اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو لاتعداد نعمتیں عطا کی ہیں۔ اللہ چاہتا ہے کہ لوگ ان نعمتوں سے فائدہ اٹھائیں اور سجدہِ شکر بجا لائیں۔ نعمت کا اسلامی تصور یہ ہے کہ اس کی جتنی قدر کی جائے اللہ اس میں اتنی ہی برکت کرتا اور اضافہ فرماتا ہے۔ پاکستان بھی عظیم نعمت اور عطیہ الہٰی ہے لہذا ضروری ہے کہ اس کی دل وجان سے قدر کی جائے۔ سچی بات یہ ہے کہ ہم پاکستان کی جتنی قدرو عزت کریں گے اسے اسلامی ملک بنائیںگے یہ اتنا ہی مضبوط ومستحکم اورخوشحال ہو گا۔ اللہ ہمارے لئے آسانیوں، کامیابیوں اور فتوحات کے دروازے کھولے گا۔ ہمارے مسائل حل اور دشمن ناکام ونامراد ہوں گے۔ ہمارے وہ بزرگ جنہوں نے ہندوئوں کی تنگ نظری، تعصب اور انگریز دشمنی کا دور اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے وہ جانتے ہیں کہ پاکستان اللہ کی کتنی بڑی نعمت ہے۔ آزاد اسلامی خطہ……اور آزاد اسلامی وطن…… کا تصور ہی بہت ایمان افروز ہے۔
آزادی کی قدروقیمت …… بلکتے، سسکتے، تڑپتے اور خاک وخون میں نہائے فلسطینی مسلمانوں سے پوچھی جا سکتی ہے کہ جن پرآتش وآہن کی بارش برس رہی، پائوں کے نیچے سے زمین کھینچی جا رہی اور ان سے زندہ رہنے کا حق چھینا جا رہا ہے۔ آزادی کی قدروقیمت ان پاکستانیوں سے بھی پوچھی جا سکتی ہے جن کو چند سال بھارتی زندانوں میں گزارنے پڑتے ہیں۔ جب یہ لوگ بھارتی جیلوں سے رہا ہو کر پاکستان پہنچتے ہیں تو بے ساختہ سجدوں میں گر جاتے، پاکستان جیسی نعمت پر اللہ کا شکر بجا لاتے اور پوری قوم کو بھی پاکستان کی قدر کرنے کی نصیحت کرتے ہیں۔ 14اگست 1947ء کو جب پاکستان قائم ہوا تو اس وقت بھی لاکھوں لٹے پٹے لوگ تار تار جسموںکے ساتھ پاکستان پہنچے تھے۔ جیسے ہی یہ لوگ پاک سرزمین پر قدم رکھتے سجدوں میں گر جاتے اور آنکھیں تشکر کے آنسوئوں سے لبریز ہو جاتی تھیں۔ یہ لوگ انگریز کی غلامی اور ہندوئوں سکھوں کے مظالم سہہ کر آئے تھے اس لئے ان کے نزدیک پاکستان اللہ کا بہت بڑا انعام تھا۔
کہنے کی حد تک قیام پاکستان کے وقت کا برصغیر ایک وسیع وعریض خطہ تھا لیکن یہ وسیع وعریض خطہ اپنی تمام تر وسعت وکشادگی کے باوجود مسلمانوں کیلئے عملاً تنگ ہوتا جا رہا تھا۔ یہاں تک کہ مسلمانوں کے لئے اپنی عزت وآبرو، ایمان بچانا، اور دین پر عمل کرنا مشکل ہو گیاتھا۔ انگریزوں کی مسلمانوں کے ساتھ ناانصافی اور دشمنی اتفاقی یا حادثاتی نہ تھی بلکہ اس کا طویل پس منظر ہے جو کئی صدیوں پر محیط ہے …… اس دشمنی کا ایک پڑائو برصغیر تھا ا س کے بعد بھی دشمنی و عداوت کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔
تاریخ کا ایک بڑا ابہام برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے بارے میں پایا جاتا ہے۔ عام طور پر سمجھا جاتا ہے کہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی بغرض تجارت ہندوستان وارد ہوئی تھی پھر یہ کہ اس نے دھوکے سے مسلمانوں سے اقتدار چھین کر انہیں غلام بنا لیا۔
لیکن مورخین نے اس پہلو پر بہت کم قلم آزمائی کی ہے کہ برٹش ایسٹ انڈیا کمپنی کے کارپرداز وذمہ داران صرف تاجر ہی نہیں بلکہ عیسائیت کے کٹر مبلغ اور اسلام کے بدترین دشمن بھی تھے۔ 1751ء کی جنگ پلاسی سے 1857ء کی جنگ آزادی کا کمپنی کا ایک سوسالہ دور عیسائیت کے بالجبر پھیلائو، مسلمانوں کو مرتد بنانے اور مذہبی بنیادوں پر اسلام دشمنی کی مثالوں سے بھرا پڑا ہے۔ 1857ء کے بعد جب ہندوستان کمپنی کی بجائے براہ راست تاج برطانیہ کے زیرنگیں آ گیا تب بھی برطانوی حکومت کی مسلمانوں کو مرتد بنانے اور اسلام کو مٹانے کی کوششیں اسی طرح جاری رہیں۔
ان حقائق سے واضح ہوتا ہے کہ انگریز صرف تاجر بن کر ہی نہیں بلکہ اسلام دشمنی اور عیسائیت کی بالادستی کے جذبات لے کر برصغیر میں وارد ہوئے تھے۔ ان جذبات کی ایک بدترین جھلک 1947ء کے موقع پر مسلمانوں کے ساتھ کی جانے والی ناانصافیوں کی صورت میں سامنے آئی جب 15 سے 20 لاکھ مسلمان تہہ تیغ کر دیے گئے، 60ہزار سے زائد مسلمان خواتین اغوا کر لی گئیں اور تقریباً 80لاکھ مسلمانوں کو اپنے گھر بار سے محروم ہونا پڑا۔
جہاں تک ہندوئوں کا تعلق ہے ان کا طریقہ واردات ہمیشہ دوسری قوموں سے مختلف رہا ہے یعنی جب مدمقابل طاقت ور ہو تو یہ بھیڑ بن جاتے اور جب مدمقابل کمزور ہو تو یہ بھیڑیئے بن جاتے ہیں۔ مغل بادشاہ جلال الدین اکبر نے اپنے دور میں ہندوئوں کی خوشنودی کی خاطر ذبیحہ پر پابندی عائد کی اور خلاف ورزی کرنیوالوں کیلئے سزائے موت مقرر کر ڈالی تھی ۔ داڑھی رکھنا جرم قرار دیا، ہندو عورتوں کو مہارانیاں بنایا اور ہندوئوں کو فوج میں اعلیٰ عہدوں سے نوازا۔ جب تک اکبر اعظم زندہ رہا ہندو اس کے سامنے بھیڑ بنے رہے اور قصیدے پڑھتے رہے لیکن جب وہ فوت ہو گیا اور مغل حکمران کمزور پڑ گئے تو 1700ء میں ہندوئوں نے اپنے اس محسن کی قبر کو کھودااور بچی کھچی ہڈیوں کو جلا ڈالا۔
اکبر جیسے محسن کی ہڈیوں کو بھی برداشت نہ کر سکنے والے ہندو بھلا سرزمین ہند پر زندہ مسلمانوں کا وجود کیونکر برداشت کر سکتے اور ان کو خوشحال و نہال ہوتا کیسے دیکھ سکتے تھے؟ چنانچہ جیسے ہی برصغیر سے مسلمانوں کا اقتدار ختم ہوا اورانگریز یہاں کے خودساختہ حاکم ومالک بن بیٹھے تو ہندو انگریزوں کے سامنے بھیڑ اور مسلمانوں کیلئے بھیڑئیے بن گئے۔
ہندوئوں نے انگریزوں کی آشیرباد سے سنگھٹن (ہندوئوں کا منظم اتحاد) اور شدھی (مسلمانوں کو تبدیلی مذہب سے ہندو بنانے) جیسی مسلم دشمن تحریکیں شروع کر دیں۔ انہی ایام میں ہندوئوں کے ایک رہنما رام دیو نے کہا ”ہندوستان کی ہر مسجد پر ویدک دھرم یا آریہ سماج کا جھنڈا بلند کیا جائے گا۔” لالہ ہردیال جو سنگھٹن اور شدھی جیسی تحریکوں کا پرجوش رہنما تھا…… نے کہا ”ہندوستان کے سیاسی مسئلہ کا صرف ایک ہی حل ہے کہ مسلمانوں کو شدھی کر کے ہندو دھرم میں شامل کر لیا جائے۔ ہندوستان میں مسلمان صرف 20فیصد ہیں۔ 20فیصد کے اسلامی روڑے کو ہم ہضم نہیں کر سکتے ورنہ ہمارے پیٹ میں ہمیشہ درد رہے گا۔ ہمیں اس روڑے کو یا تو اگلنا ہو گا (دھرتی کو پوتر بنانے کیلئے یہاں سے باہر نکال پھینکنا ہو گا) یا پھر شدھی کر کے اپنے اندر ضم کرنا ہو گا۔ہمیںجیسے ہی حکومت ملے، حکومت اور ریاست کی مدد سے شدھی کی تحریکوں کو ترقی دینا ہو گی تاکہ مسلمانوں کا منظم طریقے سے کریا کرم کیا جا سکے۔”
Allama Mohammad Iqbal
علامہ محمد اقبال بہت پہلے انگریزوں اور ہندوئوں کے اسلام اور مسلم دشمن عزائم کو بھانپ چکے تھے لہذا انہوں نے 29, 30دسمبر 1930ء کو آل انڈیا مسلم لیگ کے اکیسویں سالانہ اجلاس منعقدہ الہ آباد میں ہندوستانی مسلمانوں کے مستقبل کا نقشہ ان الفاظ میں کھینچ دیا تھا ”میں نے اپنی زندگی کا بیشتر حصہ اسلام، اسلامی فقہ، تہذیب و تمدن اور ادبیات کے مطالعے میں صرف کیا ہے۔ میں اس امر سے مایوس نہیں کہ اسلام ایک زندہ قوت ہے۔ میری خواہش ہے کہ پنجاب، سندھ، سرحد اور بلوچستان کو ایک ریاست میں ملا دیا جائے۔ اسلامی ریاست کے قیام سے ہندوستان کے اندر توازنِ قوت کی بدولت امن وامان قائم ہو جائے گا۔ ہندوستان دنیا میں سب سے بڑا اسلامی ملک ہے اگر ہم چاہتے ہیں کہ اس ملک میں اسلام بحثیت تمدنی قوت کے زندہ رہے تو اس کیلئے ضروری ہے کہ وہ ایک مخصوص علاقے میں اپنی مرکزیت قائم کرے۔ ” علامہ محمد اقبال کے خطبہ الہ آباد کے 10 سال بعد 23 مارچ 1940ء کو لاہور میں آل انڈیا مسلم لیگ کا ستائیسواں تین روزہ سالانہ اجلاس منعقد ہوا۔
یہ ہندوستان کے مسلمانوں کا نمائندہ اور تاریخ ساز اجلاس تھا جس میںریاست جموں کشمیر سمیت برصغیر کے تمام خطوں سے مسلمانوں نے شرکت کی۔ اس اجلاس میں قرارداد لاہور پیش کی گئی جو بعد ازاں پاکستان کے قیام کا پیش خیمہ بنی۔ ہندو پریس اور کانگریس کے رہنمائوں نے اس پر ”قرارداد پاکستان ” کی پھبتی کسی اوراس کا تمسخرو مذاق اڑایا۔ اس کے خلاف پروپیگنڈے کی توپوں کے دہانے کھول دیے۔اسے ناقابل عمل اور دھرتی ماتا کے ساتھ دشمنی و غداری قرار دیا۔ ہندو نہیں جانتے تھے کہ جس قرارداد کو وہ مذاق و تمسخر کا نشانہ بنا رہے اور ناقابل عمل قرار دے رہے ہیں…… وہ صرف سات سال بعد حقیقت بننے والی ہے۔
قرار داد پاکستان اور قیام پاکستان کے خلاف ہندو پریس اور کانگریس کے رہنمائوں کے بیانات کو اگر یکجا کیا جائے تو ایک ضخیم کتاب تیار ہو سکتی ہے۔ مختصراً یہ کہ گاندھی جیسے رہنما بھی چپ نہ رہ سکے ۔ انہوںنے اپنے خبث باطن کا اظہار ان الفاظ میں کیا۔ ”اگر ساراہندوستان جل کر راکھ ہو جائے تو ہم پھر بھی مطالبہ پاکستان منظور نہیں کریں گے خواہ مسلمان اسے بزور شمشیر ہی کیوں نہ طلب کریں ” ۔ بہر کیف انگریز اور ہندو کی تمام تر مخالفت و عداوت اور ہٹ دھرمی وتعصب کے باوجود پاکستان بن کر رہا۔ تحریک پاکستان کے یوں تو تمام پہلو ہی قابل ذکر اور تاریخی اہمیت کے حامل ہیں تاہم ایک پہلو ایسا ہے کہ جس پر آج بھی مورخین، جغرافیہ دان اور ماہر عمرانیات حیران وششدر ہیں وہ یہ کہ 1930ء کے علامہ اقبال کے خطبہ الہ آباد اور 1940ء کے اجلاس لاہور کے درمیان صرف 10سال کا وقفہ ہے۔ اگر اس میں 1947ء تک کا دورانیہ بھی شامل کر لیا جائے تو یہ کل مدت صرف 17سال ہے۔
مورخین و جغرافیہ دان خود کو یہ سوال پوچھنے پر مجبور پاتے ہیں کہ 17سال کے مختصر عرصہ میں اپنے وقت کا سب سے بڑی اسلامی ملک پاکستان کیسے قائم ہو گیا…؟ انگریز اور ہندو بے پناہ وسائل اور لامحدود قوت وطاقت رکھنے کے باوجود مسلمانوں کے مقابلے میں کیوں ناکام رہے……؟ بلاشبہ پاکستان کا قیام انگریزوں اور ہندوئوں کی ذلت آمیز ناکامی …… انسانی تاریخ کا محیرالعقول واقعہ وکارنامہ ہے۔ اس محیرالعقول کارنامہ کے وقوع پذیر ہونے کا سبب علامہ محمد اقبال کے خطبہ الہ آبادکے اس ایک فقرے میں مضمر ہے کہ ”اسلام ایک زندہ قوت ہے۔” بات یہ ہے کہ اسلام اور غلامی اسلام اور بزدلی دو مختلف چیزیں ہیں۔ دونوں میں بعدالمشرقین ہے۔ جہاں اسلام ہے وہاں بزدلی و غلامی کا کوئی گزر ومقام نہیں۔ جیسے تاریکی کا کوئی مثبت وجود نہیں یہ صرف روشنی کی عدم موجودگی سے فائدہ اٹھاتی ہے۔ جب روشنی آجائے تو تاریکی خودبخود کافور ہو جاتی ہے۔ اسی طرح جب مسلمان حقیقی معنوں میں مسلمان بن جائیں تو ان کے لئے منزل مقصود پر پہنچنا آسان، بزدلی مفقود اور غلامی کی زنجیریں ٹوٹ گرتی ہیں۔
تحریک آزادی کا یہ پہلو بھی قابل ذکر ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں نے جس ملک کا خواب دیکھا اور جس راستے کا انتخاب کیا اس کی منزل…… صرف اور صر ف اسلام تھی۔ یہ اسلام کی ابدی صداقت و حقانیت ہی تھی کہ جس نے برصغیر کے طول وعرض میں بکھرے مسلمانوں کو سیسہ پلائی دیوار بنا دیا، متحد ومتفق کر دیا اور ان کو ایک ایسی زندہ قوت بنا دیا کہ جس سے ٹکرانا اور جھٹلانا انگریز اور ہندو کے بس میں نہ رہا۔اسلام نے مسلمانوں کو کچھ اس طرح سے ایک لڑی میں پرویا کہ ہندوستان کے وہ علاقے جن کا پاکستان میں شامل ہونے کا تصور بھی نہ کیا جا سکتا تھا مثلاً بہار، یوپی، پٹنہ، آگرہ، لکھنو، کانپور، فرخ آباد، قنوج، سہارنپور اور ڈیرہ دون وغیرہ کے مسلمانوں نے بھی پاکستان کے قیام کیلئے جانیں ہتھیلی پر رکھ لیں اور سردھڑ کی بازی لگا دی۔ حالانکہ ان خطوں کے مسلمان اچھی طرح جانتے اور سمجھتے تھے کہ جغرافیائی طور پروہ پاکستان کا حصہ نہیں بن پائیں گے۔ انہیں اس بات کا بھی احتمال تھا کہ وہ شائد بحفاظت پاکستان پہنچ بھی نہ پائیں۔ اس کے باوجود ایک ہزار کی ہندو آبادی میں رہنے والے ایک مسلمان کیلئے بھی یہ نعرے بہت پرکشش تھے
”پاکستان کا مطلب کیا …… لا الہ الا اللہ” ”جیسے لیا تھا ہندوستان……ویسے ہی لیں گے پاکستان”۔ ”بولو بھیا ایک زبان…… بن کے رہے گا پاکستان”
مسلمانوں کے اس عزم و استقلال اور ایمانی جذبہ وولولہ کی وجہ و بنیاد یہ تھی کہ وہ کلمہ طیبہ …… اور پاکستان کو ہم معنی سمجھتے تھے ۔ علی گڑھ کے رہنے والے ایک باہمت مسلم نوجوان سے مشرقی پنجاب کے مسلمانوں نے جب یہی سوال پوچھا تو اس نوجوان نے جواب میں کہا تھا ”یہ درست ہے کہ ہمارا خطہ پاکستان میں شامل نہیں ہو گا، جغرافیائی اعتبار سے ہم پاکستان کا حصہ نہیں بن پائیں گے لیکن ہمیں یقین ہے کہ پاکستان ہمارے لئے اسلام کا قلعہ ، حفاظتی حصار، روشنی کا مینار اور امیدوں کا چراغ ثابت ہو گا۔
پاکستان کے مسلمان ہمیں یکہ وتنہا نہیں چھوڑیں گے، وہ ہمارے لئے مضطرب و بے قرار اور مدد کیلئے ہمہ وقت بے تاب رہیںگے،پاکستان سے پھر کوئی محمد بن قاسم اٹھے گا جو ہندوستان میں رہ جانے والی ہماری مائوں بہنوں کو رہا کروائے گا، ان کی عزت وعصمت کی حفاظت کرے گا، پھر کوئی محمود غزنوی جنم لے گا جو بتکدہ ہند کو توحید کے زمزموں سے آباد کرے گا، کوئی قطب الدین ایبک ، شہاب الدین غوری اور اورنگ زیب عالمگیر آئے گا جو ظالموں کی سرکوبی مظلوموں کی دستگیری کرے گا، مسجدوں کو پھر سے آباد کرے گا اور سرزمین ہند کو عدل وانصاف سے بھر دے گا۔”
پاکستان کیلئے قربانیاں دینے والوں نے اپنا فرض پورا کر دیا، ان کی قربانیوں اور جدوجہد کے نتیجہ میں یہ ملک قائم ہوا، یہ ملک ہمارے لئے اللہ کا انعام، ابربہار، شجر سایہ دار اور نعمت پروردگار ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ ہم مملکت خداداد کی قدر کریں۔ موجودہ حالات میں ہمیں مایوس و ناامید اور پریشان ہونے کی ضرورت نہیں اس لئے کہ …… شکار صرف شاہین اور شہباز کا کیا جاتا ہے ۔ پاکستان بھی اسلامی دنیا کا شاہین اور شہباز ہے عالم اسلام کا بازوئے شمشیر زن ہے جو اسلام کے نام پر قائم ہوا اس لئے یہ غیرمسلموں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا ہے۔ کیا ہوا اگر دشمن زیادہ ہیں…… طاقت ور ہیں…… ہمارے بارے میں ناپاک عزائم وارادے رکھتے ہیں…… دشمن تو 1947ء میں بھی تھے اور چاہتے تھے کہ پاکستان قائم ہی نہ ہو۔ ان کے نہ چاہنے کے باوجود یہ ملک قائم ہوا اور اس نے تاقیامت سلامت رہنا ہے۔ ان شاء اللہ بات یہ ہے۔
دشمنوں کا کام ہی دشمنی کرنا ہے۔ سودشمنوں سے دشمنی کا کیاشکوہ ……! دیکھنا یہ ہے کہ اس وقت ہم خود اپنے ملک کیلئے کیا کر رہے ہیں۔ضرورت اس امر کی ہے کہ ہم سب سے پہلے اللہ کے ساتھ مخلص ہو جائیں،بزدلی کو چھوڑیں، جہاد کو زندہ کریں، اسلام پر عمل کریں، اپنے اختلافات کو بالائے طاق رکھ دیں، سیاسی، سماجی اور مذہبی سطح پر ایک دوسرے کا احترام کریں۔ ہمارے رہنمائوںاور حکمرانوں پر فرض عائد ہوتا ہے کہ وہ رنجشوں، کدورتوں، تنازعات اور اختلافات کو ہوا دینے کی بجائے افہام وتفہیم اور اتحاد واتفاق کی فضا پیدا کریں۔
صرف پاکستان ہی نہیں عالم اسلام کے بارے میں بھی سوچیں۔اس وقت پورا عالم اسلام مصائب کا شکار ہے۔ غزہ لہو لہو ہے۔ افغانستان، عراق، بھارت اور مقبوضہ جموں کشمیر کے مسلمان بھی ابتری کا شکار ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا تھا کہ مسلمان جسد واحد کی طرح ہیں۔ اس فرمان کی روشنی میں ہمارا مستقبل عالم اسلام کے ساتھ اور عالم اسلام کا مستقبل ہمارے ساتھ وابستہ ہے۔ مظلوم خطوں کے مسلمان پاکستان کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھ رہے ہیں۔ لہذا ضروری ہے کہ ہم پاکستان کو اپنا گھر سمجھتے ہوئے اس کی نظریاتی و جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت کریں اور اسے مضبوط و مستحکم کریں۔