فرضی رسیدوں کے ذریعے چرمِ قربانی وصول کرنے والے مولوی نما لوگوں کے دلوں کی بستی میں کیا خدا کا کوئی گھر نہیں ہے؟ عیدالاضحی تجدیدِ عہد کا دوسرا نام ہے، یہ وہ عہد ہے جو حضرت ابراہیم علیہ السلام نے ہزاروں سال قبل اپنے اللہ سے لیا تھا۔ اس وقت سے لے کر آج تک دنیا بھر کے تمام مسلمان اس عہد کی تجدید کرتے آرہے ہیں اور کرتے رہیں گے گویا ا س عہد اور تجدیدِ عہد کے بغیر عیدالاضحی کا تصور بھی نہیں کیا جا سکتا۔ اللہ کا لاکھ لاکھ شکر کہ مسلمان حضرت ابراہیم علیہ السلام کی یادگار کے طور پر اللہ کے حضور جانوروں کی قربانی کی صورت میں اپنے باپ ابراہیم علیہ السلام کے عہدوپیمان کی تجدید کرتے ہیں یہ الگ بات ہے کہ ہماری زندگی پر اس عہد کی کتنی پر چھائیاں پڑتی ہیں۔ یہاں ایک بات یہ سمجھنے کی ہے کہ بقر عید کے موقع پر جانوروں کی قربانی دراصل خدا کے حضور اپنا شکر پیش کرناہے یایوں کہیے کہ جانوروں کی قربانی محض علامتی عہدوپیمان ہے لیکن اس کے ذریعے مسلمانوں سے ان کی زندگی میں اندر سے باہر تک ان ”دینی مظاہروں ”کی تکمیل کرانا ہے جو اس عہدوپیمان کے بطن سے پیدا ہوتے ہیں۔ اگر ہماری زندگی اس عہد کے اثرات سے خالی رہی تو یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ عیدالاضحی کے مقاصد و مفاہیم تک ہماری رسائی بھی نہیں ہوئی ہے۔
ہم اپنے سماج کی تہ میں اتر کر دیکھیں تو اندازہ ہو گا کہ ہم ا س عہدِ مبارک کے فضائل و برکات سے غسل تو کیا کرتے ہمیں اس کی چھینٹیں بھی میسر نہیں ہو رہی ہیں(الاماشاء اللہ )۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ایک طرف ہم عید کے دن اللہ کے حضور قربانیاں پیش کرتے ہیں اور حضرت ابراہیم کے کیے ہوئے عہدوپیمان کا اقرار کرتے ہیں اور دوسری طرف ہمارے معاشرے کے خواص کہے جانے والے لوگ مسرور اًیا مجبوراً کچھ ایسا کرتے ہیں جو اس عہدوپیمان کو بالکل پارہ پارہ کر دیتا ہے یعنی ایک طرف عہدوپیمان کا اقرار اور دوسری طرف عہدوپیمان سے (غیرشعوری) انکار۔ یہ ہمارے تہذیبی اور ایمانی پہلو کا نہایت بھیانک ”حادثہ” ہے اس پر ہمیں ٹھنڈے دل سے غور کرنا چاہیے۔ آئیے دیکھیں کہ وہ ”حادثہ”کیا ہے اور بحیثیت مجمو عی ہماری زندگی پر اس کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ ایسا لگتا ہے کہ عیدالاضحی کے دن چرمِ قربانی جمع کرنے کے نام پر فرضی رسیدوں اور فرضی مدرسوں کی باڑھ سی آگئی ہو۔
Sacrifice Skins
عوام میں تو کسی قدر اللہ کا خوف باقی ہے مگر معلوم یہ ہوتا ہے کہ خوا ص کی صفوں سے تعلق رکھنے والے بیشتر حضرات کے دل خوفِ خدا سے خالی ہو چکے ہیں۔ چندہ خور (ضمیرفروش) مولویوں، فرضی مدرسوں اور جعلی یتیم خانوں کے ذمہ داران قربانی کی کھالیں جمع کرنے کے لیے نگرنگر، ڈگر ڈگر اور قریہ قریہ خاک چھانتے پھرتے ہیں۔ خاص طور پر ممبئی کے مسلم علاقوں میں دو دو قدم کے فاصلے پر مدرسوں، انجمنوں، یتیم خانوں اور فلاحی اداروں کے ذمے داران میز، کرسی اور بینر لگا کر بیٹھ جاتے ہیں۔ یہ مناظر دیکھ کر کسی کو کچھ نہ ہو تو نہ ہو مجھے ضرور کوفت ہوتی ہے۔ مجھے ان حضرات کی نیت پرشبہ نہیں ہے مگر سوال یہ ہے کہ بچپن سے ہی ایسے مناظر سے آنکھیں چار ہو رہی ہیں کیا اب تک ان ذمے داروں نے اپنے اپنے اداروں کو معاشی طور پر مستحکم نہیں کیا؟ آخر کب تک قوم کے سامنے بھیک مانگی جائے گی ؟ میرا روے سخن صرف انہی لوگوں کی طرف ہے جنہوں نے دین کو دنیا کمانے کا پیشہ بنا لیا ہے اور جو اسلام اور مسلمانوں کی بدنامی کا سبب بن رہے ہیں۔ ہر سال اربوں روپے کی کھال فروخت ہوتی ہے۔ صرف ممبئی جیسے بڑے شہروں میں ہر سال کروڑوں روپیوں کی کھالیں فروخت ہو جاتی ہیں۔ اندازہ لگائیے کہ جس قوم میں ہر سال اربوں روپیوں کی زکوٰة نکلتی ہو اور عیدالاضحی کے موقع پر کروڑوں روپیوں کی کھالیں فروخت ہو جاتی ہوں۔
ایسی صورت میں ہونا تو یہ چاہیے کہ مدارس مالی اعتبار سے مستحکم ہو جائیں اور دو چار سال کے بعد انہیں چندہ وغیرہ کرنے کی ضرورت ہی نہ پڑے مگر ان کی ضرورتیں کم تو کیا ہوتیں ہرسال کوئی نہ کوئی مدرسہ آ موجود ہوتا ہے اور مدارس اور ادارے ”غربت”کی گرداب میں پھنستے چلے جاتے ہیں، آخر یہ کروڑوں اربوں روپیہ جاتا کہاں ہے؟۔ واقعہ یہ ہے کہ لوگ چہرے پر داڑی سجا کر اور سر پر ٹوپی رکھ کر اپنی ضرورتیں پوری کرتے ہیں لیکن نام مدرسوں اور اداروں کا لیتے ہیں۔ ان لوگوں نے اپنی اپنی مذہبی دکانیں کھول رکھی ہیں اور اس دکان کو مزید ترقی دی جا رہی ہے۔ کیا ان حضرات کے دل کی بستی میں خدا کا کہیں وجود نہیں ہے؟ دین کے نام پر کیے جا رہے اس بھیانک کھلواڑ سے عام لوگ اچھے علما و مشائخ سے بدظن ہو رہے ہیں۔ عام لوگ چرم قربانی مذکورہ لوگوں کے حوالے تو کر دیتے ہیں لیکن موقع ملتے ہی ان پر طعنہ کسنے سے بھی نہیں چوکتے۔ ہمارے عوام اتنے بیوقوف نہیں رہ گئے ہیں جتنا ہمارے ان ”بڑوں”نے انہیں سمجھ لیا ہے اس لیے انہیں یاد رکھنا چاہیے کہ فرضی رسیدوں اور جعلی مدرسوں کا یہ کاروبار زیادہ دنوں تک زندہ رہنے والا نہیں ہے۔
Sacrificial Animals
ایسے دل خراش ماحول میں قابلِ مبارک باد ہیں وہ لوگ جو کھالوں کا صحیح استعمال کرتے ہیں اور انہیں صحیح حقدار تک پہنچانے میں حتی الوسع اپنی ذمہ داری نبھاتے ہیں۔ ایک خاص بات عام مسلمانوں سے یہ عرض کرنی ہے کہ وہ اپنے قربانی کے جانوروں کی کھالیں یا ان کی قیمت اولاً تو خود اپنے ہاتھوں سے مستحقین تک پہنچائیں اور اپنے قریبی مستحقین کوہی دیں۔ بصورت دیگر قابلِ اعتماد اور شناسا حضرات کو دیں جو مدارس یا فلاحی اور رفاہی ادارے چلاتے ہیں تاکہ یہ کھالیں صحیح مصرف میں استعمال ہو سکیں۔ اس معاملے میں بالکل بھی غیر ذمے داری اور کوتاہی کا مظاہرہ نہ کریں۔ ایسانہ ہو کہ جو بھی سامنے آیا اور اس نے اپنی چرب زبانی سے دین و ملت کی حالتِ زار کا خطبہ پڑھا، امتِ مسلمہ کی پسماندگی پر گھڑیالی آنسو بہائے اورآ پ نے بے چوں و چراں بغیر تصدیق کیے ہوئے قربانی کی کھالیں اس کے حوالے کر دیں۔
مولویانہ لباس، چہرے پر داڑھی، سر پر ٹوپی اور زبان پر قوم و ملت کی مردہ حالت کا مرثیہ پڑھنے والوں پر مکمل اعتماد نہ کریں بلکہ چھان پھٹک کرکے ایسے اداروں کا انتخاب کریں کہ جن پر آپ کو مکمل یقین ہو ۔بے چارے عام مسلمان مولویانہ لباس والوں پر اعتماد کر لیتے ہیں مگر بسا اوقات دیکھنے میں آتا ہے ان کو دیا گیا پیسہ یا کھالیں قوم کے غم کا نہیں ان کے غم کا مداوا کرتی ہیں۔ مولوی نما لوگ اپنی اس طرح کی نہایت قابلِ مذمت حرکتوں سے نہ صرف غریبوں اور مستحق اداروں کا حق مار رہے ہیں بلکہ اپنی آخرت بھی خراب کر رہے ہیں۔ ایک بات یاد رکھیں کہ اگر آپ نے قربانی کی کھالیں بلا تحقیق اور قصداً ایسے لوگوں کے ہاتھوں میں دے دیں جنہوں نے ان کا صحیح استعمال نہیں کیا تو اس کے ذمہ دار آپ بھی ہوں گے لہٰذا یہ آپ کا فرض بنتا ہے کہ اگر آپ نے قربانی کے گوشت کو غریبوں میں تقسیم کرکے ان کے پیٹ کی آگ سرد کی ہے تو دوسری طرف ان کی دیگر ضرورتوں کی تکمیل بھی جانوروں کی کھالوں اور یا ان کی قیمت سے کریں۔