تحریر: روہیل اکبر ہم نے سیاست کو تجارت کا درجہ دیکر اپنا اپنا کاروبار چمکانا شروع کر رکھا ہے یہی وجہ ہے ہمارے آج تک کے تمام حکمرانوں نے ملک کا ایسا خانہ خراب کیا ہے کہ اب ہمیں سنبھلتے سنبھلتے بھی قیامت کا عرصہ درکار ہوگا ایک طر ف ملک پر قابض طبقہ اپنا سر درد کا علاج کروانے بھی ملک سے باہر چلا جاتا ہے تو دوسری طرف ہمارے سرکاری ہسپتال اس قابل نہیں ہوسکے کہ وہاں پر ایک عام انسان شفا پاسکے اچھا بھلا انسان ہسپتال جاتا ہے ایمبولینس میں اسے واپس گھر لایا جاتا ہے ان ہسپتالوں سے بہتر تو وہ عطائی ہیں جو 10 یا 20 روپے میں بیمار کو صحت مند کردیتے ہیں ابھی چند دن قبل لیہ میں زہریلی مٹھائی کھانے سے ایک ہی باپ کے 8 بیٹوں سمیت 27 افراد موت کے منہ میں چلے گئے اور جو ہسپتال میں موجود ہیں وہ ڈاکٹروں کی بے حسی کا شکار ہورہے ہیں ہمارے پاس اتنے قابل ڈاکٹر اور وسائل نہیں تھے کہ ان افراد کو موت کے منہ میں جانے سے بچایا جاسکتا جبکہ آئے روز کی ہڑتالوں نے ہسپتالوں کو بھی بوچڑ خانہ بنا کررکھ دیا ہے اور رہی سہی کثر بے حس حکمرانوں نے پوری کردی ہے ہمارے حکمرانوں نے بیماروں کو بچانا تو کیا ہے الٹا کراچی میں شدید گرمی کے پیش نظر اور اسکے نتیجہ میں غریب لوگوں کے مرنے کے خدشہ سے ایدھی اور چھیپا نے قبریں کھدوانا شروع کردی۔
ایک چھوٹی سی خبر اور پھر اسکے بعد ہمارے حکمرانوں کے گذرے ہوئے دن کے بیانات۔ ناروے میں مریض کی جان بچانے کے لیے مشینیں ایف سولہ طیارے کے ذریعے منگوائی گئیں ، ایف سولہ طیارے نے10 گھنٹے کا سفر 25 منٹ میں طے کر لیا ۔یہ تو ہے ان ملکوں کا حال جن کو ہم اپنی تقریروں میں برا بھلا نہ کہہ لیں تو ہماری تقریر مکمل نہیں ہوتی اب ہمارے سیاستدانوں کے خیالات قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف خورشید شاہ نے کہا کہ احتساب سب کا ہونا چاہیے مگر اسوقت الزام ملک کے وزیراعظم اور انکے خاندان پر ہیں اس لیے سب سے پہلے وزیر اعظم کی تحقیقات ہوں اور پھر کسی اور کی تحقیقات ہو اگر 1947 سے احتساب شروع ہوا تومکمل ہونے میں 100سال لگیں گے۔ڈپٹی چیئرمین سینٹ مولانا عبدالغفور حیدری نے کہا ہے کہ وزیر اعظم سے استعفیٰ کا مطالبہ بے وقت کی راگنی ہے، دھرنوں کی سیاست ملک کو عدم استحکام کی طرف دھکیلنے کی سازش ہے ، کسی بھی غیر آئینی اقدام کی بھرپور مخالفت کریں گے۔
Suran Singh
پاکستان علماء کونسل کے چیئرمین حافظ طاہراشرفی نے کہا ہے کہ سردار سورن سنگھ کی المناک موت پر پی ٹی آئی کو کل کا میوزیکل شو ملتوی کردینا چاہیے اوروفاقی حکومت سردار سورن سنگھ کے لیے تمغہ شجاعت کا اعلان کرے، آئین پاکستان کے تحت غیر مسلموں کو حقوق دیئے جائیں، سردار سورن سنگھ کو قتل امن پسندوں، بین المذاہب سوچ کا قتل ہوا ہے۔ تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان نے کہا ہے کہ ٹیکس کا پیسہ بیرون ملک آف شور کمپنیوں لگانے کے لئے منتقل ہوگا تو خزانہ میں پیسہ کہاں سے آئے گا؟ ٹیکس چوری کرکے غیر قانونی کمپنیاں کھولنا عوام کے ساتھ دشمنی ہے‘ ہر ادارہ کرپشن میں گھیرا ہوا ہے اور حکمران ذاتی عناد کی خاطر چپ ہیں۔چودھری پرویزالٰہی نے کہا کہ شکر ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے اپنے خطاب میں 1947ء سے احتساب کا کہا ہے، قائداعظم محمد علی جناحؒ اور ڈاکٹر علامہ اقبالؒ سے احتساب کی بات نہیں کر دی۔ پرویز رشید نے کہا کہ پانامہ لیکس میں بننے والے تحقیقاتی کمیشن کا انٹرنیشنل فارنزک کمپنیوں سے کام لینے کے لئے بیرون ملک جانا ضروری نہیں ہے ۔یہ کمپنیاں پاکستان کے اندر بھی کام کر رہی ہیں ۔کمیشن جس سے چاہے مدد لے سکتا ہے ۔تحریک انصاف کے شفقت محمود نے کہا کہ تحقیقاتی کمیشن کے ٹی او آرز طے کرنے کے لئے حکومت کو اپوزیشن کو ساتھ بٹھانے میں کیا جھجک ہے۔
کیا عوام کا حق نہیں کہ تین بار وزیراعظم بننے والے شخص کی شفافیت کے بارے میں جان سکیں اور یہ دونوں حضرات ٹی وی پروگرام میں خوب بے ہودگی سے لڑتے بھی رہے۔وفاقی وزیر ریلوے خواجہ سعد رفیق نے کہا کہ عمران خان ،اعتزاز احسن اور سراج الحق سمجھتے تھے کہ حکومت کمیشن نہیں بنائے گی اگر کوئی کہے کہ معاف کرائے قرض کا ذکر نہ ہو تو ایسا نہیں ہوگا۔ پاکستان عوامی تحریک سیکرٹری جنرل خرم نواز گنڈاپور نے کہا کہ تین سال تک عوام سے جھوٹ بولنے والے اب بیانات اور خوش کلامی سے اپنے جرائم پر پردہ ڈال رہے ہیں جبکہ بجلی کے تین منصوبوں میں 100ارب روپے بچانے کا دعویٰ کرنے والے 480ارب روپے کے گردشی قرضوں کی ادائیگی اور نندی پور کرپشن کا جواب دیں۔ چودھری اعتزاز احسن نے کہا کہ پانامہ لیکس پر عوام میں اضطراب ہے، قوم جاننا چاہتی ہے کہ اتنی بھاری رقوم باہر کیسے گئیں جن سے فلیٹس خریدے گئے اور وزیراعظم کا خاندان ان کی ملکیت کا معترف ہے۔ آل پاکستان مسلم لیگ کے سیکرٹری جنرل ڈاکٹر محمد امجد نے کہا ہے کہ وزیر دفاع خواجہ آصف دیر نہ کریں،پرویز مشرف کی آف شور کمپنی یا آف شور اکاؤنٹ کا ثبوت ہمیں دیں اور وہ کمپنی یا اکاؤنٹ اپنے نام کروا لیں۔
جنرل(ر)پرویز مشرف کی نہ تو کوئی آف شور کمپنی ہے اور نہ ہی آف شور اکاؤنٹ ہے،شریف خاندان کانام پانامہ لیکس میں آجانے سے ن لیگی راہنماؤں کے ہاتھ پاؤں پھول گئے ہیں۔جماعت اسلامی پاکستان کے سیکرٹری جنرل اور دینی جماعتوں کی اسئرنگ کمیٹی کے چیئرمین لیاقت بلوچ نے کہاہے کہ سالانہ تقریباً 8000 ارب کی کرپشن ، غربت ، بے روزگاری ، مہنگائی ، لوڈشیڈنگ کی ذلت اور جرائم میں مسلسل اضافہ کا باعث ہے پانامہ پیپرز لیکس نے حکمران بگڑے اشرافیہ کو بے نقاب کر دیاہے جبکہ سب سے مزے دار گفتگوکرتے ہوئے پاکستان عوامی تحریک کے قائد ڈاکٹر طاہر القادری نے کہا ہے کہ کمیشن بنانے سے متعلق حکومت غلط بیانی سے کام لے رہی ہے شریف برادران جب تک برسر اقتدار ہیں یہ اپنے خلاف کسی کمیشن اور انکوائری کی رپورٹ منظر عام پر نہیں آنے دیں گے وزیر اعظم نے کہاکہ اگر کمیشن کی رپورٹ انکے خلاف آئی تو وہ گھر چلے جائیں گے یہی اعلان انکے چھوٹے بھائی میاں شہباز شریف نے 17 جون 2014 کی شام کو سانحہ ماڈل ٹاؤن پر جوڈیشل کمیشن تشکیل دیتے ہوئے کیا تھا اور کہا تھا کمیشن نے میری طرف انگلی بھی کی تو گھر چلا جاؤں گا مگر گھر تو کیا جانا تھا۔
Panama Leaks Commission
اس کمیشن کی رپورٹ کی کاپی دینے سے بھی انکار کر دیا گیاحالانکہ اس رپورٹ میں صرف انگلی ہی نہیں پورا ہاتھ انکے سر پر تھا اور اب پانامہ لیکس پر کمیشن عوام سے دھوکہ اور قانون سے مذاق ہے پانامہ لیکس میں حکمران خاندان کے بچوں کے نام آئے ہیں اس لئے سب سے پہلے انکا احتساب بلا تاخیر نیب،ایف آئی اے اور ایف بی آر کرے اور پتا چلائے کہ حکمران خاندان کے بچے کرامات اور معجزات والے تو نہیں ہیں، جن بچوں نے کم عمری میں دنیا کے ہر ملک میں جائیدادیں اور آف شور کمپنیاں بنا لیں ؟۔ان سیاسی دوکانداروں کے بیانات کے بعد میں سمجھتا ہوں کہ ملک میں بلا امتیاز احتساب نہ ہونے کی وجہ سے کھربوں روپے کے بنک قرضے معاف کرانے والے، لاکھوں ایکڑ زمین اپنے نام کرانے اور جہاد کے نام پر کروڑوں روپے ہتھیانے والے آج ملک میں سب سے زیادہ خوشحال ہیں کرپشن کے ناسور نے ملک کی جڑیں کھو کھلی کر دی ہیں کرپٹ افراد اعلی عہدوں پر براجمان ہیں اور آج تک ملک میں حقیقی معنوں میں احتساب کا عمل شروع نہیں ہو سکا جس کا خمیازہ غریب عوام کو بھگتنا پڑ رہا ہے ملک کے تمام اداروں کو خود احتسابی کا عمل شروع کرنا چاہئے تا کہ دودھ کا دودھ اور پانی کا پانی ہو سکے۔ پاک فوج نے کرپشن کے خلاف جہاد شروع کر کے قوم کے دل جیت لیے ہیں۔
کرپشن کی مخالفت اور احتساب کی حمایت کو قومی نصب العین بنایا جائے۔حکمراں اپنی اولادیں اور جائیدادیں ملک میں لائیں ‘ حکمرانوں نے اقتدار کو کمائی کا ذریعہ بنا لیا ہے اور قوم اندھیروں میں ڈوبی ہوئی ہے قوم کا کسی کو فکر نہیں ہے۔ احتساب اور انصاف کے بغیر ملک میں عدل و انصاف قائم نہیں ہو سکتا۔ قومی دولت لوٹنے والوں کو کٹہرے میں لایا جائیگا۔ احتساب سے جمہوریت کمزور نہیں بلکہ مضبوط ترین ہو گی اس میں ملک وقوم کی بہتری ہو گی۔ کرپشن کا خاتمہ پائیدار امن و امان کی ضمانت ہے۔ فوج نے اپنے ادارہ میں احتساب شروع کرکے پہل کر دیا ہے اب حکمرانوں کی باری ہے بغیر کسی تفریق کے چھوٹو اور بڑوں کا بے رحم احتساب ہو گا۔ ورنہ ملکی حالات دن بدن بدترین ہوتے ہی چلے جارہے ہیں۔ بڑے بڑے کرپشن اسکینڈلز قوم کے سامنے آرہے ہیں۔منی لانڈرنگ میں وزیر اعظم کے خاندان سمیت دیگر250افراد کانام آناپاکستان کے لئے شرمندگی کاباعث ہے ہمارے ہاں امیروں کے لئے الگ قانون اور غریبوں کے لئے الگ قانون ہے۔ لمحہ فکریہ تو یہ ہے کہ ملک کی دوتہائی بالغ آبادی بیرون ملک جانا چاہتی ہے اور ان میں نصف واپس نہ آنے کی خواہش رکھتے ہیں۔
1992 سے 2000 تک کے عرصے میں پڑھے لکھے 60 فیصد افراد بیرون ملک جانے کے خواہشمند تھے جبکہ 2008 سے ستمبر 2013 کے عرصے میں 27 لاکھ افراد کا دیگر ممالک کارخ کرنا سابقہ وموجودہ حکومتی پالیسیوں پر عدم اعتماد کی عکاسی کرتا ہے۔ گزشتہ دودہائیوں میں 58 لاکھ 73 ہزار افرادباہر منتقل ہوچکے ہیں۔اسکے ساتھ ساتھ ہمیں ایک اور بات بھی ذہن نشین رکھنی چاہیے کہ پاکستان کے دولخت ہونے کے بارے میں جسٹس حمود الرحمن کمیشن سمیت آج تک جتنے کمیشن بنے ہیں ان سے کوئی حل نہیں نکلا، کسی کی رپورٹ شائع نہیں کی گئی، اتنا وقت اور سرمایہ صرف کرنے کے بعد عوام کو کچھ پتہ نہیں چلتا کہ کیا بنااسکے ساتھ ساتھ ہمارے سابقہ اور موجودہ تمام حکمران عوامی مسائل حل کرنے میں ناکام ہوچکے ہیں ، ہر طرف سے چورچور اورکرپشن کی اوازیں بلند ہورہی ہے ،قوم کے بچے تعلیم ، صحت اور صاف پانی کے لئے ترس رہے ہیں جبکہ حکمرانوں کے بچے عیاشی کررہے ہیں مگر آخر کب تک ؟۔