حوثی باغیوں سے مفرور الطاف حسین تک (ایم کیو ایم پاکستان کیلئے تامل ناڈو )

Houthi Rebels

Houthi Rebels

تحریر : لقمان اسد
معافی کا کس نے مطالبہ کیا ؟ مطالبہ تو اب الطاف حسین جیسوں کیلئے پھانسی کا ہونا چاہیئے لال مسجد کے مولوی عبدالعزیز کے ایک جملے پر طوفان بپا تھا کہ جب 16دسمبر کو دل دہلا دینے والے سانحہ پشاور سے پوری قوم کا سکون غارت تھا تو یہ مولوی صاحب یہ فرماتے نظر آئے کہ ”میں اس واقعہ کی مذمت نہیں کرتا ” پوری پاکستانی قوم کو یاد ہے کہ تب اسی الطاف حسین نے حکم صادر کیا کہ مولوی کو چوک پر سر ِ عام اُلٹا لٹکا دیا جائے اور ”مسجد ضرار ”کو حکومت گرانے کا آرڈر جاری کرے قارئین !سب کچھ نظر انداز کر دیا جائے ہاں سب کچھ مگر انصاف تو کیا جائے کب تک ملت کے سپاہی ، پاسبان وطن ،قوم کے محافظ اور بے گناہ شہری سراسر ایک بد معاش صفت ظالم درندے کی بھینٹ چڑھائے جاتے رہیں گے ؟ حیرت ہوتی ہے کہ تب تو حکومتی رٹ کو چیلنج کرنے والے مولوی صاحبان کی مسجد پر چڑھائی کر دی گئی پوری دنیا کے سامنے قرآن مقدس کی بے حر متی بھی کی گئی مگر نائن زیرو کا تقدس ابھی تک بر قرار ہے

باوجود اس کے کہ وہان سے شہید صحافی ولی خان بابر کے قاتل بھی پکڑے گئے اور ناٹو افواج کے معیار کا بھاری تعداد میں اسلحہ بھی وہیں سے برآمد ہوا لیکن ابھی تک اس جماعت کے سر براہ کو سر کاری طور پر باغی قرار دیا گیا ہے اور نہ ہی اس جماعت پر پابندی کے احکامات حکومت جاری کرنے کی جسارت کر سکی ہے یہ ہمارا ومی مزاج اور وطیرہ ہے کہ بر وقت ہم کسی بھی مرض کی تشخیص نہیں کر پاتے اور اگر بعد میں مرض خود بخود عیاں ہو جائے تو پھر اس قدر کاہلی اور سستی کا مظاہرہ ہم اُس مرض کا علاج کرنے میں کرتے ہیں کہ اللہ کی پناہ یہ معرکہ پہلی مرتبہ تو اس رینگنے والے جانور نے سر نہیں کیا بلکہ اس ہرزہ سرائی کا درجنوں بار وہ مرتکب ٹھہرا ہے اور ہمار میڈیا اُسے قومی ہیرو نہ سہی آدھی قوم کا ہیرو بنا کر پیش کرتا اور اس بات پر بضد رہتا ہے بتایا جائے ایم کیو ایم کس کی مجبوری ہے اور کون مجبور کرتا ہے آزاد میڈیا کو ؟ جو گھنٹوں اور پہروں ایک فضول آدمی کی واہیات گفتگو وہ نشر کرے جبکہ اُس کی تقریر کے دوران ایک کمرشل بھی دیکھنے کو نہیں ملتا

گویا جیسے فرض نماز کی پابندی نبھائی جارہی ہو یہ حکومت کا کام ہے کہ وہ اس تمام تر غلاظت کا کھوج لگائے نہ لگائے تو نہ لگائے یہ اُس کا دائرہ اختیار بھی ہے اور صوابدید بھی مگر حقائق یہ ہیں کہ جن سر پرستوں کو پوری دنیا کے سامنے الطاف حسین نے دھرتی مان کے خلاف مدد کیلئے پکارا بلاشبہ وہ اُنہی کے پیرول پر ہے امریکہ ،انڈیا اور اسرائیل اُس کے سر پرست ہیں اور سب سے بڑھ کر وہ برطانیہ جس میں وہ گزشتہ دو دہائیوں سے محفوظ پناہ لئے بے خوف و خطر ہر پاکستانی حساس ادارے کی ساکھ کو خاک میں ملانے کی ناپاک جسارتیں اور مکروہ سازشیں کرتا چلا آرہا ہے پوری پاکستانی قوم کے ذہن میں ایک سوال اُٹھتا اور گردش کر رہا ہے کہ کیا پاکستان اتنا لاوارث ہو گیا ہے کہ ویسپا چلانے والے غدار ِ وطن اور میر جعفر ، ننگ دیں اور ننگ ِ ملت ،را ،موساد ،خاد ،سی آئی اے اور ایم آئی سکس کے اس پالتو کو لگام دینے والا کوئی نہیں ؟

Law

Law

ایک ایسی جماعت جس کی لیڈر شپ یہ فیصلہ کر چکی کہ اگر اُسے ملکی قانون کے تابع کرنے کی کوشش کی گئی ،اگر پاکستان سے محبت کرنے پر مجبور اُسے کیا گیا ،اُس کی بھتہ خوری ،حرام کی کمائی کو بند کیا گیا اور اگر ٹارگٹ کلنگ ،اغوا برائے تاوان کی وارداتوں سمیت اُس کے مذموم مقاصد کی تکمیل کیلئے پورے سندھ اور بطور خاص کراچی کو اُس کیلئے کھلے میدان کی طرح نہ چھوڑا گیا تو وہ اپنے ہی ملک کے خلاف اعلان بغاوت تک ہی محض محدود نہ رہے گی بلکہ غیر ملکی دشمن قوتوں سے بر ملا اور علی الاعلان اسلحہ کی بھیک مانگ کر اُنہیں بھی اس جنگ میں اپنا شریک کار اور ہمرکاب بنانے کی خواہش کا اظہار کرے گی تو کیا ایسی جماعت پر پابندی کا کوئی قانون نہیں بنایا جاسکتا یا اس ضمن میں کسی قانون کا اطلاق اس بابت ممکن نہیں ہو پاتا؟

اگر یہ سب کچھ واقعتا اس حوالے سے نا ممکن ہے تو کونسی ایسی اُمید ،منصوبہ بندی اور مستقبل کا کونسا ایسا لائحہ عمل ہے کہ جس کے سبب یہ تصور کیا جائے کہ پاکستان کے وجود کو کوئی خطرہ ہرگز نہیں اور نہ ہی وطن کی بنیادوں کو کھو کھلا کیا جاسکتا ہے؟اللہ کے بندو ! اب بس کرو کونسی ابھی ایسی کوئی کسر باقی رہ گئی ہے بہت ظلم اس قوم نے سہہ لیا اور برداشت کیا، بہت دن اندھیروں میں رہ لیا اور بہت دن تاریکی کی نظر ہوئے کیا اب بھی اور مزید کئی برس اس خرابے میں بتا دے گی یہ قوم ،کیا اب بھی تاریک راہوں کا یہ اندوہناک سفر اپنے اختتام کو نہ پہنچ پائے گا اور ملک دشمن طاقتوں کے خلاف محب ِ وطن قوتیں اب بھی اپنے فائنل رائونڈکا آغاز نہ کر پائیں گی ؟الطاف حسین کی حالیہ تقریر بھی اگر ہمارے حکمرانوں کی آنکھیں کھولنے کیلئے کافی نہیں تو پھر یہ کہنے میں کوئی عار نہیں کہ شاید سبھی نے منافقت کا لبادہ اوڑھ رکھا ہے اور مادر گیتی کے میر جعفروں کو کھلا چھوڑے رکھنے پر سبھی متفق ہیں بقول پروین شاکر
ظلم سہنا بھی تو ظالم کی حمایت ٹھہرا
خامشی بھی تو ہوئی پشت پناہی کی طرح

وطن عزیز میں انہی دنوں بہت چرچا حوثی باغیوں کا ہے جو سمندر کے اُس پار بیٹھے ہیں ،ہر گام میڈیا میں بھی اُنہی کا شورو غل اور واویلہ ہے جبکہ گھر کے حوثی باغیوں کو سبق سکھانے والے خاموش تماشائی کا کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں اُنہیں کھلی چھوٹ ہے کہ وہ جب جدھر منہ اُٹھا کر چڑھائی کرتے پھریں جس کی عزت سے کھیلیں جس قدر چاہیں قتل عام کریں اور جب جس سے چاہیں جیسا مرضی انتقام لیں پوری قوم شدت سے منتظر ہے کہ کس دن اس بلائے بد اور آسیب بد سے چھٹکارے کی منصوبہ بندی ہمارے حکمران کریں گے اُس باغی قبیلے کے خلاف کہ جس کا وجود اب پاکستان کیلئے سری لنکن تامل ناڈو کی شکل اختیار کر چکا ہے بلاشبہ قوم کی نظریں اب بھی جنرل راحیل شریف پر ہیں چین سے بڑھتے ہوئے تعلقات کے پیش نظر ان حلات و واقعات کا سامنے آنا سیاست کے طالب علموں کیلے اچھنبے کی بات نہیں سانحہ پشاور سے لیکر الطاف حسین کی حالیہ تقریر تک کے تمام واقعات امریکہ بہادر اور اُس کے اتحادی دوستوں کی منصوبہ بندی اور سازشوں کا ایک غلیظ منبع ہے او ر یقینا محب وطن قیادتیں اور فوجی سر براہان ان حقائئق سے بخوبی آگاہ ہوں گے پاکستان آرمی انشا اء اللہ پوری قوت کے ساتھ اور مردانہ وار ان تمام تر عالمی سازشوں اور عالمی طاقتوں کے ان ناپاک مہروں کا ڈت کر مقابلہ کرے گی اور پاکستان ہمیشہ سے ہمیشہ تک قائم و دائم رہے گا ،کوئی را کا ایجنٹ پاکستان کی سالمیت کو کبھی بھی توڑ نہ پائے گا
وہ مرد نہیں جو ڈر جائے حالات کے خونی منظر سے ۔۔۔۔۔۔۔۔جس دور میں جینا مشکل ہو اُس دور میں جینا لازم ہے

Luqman Asad

Luqman Asad

تحریر : لقمان اسد