہوئی ہے، جس کے فنکشنل ہونے کے بعد صورتِ حال میں بہتری کی امید کی جا سکتی ہے۔ لاہور میں برکی روڈ پر گردے اور لیور ٹرانسپلانٹ کا جدید ہسپتال تیزی سے تعمیر کیا جا رہا ہے۔ اِن حالات میں یہ امر خوش آئند ہے کہ وزیراعظم نے مْلک بھر میں بیک وقت39 نئیہسپتالوں کی تعمیر کا منصوبہ شروع کرانے کا اعلان کیا ہے یہ ایک بڑا پروگرام ہے اور پاکستان کے محکمہ صحت کی تاریخ میں شاید ہسپتالوں کی تعمیر کا اتنا بڑا پروگرام پہلی بار شروع کیا جا رہا ہے۔ یہ منصوبہ اگر وقت پر مکمل ہوتا ہے تو طبی سہولتوں کی فراہمی کے ضمن میں یہ آگے کی طرف ایک بڑا جمپ ہو گا۔
Hospitals
نئے ہسپتالوں کی تعمیر کی تکمیل کے بعد یہ ضروری ہو گا کہ اِن میں جدید ترین سہولتیں فرہم کی جائیں۔ عمارتیں سنٹرلی ائرکنڈیشنڈ ہوں، کیونکہ بڑی وارڈوں کے اے سی جلد خراب ہو جاتے ہیں یا کام چھوڑ جاتے ہیں۔ڈاکٹروں کے ساتھ ساتھ تربیت یافتہ پیرا میڈیکل سٹاف تعینات کیا جائے، جو مشینیں اِن ہسپتالوں میں نصب کی جائیں اْن پر کام کرنے والے ٹیکنیشن تربیت یافتہ اور ماہر ہونے چاہئیں اِس وقت کِسی نہ کِسی ہسپتال کے متعلق یہ خبر آتی رہتی ہے کہ وہاں الٹرا ساؤنڈ مشین خراب ہے یا ایکسرے پلانٹ درست طور پر کام نہیں کر رہا یا دوسری مشینوں میں کسی نہ کسی طرح کی خرابی موجود ہے۔
یہ دیکھنے کی ضرورت ہے کہ جو مشین خراب ہوتی ہے اس کی وجوہ کیا ہیں، کیا جان بوجھ کر تو مشین خراب نہیں کر دی جاتی،کیونکہ چھوٹے شہروں کے ہسپتالوں کے باہر جن لوگوں نے ڈائیگناسٹ سنٹر بنائے ہوئے ہیں وہ چھوٹے عملے سے مل ملا کر مشینیں خراب کرا دیتے ہیں اور اِس امر کا اہتمام بھی کرتے ہیں کہ خراب مشینیں یونہی پڑی رہیں اور خرابی دور نہ ہو، کیونکہ ایسی صورت میں اْن کے کاروبار پر مثبت اثر پڑتا ہے۔ یہ رویہ اگرچہ سنگدلی پر دلالت کرتا ہے تاہم ہمارے معاشرے میں اس کا چلن موجود ہے۔