تحریر : شاہ فیصل نعیم سیاہ رات میں مکین گاہ کی سمت قدم بڑھاتے انسان کو وہ دور سڑیٹ لائٹ جلتی نظر آرہی ہے وہ قریب پہنچتا ہے تو ایک شخص کو دیکھتا ہے جو کچھ ڈھونڈ رہا ہے ۔ گزر نے والا پوچھتا ہے :”جناب! اگر آپ کو بُرا نا لگے تو کیا میں یہ پوچھ سکتا ہوں کہ آپ اس وقت یہاں کیا ڈھونڈ رہے ہیں”؟”جناب ! میری چابی گُم ہو گئی ہے میں وہ ڈھونڈرہا ہوں”۔ “اگر آپ چاہیں تو میں ڈھونڈنے میں آپ کی مدد کرسکتا ہوں”۔ “بڑی مہربانی ہو گی”۔
اس طرح وہ دونوں چابی ڈھونڈنے لگتے ہیں۔ کوئی ایک گھنٹے کی تلاش کے بعد گزرنے والا شخص پوچھتا ہے : “جناب ! آپ کو یقین ہے نا کہ آپ کی چابی اسی جگہ گم ہوئی تھی”؟ دوسرا شخص جواب دیتا ہے : “نہیں میری چابی یہاں نہیں گھر میں گم ہوئی ہے۔ مگر گھر میں روشنی نہیں اس لیے میں یہاں تلاش کر رہا ہوں”۔ گزرنے والا اُس شخص کی حماقت پہ ہنستا ہے اور گزر جاتاہے کچھ روز قبل میں ایک کتاب پڑھ رہا تھا جب یہ واقعہ میری نظروں سے گزرا جس کا مفہوم میں یہاں بیان کر رہاہوں۔ اگر ہم اس واقعہ کی گہرائی میں جائیں تو ہم میں سے اکثریت ایسے حالات سے دوچارہے اگر میں آسان لفظوں میںکہوں تو ہر انسان اپنی ذمہ داری سے بھاگ رہاہے ۔ یہ بھاگنا کسی ایک شعبہ ِ زندگی تک محدود نہیں۔
زندگی کے مختلف ادوار میںموجود انسان اس بیماری کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر طالبِ علم کو اُستاد سے مسئلہ ہے، خاوند کو بیوی سے مسئلہ ہے، عوام کو حکام سے مسئلہ ہے، ملازم کو باس سے مسئلہ ہے اور اگر اس ترتیب کو الٹ دیا جائے تو پھر بھی وہی کیفیت ہے۔یعنی کہ زندگی کا کوئی بھی پہلو لے لیں مسائل ہی مسائل ہیں ۔ ان سب مسائل کا ایک ہی حل ہے اور وہ ہے احساس ِ ذمہ داری۔
Responsibility
انسان جب اپنی ذمہ داری قبول کرنا شروع کر دیتا ہے تو حالات بدلنے لگتے ہیںانسان جن حالات سے گزرکر مسائل کا شکار ہوتا ہے اگر ماضی میں جھانک کر اُن حالات کا بغور جائزہ لے تو مسئلے کا حل اُدھر ہی موجود ہو تا ہے ۔ انسان کے ذرا سی غفلت برتنے سے بنا بنایا کام بگڑ جاتا ہے اور انسان اپنے آپ کو بچانے کے لیے ذمہ داری کا بوجھ دوسروں پر ڈالنا شروع کر دیتا ہے۔میرا ماننا ہے کہ اگر آپ کے گھر میں کوئی چور بھی گھس آتا ہے نا تو اُس کے لیے آپ کے سوا کوئی اور ذمہ داری نہیں وہ اس لیے کے آپ نے اپنے گھر کی حفاظت کا معقول انتظام نا کیا کمزوری آپ میں ہے اس کے لیے چور کو ذمہ دار ٹھہرانا بیوقوفی کے مترادف ہے ۔ میاں! آپ دودھ ڈھانپ کر نہیں رکھو گے تو کتا بلی تو منہ ماریں گے ہی۔ تو بجائے کتا بلی سے شکوہ کرنے کے خود میں جھانکو اور دیکھو کمی کہاں رہ گئی ہے۔
اب ملک میں جاری عوام کی شکایات کی ہی مثال لے لیں حکمران کی بات اس لیے نہیں کہ میں خود عوام ہوں ۔ کوئی دن خالی نہیں جاتا جب عوام حکمرانوں کو گالیا ں نہیں دیتے مگر مجھے اگر کسی سے شکایت ہے تو وہ عوام ہی ہے حکمرانوں جیسے بھلے لوگوں سے مجھے کیا گلہ ہو سکتا ہے ۔ آخر یہ وہی لوگ ہیںنا جو الیکشن کے دنوں میں ہمارے سامنے آکر ہاتھ جوڑکر ووٹ مانگتے ہیں اُس وقت ہماری عقل گھاس چرنے گئی ہوتی ہے جو ہم پہچان نہیں پاتے کہ کون ہمارا کتنا خیر خواہ ہے۔
اب میں کیا بار بار عوام کی چھوٹی سوچ کا ذکر کروں جو چائے کی پیالی، سگریٹ کی ایک ڈبی، گلا ب جامن کے ایک دانے، میٹھے پانی کے گلاس، بریانی کی پلیٹ،نالی پکی کروانے اور بیٹے کو نوکری دلوانے کے لیے اپنا ضمیر بیچ دیتے ہیں اور پھر یہ امید کرتے ہیں کہ حکمران ملک نہیں بیچ کھائیں گے۔ ایسا کیسے ہو سکتا ہے یہ تو کرنی کی بھرنی ہے میاں جیسا کرو گے ویسا ہی بھرو گے بلکہ کیے سے زیادہ بھرو گے تمہارا پیٹ چھوٹا ہے تم نے اپنے ضمیر کی کم قیمت طلب کی اب بڑے پیٹ والے زیادہ قیمت طلب کریں گے ۔ہر طرف مسائل ہی مسائل نظر آئیں گے جب تک ہم سڑیٹ لائٹ کی روشنی کی بجائے گھر میں چابی تلاش نہیں کرتے۔