تحریر : محمد صدیق پرہار مسلم لیگ کی موجودہ حکومت کی طرف سے عوام کی خدمت کے دعوے توبڑے زوروشورسے کیے جاتے ہیں۔ ملک کی ترقی کے سلسلے میں میاں برادران اپنی تعریفیں در تعریفیں کرتے ہوئے دکھائی دیتے ہیں۔ اس میں کوئی دورائے نہیں کہ وہ ملک کو ترقی یافتہ ممالک کی صف میں شامل کرنے اور عوام کو بہتر سے بہتر سہولیات پہنچانے کے لیے دن رات ایک کیے ہوئے ہیں۔ پھر کیا وجہ ہے کہ آئے روز ایسی خبریں پڑھنے اور سننے کو ملتی ہیں کہ انسان سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ اس ملک میں حکومت بھی ہے؟ رعایا کو تعلیم، صحت، روزگار،امن، رہائش اور خوراک جیسی بنیادی سہولیات فراہم کرنا ریاست کی ذمہ داریوں میں شامل ہے۔
عائشہ غوث کا کہنا تھا کہ پرائم منسٹرنیشنل ہیلتھ پروگرام شروع کیا ہے ۔ مستحق خاندانوں کوعلاج کی بہترسہولیات میسرآئیں گی۔نیشنل ہیلتھ پروگرام سے رجسٹرڈخاندان کوہسپتال میں داخلہ کی صورت میں اڑھائی لاکھ تک کی رقم کاتحفظ فراہم کیاجائے گا۔مستحق خاندانوںکوعلاج معالجہ کی سہولیات فراہم ہونے کی حقیقت یہ ہے کہ تین بڑے ہسپتالوںمیں علاج کے لیے فٹ بال بننے والی قصورکی غریب مریضہ جناح ہسپتال کے فرش پر زندگی کی بازی ہارگئی۔تین ایمبولینسز بدلنے والی زہرہ بی بی ادویات کے لیے ادھارلائے ہوئے پیسے ایمبولینسزپرخرچ کرچکی تھی۔رات کے تین بجے ضلع قصورکی ساٹھ سالہ زہرہ بی بی کودل کی تکلیف کے باعث پنجاب انسٹی ٹیوٹ آف کارڈیالوجی ہسپتال لایاگیا۔ڈاکٹروںنے مریضہ کے گردوںکی خرابی کاکہہ کرلواحقین کوسروسزہسپتال لے جانے کی تجویزدی ۔سروسزہسپتال میںمریضہ کوایمرجنسی سے ہی جناح ہسپتال لے جانے کاکہہ دیاگیا۔جس پرمریضہ کے لواحقین اسے جناح ہسپتال لے گئے۔جہاں اسے ایمرجنسی میڈیکل ون میں داخل کیا گیا۔
ابتدائی طبی امدادکے بعدمریضہ کوداخلے کے لیے میڈیکل یونٹ ون کے وارڈ میں بھجوادیا گیا۔ جہاں بیڈدستیاب نہ ہونے کے باعث مریضہ کووارڈ کے فرش پرہی لٹادیاگیا۔ٹھنڈے فرش پرہی نرسزنے مریضہ کوڈرپ لگادی۔اسی حوالہ سے ایک قومی اخبارکی خبرمیںلکھا ہے کہ کچھ ڈرپ کااثرتھااورکچھ ٹھنڈے فرش نے کام دکھایاکہ دیکھتے ہی دیکھتے مریضہ کوشدیدبخارنے آگھیرااس پربھی وہاں موجو د ڈاکٹروں اورطبی عملے کوکچھ خیال نہ آیاتاہم انہوںنے اسی وقت پھرتی دکھائی جب زہرہ بی بی کے ساتھ آنے والے لواحقین نے دھاڑیںمارکرروناشروع کردیالیکن تب تک بہت دیرہوچکی تھی اورزہرہ بی بی ابدی نیندجاسوئی ۔مریضوں کے ساتھ یہ سلوک صرف لاہورمیں نہیںہورہادیگرشہروں میں بھی کچھ اسی طرح کی صورت حال دکھائی دیتی ہے،گردوں کے مریض ساٹھ سالہ حاجی مشتاق کوسول ہسپتال گوجرانوالہ لایاگیاتوڈاکٹرنے فوری ڈائلنسز تجویز کر دیا۔
ڈائلنسز سنٹر کے عملہ نے پہلے ایک گھنٹہ بعد آنے کاکہاپھرجگہ نہ ہونے بہانہ بناکرمزیددوگھنٹے انتظارکی سولی پرلٹکادیا۔ادھرادھرکے چکر میں مریض ایمرجنسی کے باہرہی تڑپ تڑپ کرجان کی بازی ہارگیا۔آٹھ ستمبرکے ایک قومی اخبارمیںخبرہے کہ ممتازآبادملتان کے رہائشی شبیر احمد کے ہاں پرائیویٹ کلینک میں نارمل ڈلیوری سے پیداہونے والا بچہ ایک پرائیویٹ کلینک میں چیک اپ کے لیے لایاگیاجس کوچلڈرن کمپلیکس ریفرکیاگیامگروہاں سے ڈاکٹرنے مبینہ طورپربچے کوابدالی روڈپرایک پرائیویٹ ہسپتال لے جانے کاکہااوروہاںبھاری فیس لے کرآئی سی یووارڈمیں شفٹ کرادیاجہاں بچے کی حالت سنبھلنے کی بجائے بگڑگئی تو ڈاکٹر نے مبینہ طورپراسے چلڈرن کمپلیکس میں انکوبیٹراورآکسیجن میں رکھنے کے لیے بھیج دیامگرچلڈرن کمپلیکس لے جانے پربچے کی موت واقع ہو گئی۔اس کاذمہ دارلواحقین نے ڈاکٹرکی غفلت قراردیااوراحتجاجی مظاہرہ کیا۔
اس ضمن میں راقم الحروف کاذاتی تجربہ کچھ یوں ہے کہ اب سے چند سال قبل راقم الحروف ایک تیرہ سالہ مریضہ کوچیک اپ کے لیے ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرہسپتال لیہ لے گیا توایک ڈاکٹرنے کہا کہ فلاں ڈاکٹرکوچیک کرائو بچوں کا علاج وہ ڈاکٹرکرتے ہیں۔ راقم الحروف بچوں کے ڈاکٹرکے کمرے کے پاس گیا تووہاں پرکھڑے ہوئے وارڈ بوائے نے کہا کہ یہ بچوں کے ڈاکٹر ہیں آپ مریضہ کوفلاں ڈاکٹرکے پاس لے جائیں بڑوںکاچیک اپ وہی کرتے ہیں۔راقم الحروف پھراسی ڈاکٹرکے پاس گیا تووہاں کے وارڈ بوائے نے پھر بچوں کے ڈاکٹرکے پاس بھیج دیا۔وہاں گئے توڈاکٹرکی شکل تونہ دیکھ سکے تاہم وارڈ بوائے نے ایک سادہ کاغذپردوائی لکھ دی ۔ جناح ہسپتال لاہور میں مریضہ کی ہلاکت کے حوالے سے ہسپتال کی انتظامیہ کاکہنا ہے کہ مریضہ کے لیے بیڈ کاانتظام کیاجارہا تھا کہ وہ جان کی بازی ہارگئی۔ہسپتال سے ڈیتھ سر ٹیفکیٹ ملنے کے بعدلواحقین مرحومہ کوتدفین کے لیے اپنے آبائی علاقے قصورلے گئے۔
میڈیا پر خبر نشر ہونے کے بعد وزیراعلیٰ شہباز شریف نے واقعہ کانوٹس لیتے ہوئے ذمہ داران کاتعین کرنے کی ہدایت جاری کردی ۔ اورکنگ ایڈورڈ میڈیکل یونیورسٹی کے وائس چانسلرپروفیسر فیصل مسعودکی قیادت میں تین رکنی کمیٹی قائم کردی جس میں وائس چانسلرفاطمہ جناح میڈیکل یونیورسٹی سردارفخرامام سمیت محکمہ صحت کے ایک ایڈیشنل ٹیکنیکل ڈاکٹرسلمان شاہدکوشامل کیا گیا ۔جنہیں ہدایت کی گئی کہ واقعہ کی تحقیقات کرکے رپورٹ چوبیس گھنٹوں کے اندرپیش کی جائے۔علاوہ ازیں محکمہ صحت کے ترجمان کے مطابق صوبائی وزیرصحت اسپیشلائزڈ ہیلتھ کیئراینڈ میڈیکل ایجوکیشن خواجہ سلمان رفیق نے جناح ہسپتال لاہورمیں مبینہ طورپرایک مریضہ ساٹھ سالہ زہرہ انورکووارڈ میں بسترنہ دینے اورفرشی بسترپراس کی ہلاکت کے واقعہ کی تحقیقات کے لیے ہدایت کردی ہے۔وزیرصحت افسو س ناک واقعہ کی اطلاع ملتے ہی سپیشل سیکرٹری ہیلتھ ڈاکٹرساجد چوہان کے ہمراہ جناح ہسپتال پہنچ گئے اورپرنسپل محمودشوکت اورایم ایس ڈاکٹرظفریوسف سے مریضہ کوفراہم کیے گئے علاج معالجہ بارے معلومات حاصل کیں بعدازاںمیڈیاکے نمائندوںسے گفتگوکرتے ہوئے خواجہ سلمان رفیق نے کہا کہ افسو س ناک واقعہ کے بارے میں مکمل اورغیرجانبدارانہ تحقیقات کرائی جائے گی اورکسی کی کوتاہی ثابت ہوئی تواس کے خلاف سخت ایکشن لیاجائے گا۔
Shehbaz Sharif
مانیٹرنگ سیل کے مطابق خاتون کی بیٹی دہائی دیتی رہی کہ ٹھنڈ بہت ہے کم ازکم میری ماںکوبسترتودے دیں میری ماں کوبچالو۔لیکن کسی نے توجہ نہیںدی۔بالآخرتین گھنٹے بعدٹھنڈے فرش پرہی بوتل لگادی گئی۔اس ٹھنڈے فرش پرتڑپ تڑپ کرمریضہ خودٹھنڈی ہوگئی۔ایک قومی اخبارمیں شائع ہونے والی خبرکے مطابق زہرہ بی بی گذشتہ چھ سال سے دل اورگردوں کے مرض میں مبتلا تھی جسے رات ساڑھے تین بجے جناح ہسپتال لایاگیا لیکن علاج تو درکنارمریضہ کولٹانے کے لیے بستربھی میسرنہ ہوسکا۔ہرطرف سے ناکامی کے بعدروتی بلکتی بیٹی نے ماںکوایک دیوارکے ساتھ ہی چادریں بچھاکرفرش پرلٹادیا،فرش پرہی تین گھنٹے گزارنے کے بعداگلی صبح چھ بجے دیوارکے ساتھ بوتل لٹکاکرساٹھ سالہ مریضہ کووہیں پرڈرپ لگادی گئی۔ٹھنڈ لگنے کی وجہ سے مریضہ کوشدیدبخارہوا۔اوراسی اثناء میں وہ خودٹھنڈی ہوگئی۔لیکن ہسپتال میںکسی کے کان جوں تک نہ رینگی ۔سب سے حیران کن بات یہ ہے کہ زہرہ کی موت کے دس گھنٹے بعدبھی جناح ہسپتال کے فرشوںپرمریض جوں کے توں موجود ہیں۔
کراچی سے شائع ہونے والے ایک قومی اخبارمیں شائع ہونے والی ایک رپورٹ یوں ہے کہ جناح ہسپتال میں ٹھنڈے فرش پرہلاک ہونے والی مریضہ تین نہیں پانچ ہسپتالوں کے دھکے کھاتی رہی۔چندروزپہلے گلاب دیوی ہسپتال انتظامیہ نے مریضہ کاپیشاب بندہونے پرعلاج کرنے کی بجائے گھرلے جانے کا مشورہ دیا۔اتوارکے روزڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹرہسپتال میںکوئی ڈاکٹر میسرنہ آسکا۔مرحومہ مریضہ کے بیٹے محمدعمرنے اخبارسے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جب میںنے اپنی ماںکوٹھنڈے فرش پر لٹایا تو میراکلیجہ پھٹ گیاتھالیکن غریب آدمی اس کے علاوہ اور کیا کر سکتاہے۔ ہماری حکومت سے صرف اتنی گزارش ہے کہ سرکاری ہسپتالوں میںجوسلوک ہمارے ساتھ ہواکسی اورکے ساتھ نہ ہو۔ ڈیوٹی ڈاکٹرنے فرش پرپڑی ہوئی مریضہ کوہاتھ لگانے سے انکارکردیاتھا ۔مریضہ کابیٹاجب بھی ڈاکٹرکوچیک کرنے کا کہتاتوجواب ملتاپہلے بیڈ پرلٹائو۔ گویا بسترکاانتظام کرنا ہسپتال کی نہیں مریضہ کے ورثاء کی ذمہ داری تھی۔ایمبولنس والے نے دس ہزارروپے کرایہ مانگا۔مریضہ کے بیٹے نے بتایا کہ ہمارے جاننے والے نے اسے سخت سست کہا توتین ہزارمیںمان گیا۔وہ سات ہزارروپے زیادہ لے رہا تھا۔
کیا انسانیت اسی کوکہتے ہیں کہ مجبور وبے کس کی امدادکرنے کی بجائے اسے لوٹنے کی کوشش کی جائے۔اس خبرسے یہ بات پتہ چلتی ہے کہ مذکورہ ہسپتال میں مرحومہ مریضہ کے علاوہ بھی مریضوںپرفرش پرہی لٹادیا جاتا ہے۔ایک نیوزچینل کی رپورٹ کے مطابق جناح ہسپتال بارہ سو بستروں کا ہسپتال ہے۔اس کے باوجودمریضوںکوفرش پرہی لٹادینا دوباتوںکی نشاندہی کرتا ہے ۔اول یہ کہ ہسپتال میں آنے والے مریضوںکی تعدادبہت زیادہ ہے۔اس لیے مریضوںکومجبوری سے فرش پرہی لٹاناپڑتا ہے۔یہی صورت حال ہے تو پنجاب حکومت کوہسپتال کواپ گریڈ کرکے بستروںکی تعدادمیں اتنااضافہ کرنا چاہیے کہ کسی بھی مریض کوفرش پرنہ لٹاناپڑے ۔دوسری بات یہ ہو سکتی ہے کہ مذکورہ ہسپتال میں مریضوںکی درجہ بندی ان کی مالی حالت کودیکھ کرکی جاتی ہے ۔بااثراورمالی طورپربہترحالت کاحامل مریض آجائے تواس کوبستر اوردیگرسہولیات فراہم کردی جاتی ہیں اورمالی طور پرکمزوراوربے آسراء مریض آجائے تواسے فرش پرہی لٹادیا جاتا ہے۔یہ صورت حال ہے تووزیراعلیٰ شہبازشریف کوسخت ایکشن لیناچاہیے۔اس معاملہ میںصرف ایم ایس کی معطلی ہی کافی نہیں۔وزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف کی زیرصدارت اہم اجلاس ہوا۔جس میں جناح ہسپتال میں قصورکی رہائشی مریضہ کے جاں بحق ہونے کے افسوس ناک واقعہ کی ابتدائی رپورٹ پیش کی گئی۔
مناسب علاج معالجہ نہ ملنے پرمریضہ کے جاںبحق ہونے پروزیراعلیٰ نے شدیدبرہمی کااظہارکیا۔غفلت، کوتاہی اورنااہلی کامظاہرہ کرنے پرسخت ایکشن لیااورجناح ہسپتال کے ایم ایس ظفریوسف کوفوری معطل کردیا۔واقعے کے ذمہ دار ڈاکٹروں اوردیگرعملے کے خلاف بھی سخت ترین کارروائی کی ہدایت دی۔ ان کاکہناتھا کہ ایم ایس جناح ہسپتال ،ذمہ دار ڈاکٹروں اور دیگر عملے کے خلاف محکمانہ کارروائی بھی عمل میںلائی جائے۔وزیراعلیٰ پنجاب کاکہناتھا کہ فرش پرمریضہ کولٹانابدترین نااہلی اورفرائض سے غفلت ہے۔کوئی مریض مناسب علاج نہ ملنے پردم توڑ جائے ایساقطعی برداشت نہیں کروںگا۔ ایک قومی اخبارمیںملتان سے خبرہے کہ نشترہسپتال سمیت ضلع کے تمام سرکاری ہسپتالوںمیں بستروںکی شدیدکمی ہے جس کے باعث ایک ایک بسترپردوسے تین مریض داخل رہنامعمول ہے۔بستروںکی عدم دستیابی کی وجہ سے مریضوںکوزمین پرلٹاکربھی علاج کیاجاتا ہے ۔ نشتر ہسپتال میں بستروںکی منظورشدہ تعدادسترہ سوہے مگرروزانہ ٢٢٠٠ سے ٢٣٠٠مریض داخل رہتے ہیں ۔اس طرح ایک سوپچاس بستروں پرمشتمل چلڈرن کمپلیکس میں بھی ہربسترپرعموماً چارسے پانچ بچے داخل رہتے ہیں۔کارڈیالوجی انسٹی ٹیوٹ کاایمرجنسی وارڈ٧٢ بستروںپرمشتمل ہے مگررش کی وجہ سے متعددمریضوں کوداخلہ نہیںملتا۔دل کے مریض ویل چیئراورسٹریچرپرعلاج کرواتے نظرآتے ہیں۔شہبازشریف جنرل ہسپتال ١٠٠بستروںپرمشتمل ہے مگرمکمل طورپرفعال نہ ہونے کی وجہ سے مریض مستفید نہیں ہوپا تے۔ میلسی سے ایک قومی اخبارمیںخبرہے کہ تحصیل ہیڈ کوارٹر ہسپتال میلسی میں ڈاکٹرزکی شدیدقلت ہے۔صرف دوڈاکٹرزکام کررہے ہیں جبکہ چودہ ڈاکٹرزکی اسامیاں خالی ہیں۔صرف دوڈاکٹرہونے کی وجہ سے روزانہ شہراورمضافات سے آنے والے ہزاروںمریضوںکودن بھرلائن میںلگنے کے بعددوپہرکے بعدمایوس لوٹناپڑتا ہے۔ جناح ہسپتال میںٹھنڈے فرش پرمریضہ کی ہلاکت کامعاملہ تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میں معاملہ اٹھانے کے لیے توجہ دلائونوٹس جمع کرادیا۔ تحریک انصاف نے پنجاب اسمبلی میںجناح ہسپتال لاہو ر میں مریضہ کی ہلاکت کامعاملہ اٹھانے کے لیے توجہ دلائونوٹس جمع کرادیا۔یہ نوٹس شعیب صدیقی نے جمع کرایاجس میںمریضہ کوبیڈ اورعلاج فراہم کرنے کی بجائے ٹھنڈے فرش پرلٹانے پرتشویش کااظہارکیاگیاہے۔میڈیارپورٹ کے مطابق وزیراعلیٰ پنجاب کے حکم پرلاہورکے جناح ہسپتال میں علاج نہ ہونے کے باعث ہلاک ہونے والی مریضہ زہرہ بی بی کی ہلاکت کی تحقیقات شروع کرد ی گئی ہیں۔ ا س سلسلہ میںتین رکنی تحقیقاتی کمیٹی ہسپتال پہنچی ۔ہسپتال کے ایم ایس پانچ ڈاکٹروں سمیت چارنرسوںسے پوچھ گچھ کی ہے۔تحقیقاتی ٹیم کاکہنا ہے کہ ذمہ داروں کے خلاف سختی سے نمٹاجائے گا۔اورواقعہ کی تفصیلی تحقیقاتی رپورٹ وزیراعلیٰ کوپیش کی جائے گی۔
جماعت اہلسنت پاکستان ملتان کے آرگنائزرعلامہ سیّدمحمدرمضان شاہ فیضی نے کہا ہے کہ جناح ہسپتال لاہورکے ٹھنڈے فرش پرخاتون مریضہ کی ہلاکت حکمرانوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے۔سرکاری ہسپتالوںمیں علاج کے لیے آنے والے غریب مریض علاج نہ ہونے کے باعث ایڑیاں رگڑرگڑکرمررہے ہیں لیکن وزیراعلیٰ شہبازشریف کواس کاکوئی احساس نہیں۔ سیاسی وسماجی خواتین نے کہا ہے کہ جناح ہسپتال میں مریضوںکی ہلاکت المیہ ہے۔ مہذب معاشرے کے منہ پرطمانچہ ہے۔نظام کی اصلاح کی جائے۔ذمہ داروںکامحاسبہ کیاجائے۔زندگی اورموت اللہ تعالیٰ کے ہاتھ میں ہے۔ہرایک کااس دنیاسے جانے کاوقت بھی مقررہے۔اس کے باوجودانسانی جان کی حرمت بھی اسلام میںبتائی گئی ہے۔کسی کوجان سے ماردیناقتل کرناکہلاتا ہے۔
ایک میگزین میں شائع ہونے والے حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ پر ایک مضمون میں لکھاتھا کہ حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ کے دورخلافت میں ایک راہگیرنے پانی مانگااسے پانی دیاگیاتووہ پیاس کی شدت کی وجہ سے انتقال کرگیا ۔حضرت عمرفاروق رضی اللہ عنہ نے ان لوگوں سے خون بہاوصول کرلیا جن لوگوں سے اس راہگیرنے پانی مانگا تھا۔یہاں توایک مریضہ علاج کے لیے آئی۔اس کاعلاج کرنے کی بجائے اس کے ساتھ یہ سلوک ہوا۔اس مریضہ کی ہلاکت کے تمام ذمہ داروں سے بھی خون بہالے کراس کے ورثاء کودے دیناچاہیے۔سچی بات تویہ ہے کہ اس مریضہ کی ہلاکت کے ذمہ دارخودوزیراعلیٰ پنجاب شہبازشریف بھی ہیں ۔اخبارات میں شائع ہونے والے ہسپتالوں کے مسائل سے تویہ بات سامنے آتی ہے کہ ہسپتالوں کے مسائل کی طرف وزیراعلیٰ کی توجہ نہ ہونے کے برابرہے۔انہوںنے اپنے جومعاونین متعین کررکھے ہیں وہ بھی اس میں دلچسپی نہیں رکھتے۔جناح ہسپتال لاہور میں مریضہ کی ٹھنڈے فرش پرہلاکت شہبازشریف کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔اب وزیراعلیٰ شہبازشریف پنجاب کے تمام ہسپتالوں کی کاکردگی رپورٹ منگوائیں اورمسائل کاجائزہ لے کر انہیں ترجیحی بنیادوں پرحل کرائیں تاکہ آئندہ ایسی صورت حال کاسامنانہ کرنا پڑے۔