یہ مسئلہ دانش اور طب کا مسلمہ ہے کہ سننے کے واسطے دو چیزوں کی ضرورت ہے ایک مسافت دوسرے وہ ذریعہ جو آواز کو کانوں تک پہونچا ئے اور اس ذریعہ کو ہوا کہتے ہیں۔ اگر ہوا نہ ہو تو آواز کو نہیں سُن سکتے۔ آنکھ جن چیزوں کو دیکھتی ہے اُس میں بھی واسطہ کی ضرورت ہے۔ اور وہ نور اور روشنی ہے خواہ سورج کی ہو یا چاند ستاروں کی یا آگ کی۔ خلاصہ یہ کہ بغیر ہوا کے ذریعہ سُننا، اور بغیر روشنی کے دیکھنا ممکن نہیں ہے۔ یہ مسائل جن پر سے بعد میں پردہ اُٹھایا گیا ہے، ایک ہزار دو سو سال (۱۲۰۰) پیشتر امام اپنے شاگرد مفضل کو تعلیم فرما گئے ہیں۔
see and hear
آپ مفضل شاگرد سے فرماتے ہیں، اے مفضل! ذرا حواسِ خمسہ پر نظر ڈالو، خدا نے آنکھوں کو پیدا کیا تاکہ رنگوں کو دیکھے۔ اگر رنگ ہوتے اور چشم نہ ہوتی تو رنگ بیکار تھے۔ اگر چشم ہوتی اور رنگ نہ ہوتے تو چشم بیکار ہو تی۔ کانوں کو پیدا کیا تاکہ آواز یں سُنے۔ اگر صدا(آواز) ہوتی اور کان نہ ہوتے، آواز بیکار تھی۔ اور اگر صدا نہ ہوتی اور کان ہوتے تو کان بیکار ہوتے۔ حدیثِ ھلیلہ:۔ حدیثِ مذکور ایک وہ خط ہے جو حضرت امام جعفر صادق نے اَثبات توحیدِ خداوندی میں اپنے شاگرد مُفضل ابنِ عمر کو لکھا۔ یہاں اس خط کا صرف وہ حصہ لکھا جا رہا ہے جو اِس موضوع سے متعلق ہے۔ یہ تحریر اِس اَمر کی گواہ ہے کہ ہمارے مذہبی پیشوا’گِیاہ شناسی‘ میں بھی کِس قدر ماہر تھے۔ م
حل حدیث:۔ مُفضل ابنِ عمر جعفی نے اِمام جعفر صادق کو ایک خط لکھا کہ یہاں کچھ لوگ منکرِ خدا،توحیدِ خداوندی اور اسکی رُبوبیت سے اِنکار کرتے ہیں۔ آپ اُنکا جواب حسب مصلحت تحریر فرما دیں۔ جواب:۔بِسمِ اللہ ِ الرَّحْمٰنِ الرَّحِیْمِ۔ خدائے بخشندہ و مہربان ہمیں اپنی اِطاعت کی توفیق عطا فرمائے۔اور اپنی رحمتوں سے نوازے۔تمہارا خط پہونچا، جن منکرینِ خدا کی تم نے شکایت کی ہے، یہ وہ لوگ ہیں جنھوں نے گناہ کے دروازے اپنے لئے کھول رکھے ہیں۔ اور ہر دروازے سے ہواوہوَس کے لشکرِ بے خوف اُن تک پہونچ رہے ہیں۔ خواہشِ نفس اُن پر غالب آ چکی ہے۔ شیطان نے ان کے دِلو ں پر پورا پورا قبضہ جما لیا ہے اور خدا ایسے گناہ گاروں کے قلوب پر مُہر لگا دیتا ہے۔ میں اپنے مناظرات میں سے ایک واقعہ ’ہندی طبیب کا جو اکثر گمراہی کی باتیں کیا کرتا تھا، لِکھ رہا ہوں۔۔۔ ۔۔میں ایک روز اس کی طرف سے گذرا دیکھا کہ وہ ہلیلہ(ہَڑ) کوٹنے میں مشغول ہے، وہ مجھے دیکھ کر پھر وہی جاہلانہ گفتگو کرنے لگاَ ہندی طبیب کا دعوٰی تھا کہ دُنیا ہمیشہ باقی رہے گی۔ ایک دَرخت خشک ہوتا ہے تو دوسرا درخت اُگتا ہے۔ ایک مرتا ہے تو دوسرا پیدا ہوتا ہے۔ اُسکا خیال تھا کہ خدا کا عقیدہ محض ایک دعوٰی ہے جسکی کوئی دلیل موجود نہیں،خدا کا عقیدہ لوگوں نے اپنے بزرگوں سے تقلیدًا حاصل کیاہے۔ وہ یہ بھی کہتا تھا کہ جملہ موجودات مختلف ہوں یا متحد، ظاہر ہوں یا پوشیدہ، وہ حواسِ پنجگانہ سے پہچانے جاتے ہیں۔ اُس نے مجھے دیکھ کر پھر وہی تذکرہ چھیڑا اور کہنے لگا کہ ذرا مجھے بھی تو بتلاوٴ کہ آپ نے اپنے خدا کو کیسے پہچان لیا؟
حالانکہ ہر چیز جسکو قلب پہچانتا ہے۔ حواسِ خمسہ ہی کے ذریعے پہچانی جاتی ہے۔ امام نے فرمایا، اے طبیب ہندی ! مجھ سے وعدہ کر، اگر میں وجودِ خدا کو اِسی دَوا کے ذریعے جسے تو کوٹ رہاہے ثابت کردوں تو تُو وجودِ باری کا اِقرار سچے دل سے کر لے گا۔ طبیب:۔ ہاں میں اِقرار کرتا ہوں امام:۔ کیا تو اس بات کو مانتا ہے کہ ایک زمانہ ایسا بھی گذر ا کہ اُس وقت لوگ طب سے بے خبر اور ان دواوٴں کے فائدے اور ضرر سے ناواقف تھے۔ طبیب:۔ہاں ایسا طویل زمانہ گذرا ہے۔ امام:۔ پھریہ تمام باتیں آدمیوں کو کیسے معلوم ہوئیں؟ طبیب:۔تجربہ اور قیاس سے۔ امام:۔یہ کیسے لوگوں کے دل میں آیا کہ ان کو آزمانا چاہئے۔ اور یہ کیسے سمجھے کہ اشیاء کا تجربہ اور دواوٴں کا عِلم ان کے بدن کے لئے ضروری اور مُصلح ہے حالانکہ حَواسِ خمسہ سوائے تلخی شیرینی وغیرہ کے سوا اور کچھ معلوم نہیں کر سکتے، حواس مفید اور مضر کو نہیں سمجھتے۔ خلاصہ یہ ہے کہ لوگ اسکی حقیقت کیسے پہچان گئے جسکو حَواس کے ذریعے نہیں پہچانا جا سکتا جبکہ سوائے حواس کے اور کوئی معلوم کرنے کا ذریعہ نہیں۔ طبیب:۔ ان تمام چیزوں کو تجربہ اور آزمائش کے ذریعے حاصل کیاگیا ہے۔
امام:۔ کیا ایسا نہیں ہے کہ دوا سازی اور طب کا موجد جو تمام اشیاء کے خواص کو جو مشرق و مغرب میں ہیں بیان کرتا ہے۔ اسکو دانشمند اور مردِ حکیم ہونا چاہئے ان بلاد میں ۔ طبیب:۔ کیوں نہیں، بلکہ اس کو اپنی معلومات دیگر عقلاء اور اہلِ دانش کے سامنے پیش کرنا چاہئے۔ تاکہ انکی رائے سے فائدہ اُٹھا کر اپنے نظریات پر مطمئن ہو سکے۔ امام:۔ معلوم ہوتا ہے۔ تم مرد ِ انصاف پسند ہو، اَپنے وعدے پر قائم ہو۔ اچھا اب یہ بتلاوٴ کہ اس حکیم نے کِس طرح تمام جڑی بوٹیوں کا تجربہ کر لیا۔ اچھا مانا کہ اسنے ان چیزوں کا جو اس کے شہر میں ہیں تجربہ کرلیا تمام دُنیاکی اشیاء کا تجربہ کیسے کیا جبکہ اسکا تجربہ صرف حواس سے نہیں ہو سکتا۔ کوئی عقل اِس بات کو تسلیم نہیں کرسکتی کہ کوئی عاقل دُنیا کا اِتنی قدرت رکھتاہو کہ تمام دُنیا کے گوشہ گوشہ میں گیا ہو اور ہر قسم کے درخت ، گھاس ، پھل پھول اور معدنیات کو آزمایا ہو۔ اُن کی خاصیت اور ترکیب سے واقف ہوا ہو۔
داروي گياهي جو خاصیت اِس دوا میں ہے جو کہ اِس وقت تیرے ہاتھ میں کسی حواس کے ذریعہ ظاہر نہیں ہوئی ہے۔ اور یہ کیسے معلوم ہوا کہ یہ دوا اپنا اثر نہ دکھائے گی۔ جب تک اسکو صحیح اجزاء سے ترکیب نہ دیا جائے۔ مثلًا ہلیلہ(ہڑ) ہندوستان سے ، مصطگی روم سے، مُشک تبت سے، دار چینی چین سے، افیون مصر سے، ایلوہ یمن سے وغیرہ وغیرہ۔ یہ تمام اجزا دُنیا کے مختلف حصوں سے ملتے ہیں۔ یہ کیسے معلوم ہوا کہ ایک کو دوسرے سے نہ ملائیں تو مطلوبہ خاصیت پیدا نہیں ہو سکتی۔ یہ کیسے معلوم ہوا کہ فلاں چیز فلاں مقام پر پیدا ہوتی ہے حالانکہ رنگ ایک جیسا، خاصیت برعکس، اور مقامات متفرق ہیں بعض درخت کے تَنے سے نکلتی ہیں، بعض ریشوں سے، بعض پَتوں سے، بعض پھل پھول سے، بعض ان چیزوں کے رس سے، بعض انکے تیل سے، بعض جوش دینے سے، بعض پختہ، بعض خام، پس یہ کیسے معلوم ہوا کہ کسکو کسطرح استعمال کرنا چاہئے۔ ہر دوا کا اسکے مقام کے لحاظ سے جُداگانہ نام ہے۔اور ہر دوا صرف جڑی بوٹی (بونڈی) ہی پر منحصر نہیں ہے۔ بعض دوائیں درندوں، جنگلی اور دریائی جانوروں کے پِتہ وغیرہ سے حاصل ہوتی ہیں، بعض پہاڑی دَرّوں، پہاڑی چوٹیوں، دریاوٴں کی تہہ سے حاصل ہوتی ہیں۔ بعض ان شہروں سے جہاں کے باشندے، وحشی خونخوار اور ہماری زبان سے بھی بالکل واقف نہیں ہیں، اُن سے حاصل ہوتی ہیں۔ کیا یہ خیال کیا جاسکتاہے کہ ایک حکیم ان تمام شہروں میں گھوما ہو انکی ہر ایک زبان سے واقف ہو۔ ہر ملک و ہر شہر کے باشندوں سے تعلقات رکھتا ہو اور تمام دُنیا کی جڑی بوٹی اور طبی اشیاء کی آزمائش کی ہو۔ اور اپنے سفر میں کامیاب لوٹا ہو۔ نہ بیمار ہواہو، نہ تھکا ہو،نہ بھٹکا ہو، نہ مرا ہو، نہ کچھ فراموش کیا ہو۔ اور اپنے قیاسات میں اس نے کوئی غلطی بھی نہ کی ہو۔اور ہر درخت اور گھاس کی خاصیت معلوم کی ہو۔ اور جسطرح انکو پایا ہو۔ صحیح بیان بھی کیا ہو۔ اور اپنے تجربات کو درست دوسروں تک پہونچا بھی دیا ہو۔ اگر یہ مان بھی لیا جائے کہ یہ سب کچھ ممکنات سے ہے اور تمہارا یہ خیال بھی مان لیا جائے کہ علمِ طب تجربہ سے حاصل ہوا ہے تو یہ بتلاوٴ کہ کیا ایک گھاس کے صرف ایک مرتبہ کے تجربے سے یقین کر لیا جائے کہ اسکی یہ خاصیت ہے نہ کہ اسکا بارہا تجربہ کرنا ہوگا۔ اگرچہ وہ گھاس سَمِ قاتل یعنی فورًا ہلاک کردینے والی ہو۔ اب بتلاوٴ کہ اسکے تجربہ کرنے میں کِتنی جانیں تلف ہوں گی۔ اور کتنے تجربہ کرنے والے اور کتنے وہ جن پر تجربہ کیا گیا ہے دُنیا سے کوچ کر جائیں گے۔
لہذا صرف ایک چیز کے تجربہ کرنے میں ہزاروں جانیں اَوّل ضائع ہوں گی اور پھر بھی وہ چیز یقینی قیاس رہیگی علاوہ اسکے جیسا کہ کہا گیا ہے، دوائیں صرف نباتات پر منحصر نہیں، بہت سی حیوانات کے گوشت و پوست ، خون و اِستخوان سے پرندوں درندوں اور دریائی مچھلیوں سے حاصل ہوتی ہیں۔ پھر کیا یہ صحیح سمجھا جائے کہ ایک حکیم نے نباتات کے علاوہ تمام حیوانات کو ذِبح کرکے اپنا تجربہ مکمل کیا ہے اس صورت میں تو شاید ایک حیوان بھی رُوئے زمین پر باقی نہ رہا ہو گا اور ہاں وہ حیوانات آبی جو دریا کہ تہہ میں ہیں اُن تک رسائی کسطرح ہوئی ہوگی۔ طبیب:۔ خاموش ہے امام:۔ کیا تم یہ بات مانتے ہو کہ مفرد دَوا کا کچھ اور مرکب دَوا کا کچھ اَثر اور ہو جاتا ہے۔ طبیب:۔بے شک ایسا ہی ہے اِمام:۔ پھر اس مفروضہ حکیم کو کِسطرح معلوم کہ کسی مفرد دَوا میں کونسی دوائیں اور کس مقدار کو ملانے سے اسکا اَثر دوسرا ہو جاتا ہے۔ تم خود طبیب ہو دیکھو اگر دَوا کی مقدار اور ترکیب میں ذرا سا فرق ہو جائے تو اسکی خاصیت بدل جاتی ہے اور یہی دَوا جو ایک مریض کو تندرست کرتی ہے دوسرے مریض کو ہلاک کر دیتی ہے۔ پس یہ تمام باتیں حَواسِ خمسہ کے ذریعہ کیسے معلوم ہو سکتی ہیں۔ اور یہ بھی بتلاوٴ کہ جو دَوا اَمراضِ سر کے لئے کھائی جاتی ہے وو پیروں پر اَثر کیوں نہیں کرتی۔ اور جو اَمراضِ پا کیلئے دی جاتی ہے وہ سر میں اثرانداز کیوں نہیں ہوتی یہ تمام دَوائیں مِعدہ میں جاتی ہیں۔معدہ کو کس نے بتلایا کہ اس دَوا کو سَر کیطرف روانہ کرے اور اُس دَوا کو پیر کی طرف طبیب:۔خاموش ہے امام:۔ نے جب اسکو عاجز پایا تو اپنا رُخ اصل موضوع تَوحید کی طرف موڑا، اور وَجود باری کو اس طبیب کو ماننا پڑا۔ مذکورہ بالا گفتگو سے یہ بھی بتلانا مقصود تھا کہ امام جسطرح رُوح کا امام ہے اسی طرح بدن کا بھی ہے۔ وہ برگزیدہ خدا ہونے کی وجہ سے دُنیا کی ہر چیز کی خاصیت اور حقیقت سے بخوبی واقف ہوتاہے کیونکہ خدا نے اِس (امام ) کو عِلم و حکمت سے آراستہ کیا ہے