اسلام آباد (جیوڈیسک) چیف جسٹس آف پاکستان جسٹس ثاقب نثار کا کہنا ہے گھروں میں کام کرنے والی بچیوں کیلئے قانون میں تحفظ نہ ہونے پر تشویش ہے ، یہ ان کی نہیں بلکہ قانون بنانے والوں کی غلطی ہے ، طیبہ ان کی بیٹیوں کی طرح ہے ، کیس کو گہرائی سے دیکھنا ہوگا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کمسن گھریلو ملازمہ طیبہ پر تشدد کے ازخود نوٹس کیس کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں کہا گھروں میں کام کرنے والی بچیوں کیلئے قانون میں تحفظ نہ ہونے پر تشویش ہے ، یہ میری نہیں بلکہ قانون بنانے والوں کی غلطی ہے ، طیبہ ہماری بیٹیوں کی طرح ہے ، اس کیس کو گہرائی سے دیکھنا ہوگا۔
چیف جسٹس ثاقب نثار نے کہا جوڈیشل افسر کو ضمانت ملنے اور بچی حوالگی کے نکتے کو نظرانداز نہیں کرسکتے ۔ ملزمہ ماہین ظفر کے وکیل نے عدالت کو بتایا کہ مقدمے میں جو دفعات شامل کی گئی ہیں وہ قابل ضمانت ہیں ، چیف جسٹس نے کہا یہ تو پوچھ سکتے ہیں کہ ملزمان کو 2 جوڈیشل افسران نے کیسے ضمانت دی؟۔
جوڈیشل افسران نے متاثرہ بچی کی حوالگی کا فیصلہ سنایا کیسے سنایا ؟ اس معاملے پر دونوں جوڈیشل افسران کو نوٹس جاری کرسکتے ہیں اور ان سے پوچھ سکتے ہیں کہ کیا ضمانت دینے اور بچی حوالگی سے پہلے نوٹس جاری کئے تھے ؟ سمجھ نہیں آتا کہ بچی کے والدین کو وکیل کے پاس کون لے گیا۔
وکیل نے کس طرح والدین سے بیان پر دستخط کرائے ، جوڈیشل افسر نے بچی حوالے کی ، کیا اس وکیل راجہ ظہور کو تفتیش میں شامل کیا گیا ؟ جس پر پولیس حکام نے عدالت کو بتایا کہ وکیل راجہ ظہور کو شامل تفتیش کے لئے سمن جاری کئے ہیں۔