یہ کیسا جہاد ہے

 Hazrat Mohammad PBUH

Hazrat Mohammad PBUH

حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اہلبیت کیلۓ فرمایہ تھاکہ “اے مسلمانوں میں تم سے کوئی اجرت رسالت نہیں مانگتا، ہاں مگر تم لوگ میرے اہلبیتسے مودت کرنا”۔حال ہی میں روس، عراق، لبنان اور شام نے سعودی حکومت اور خاص طور پر سعودی انٹیلجنس کیشکایت اقوام متحدہ سے کی ہے کہ سعودی حکومت ان ممالک میں دہشتگردوں کی مختلف کارروئیوں میں معاونت کر رہی ہے۔ یہ کیسا جہاد ہے؟ دو دن قبل شام میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے نواسے اور حضرت امام حسین علیہ السلام کی پیاری ننھی بیٹی حضر تبی بی سکینہ علیہ السلام کے دمشق میں واقع مزار پر کئی راکٹ فائر کر کے مزار کے طلائی گنبد کو شہید کر دیا گیا۔

جب یہ خبرسماعت سے ٹکرائی تو میں ایک لمحہ کیلۓ دم بخود رہ گیا۔ یہ عیظم المرتبت ہستیاں جو میری اسلام کا سرمایہ ہیں، بقاۓ دین کی علامت ہیں اور جو اسلام کی پہچان ہیں کو اس بے دردی کے ساتھ مہندم کیا جاۓ۔ حضرت محمد مصطفے صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی اہلبیت کیلۓ فرمایہ تھا کہ “اے مسلمانوں میں تم سے کوئی اجرت رسالتنہیں مانگتا، ہاں مگر تم لوگ میرے اہلبیت سے مودت کرنا۔ مسلمان تووہ ہوتا ہے جس کے ہاتھ اور زبان سے دوسرے لوگ محفوظ رہیں۔ لیکن میں حیران ہوں یہ کیسا اسلام ہے جس میں میں خود اسلام کی عظیم المرتبت ہستیوں کے مزارات محفو ظ نہیں۔ اگر شام کے حالات پر نظر ڈالیجاۓ تو معلوم یہ ہوتا ہے وہاں خانہ جنگی کی آڑ میں دنیا بھر سے دہشتگردوں کو اکھٹا کیا گیا ہے جس سے پورے خطے کے امن کو خطرات لاحق ہیں۔ اور تو اور اب کچھ یورپی ممالک بھی اس خطرے کا احساس کر رہے ہیں حتی کہ ہو گئے سپین نے تو یہاں تک کہ دیا ہے شام میں دہشتگردوں کی موجودگی سے ان کا ملک متاثر ہو رہا ہے۔

Syrian Government

Syrian Government

شامی حکومت کے خلاف لڑنے والے جنہیں اکثر عربی و غربی میڈیا مجاہدین یا باغی کا نام دیتا آیا ہے اب خود ان ممالک کو ان دہشتگردوں سے خطرات لاحق ہو رہے ہیں۔ دہشتگردی کی ان کارروئیوں کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کو مختلف مذاہب خاص کر عیسائی اور مسلمانوں کے مذہبی اور مقدس مقامات کو مسلسل نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ کچھ عرصہ قبل شامکے شہر معلولہ جہاں عیسائی اکثریت میں ہیں وہاں عیسائیوں کے چرچوں کے جلا دیا گیا اور اس کے ساتھ ساتھ شام کے دیگر شہروں میں مسلمانوں کے مقدس مقامات جن میں حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے صحابی حجر بن عدی کیقبر اطہر کو پامال کیا گیا اور ان کے جسد پاک کی بے حرمتی کی گئی، حضرت خالد بن ولید کے مزار کی بے حرمتی، رسول پاک صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے چچا زاد بھائی حضرت جعفر طیار کے مزار کو آگ لگائی گئی، تاریخی مسجد بنو امیہ کو پامال کیا گیا اور دمشق میں ہی حضرت بی بی زینب علیہ السلام کے مزار پر حملہ کیا گیا۔

یہ بات سب جانتے ہیں کہ مسلمانوں کے مذہبی مقامات کو منہدم کرنے والوں میں وہ دہشتگرد گروہ شامل ہیں جو اسلام میں تفرقہ ایجاد کرنے کےموجد ہیں۔ اگر تاریخ پر نظر ڈالی جاۓ تو 4291میںجب ترکوں کی سلطنت عثمانیہ جو کہ مسلمانوں خاص طور پر عرب مسلمانوں کی اتحاد کیمظہرتھی کو برطانوی سامراج کی سرپرستی اور مکارانہ کردار کی بنا پر ختم کر دیا گیااورآسعود نے نجد میں اپنی حکومت کا اعللان کرنے کے ساتھ ہی مسلمانوں کے مقدس مقاماتخصوصا”آل رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے مزارت کو منہدم کرنے کا سلسلہ شروع کردیا۔ اگر اسی تناظر میں دیکھا جاۓ تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہے کہ شام میںحکومتکےخلافبرسر پیکار گروہوں کو سعودی حکومت پر پور عسکری، مالی اورسفارتی امدادپہنچارہی ہے۔ حال ہی میں روس، عراق، لبنان اور شام نے سعود یحکومت اور خاص طور پرسعودی انٹیلجنس کی شکایت اقوام متحدہ سےکیہے کہ سعودی حکومت ان ممالک میں دہشتگردوںکی مختلف کارروئیوں میں معاونت کر رہی ہے۔ جبکہ ان ممالک کے برعکس پرامن ملک پاکستان کے وزیر اعظم جناب نواز شریف نے سعود یشاہی خاندان کی احسان مندی کا پورا پورا حق اداکرتے ہوۓسعودی عرب کو مسلمان ممالک کیلۓ رول ماڈل قراد دے رہے ہیں جو کہ بہت حیران کن بات ہے۔

Taliban

Taliban

امکان قوی ہے کہ طالبان کے ساتھ مزاکرات بھی اسی رول ماڈل کی ایما پر ہو رہے ہیں۔ پوری دنیا یہبات باخوبی جانتی ہے کہ مسلمان ممالک جن میں عراق، لبنان، یمن، افغانستان،
پاکستان، صومالیہ، کئی افریقی اور عرب ممالک شامل ہیں میں بد امنی اور دہشتگردی کرنےوالی قوتیں ایک ہی تفکر کی حامل ہیں۔ ظاہرا” یہ اسلامی شریعت اور اسلامی نظام کے نفاد مطالبہ
کرتی ہیں مگر ان کا عمل صریحا” اسلام کے بر خلاف ہے۔ یہ قوتیں اپنی سفاکانہ اور دہشتگردانہ
کارروئیوں کو اسلامی جہاد کا نام دیتی ہیں مگر یہ بات سمجھ میں نہیں آتی کہ یہ کیسا جہاد ہےجس کے ذریعے اسلامی ممالک کو کمزور کیا جاۓ، شعائر اللہ کی توہین کی جاۓ، مسلمانوں کے مقدس مقامت کی بے حرمتی کی جاۓ اور بے گناہ انسانوں کا قتل عام کیا جاۓ۔ اب وقت آ گیا ہے کہاس غیر انسانی عمل کا ارتکاب کرنے والی قوتوں اور ان کے سرپرستوں کو ان اٹھنے والے ان سوالات کا جواب دینا پڑے گا۔

تحریر:نصیر جسکانی