تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی اہل دنیا اور چشم ِ فلک ہزاروں بار ایسے مناظر دیکھ چکے ہیں کہ جب بھی سرور کونین ۖ کی ذات پر کسی نے بھی گستاخی کی جسارت کی تو کا ئنات کے ایک سرے سے دوسرے تک عاشقانِ رسول ۖ سراپا احتجاج بن گئے اور اپنی جان ہتھیلیوں پر رکھ کر باہر نکل آئے ہر دور میں کر ہ ارض پر ایسے جانثاروں کی تعداد ان گنت رہی ہے جب عاشقانِ رسول ۖ نے اپنی جان بمثل پروانہ شمع رسالت ۖ پر خوشی خو شی قربان کر دی اور تاریخ کے ما تھے پر قیامت تک کے لیے امر ہو گئے۔ میں مسجد نبوی ۖ کے گداز نرم قالین پر بیٹھا مر مریں گنبد سے ٹیک لگا ئے دنیا بھر سے آئے شمع رسالت ۖ کے پروانوں کو حیرت و مسرت سے دیکھ رہا تھا ۔ غیر مسلم اکثر یہ بھول جاتے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک آقا پاک ۖ کے نعلین پاک سے چمٹی گرد کے چند ذرات تاجِ شاہی سے زیادہ قیمتی اور شانِ والے ہیں’ پروانوں کے نزدیک آپ ۖ کا نقشِ کفِ پا سجدہ گاہِ عشق ہے عاشقانِ رسول ۖ چاند ستاروں اور کہکشاں کو آپ ۖ کے قدموں کا غبار سمجھتے ہیں اہل عشق کلیوں کی چٹک پھولوں کی تا زگی اور رعنائی کو تبسم رسول ۖ کا صدقہ گردانتے ہیں اہل اسلام کے نظریئے اور عقیدے کے مطابق آبِ حیات آقا کے تلوئوں کا دھون ہے اور خلعت شاہی آپ ۖ کے لباس کی اُترن ہے یو رپ کے جانور نما انسان یہ سمجھتے ہیں کہ رسول بھی تو خاکی انسان ہی ہو تا ہے۔
اگر اُس کے با رے میں لکھ دیا جا ئے تو اِس سے کو ئی فرق نہیں پڑتا اور جب اہل اسلام کی روح پیارے آقا ۖ کی شان میں گستاخی کرنے پر مضطرب اور تڑپتی ہے تو وہ حیرانی کا اظہا ر کر تے ہیں کہ اِس میں پریشانی والی کو نسی بات ہے یہ اہل یو رپ کی کج فہمی اور شعوری معذوری کی دلیل ہے وہ انسان کو پا نی ہوا اور دھا ت کا آمیزہ اور قوم کو رنگ نسل زبان مخصوص رویوں علاقوں کا مجموعہ سمجھتے ہیں اِسی اپا ہج سوچ کی وجہ سے انہوں نے تہذیب اور انسانیت کے تقدس اور ملت کے حقیقی تشخص کو فراموش کر دیا ہے کیونکہ اہل یورپ کی رگوں میں شراب کباب جنس پرستی اور مادیت پرستی خو ن بن کر دوڑ تی ہے وہ انسان کی بجائے جانوروں کا روپ دھا ر چکے ہیں جہاں نہ بیٹی ہے نہ بہن نہ ماں باپ جانوروں سی زندگی اُن کا وطیرہ بن چکا ہے کھا یا پیا سیکس کیا اور مر گئے اِس لیے وہ تو ہین رسالت جیسے قبیح فعل کو اصل تنا ظر میں دیکھنے کئی زحمت نہیں کر تے اور نہ ہی ہما را یہ مقصد ہے کہ اُنہیں انسان کے بار ے میں نظریئے کی تبدیلی لانے پر مجبور کریں لیکن ہم اہل یو رپ کو بتا نا یہ فرض سمجھتے ہیں کہ کر ہ ارض پر مو جود ہر مسلمان کی نبی کریم ۖ کے بار ے میں کیا سوچ ہے وہ آقا ئے دو جہاں ۖ کے با رے میں کیا عقیدہ رکھتے ہیں دھرتی پر موجود ہر انسان اپنی بقا کے لیے آکسیجن سے سانس لیتا ہے لیکن مسلمانوں کی سانس چلنے کا نام عشقِ رسول ۖ ہے۔ پا نی کسی بھی انسان کے زندہ رہنے کے لیے ناگزیر ہے لیکن مسلمان عشقِ رسول ۖ کی آب و ہوا میں زندہ رہتا ہے ہر انسان آنکھ سے دیکھتا ہے لیکن مسلمانو ں کی آنکھ سرمہ خا ک مدینہ و نجف ہے ہر انسان کی رگوں میں خون دوڑتا ہے اور پہلو میں دل دھڑکتا ہے۔
Hub e Rasool
جبکہ مسلمانوں کے دل کی دھڑکن حُبِ رسول ۖ ہے عام انسانوں کے جسم میں خون گردش کر تا ہے لیکن مسلمانوں کی رگوں نسوں میں سرور ِ دوجہاں ۖ کی محبت گردش کر تی ہے ہر انسان عزت شہرت اور دولت کے حصو ل کے لیے زندگی بسر کر تا ہے جبکہ مسلمان خدا اور رسول ۖ کی خو شنودی کے لیے ماہ و سال کا سفر طے کر تا ہے کر ہ ارض پر موجود کو ئی ایک بھی ایسا انسان نہیں جو اپنی مرضی سے آزادی کی زندگی نہ جینا چاہتا ہو لیکن مسلمان کی شان ملا حظہ ہو مسلمان غلامی رسول ۖ کا طلبگار ہو تا ہے انسان زندگی کی بقا اور موت سے بچنے کے لیے کیا کیا پا پڑ نہیں بیلتا لیکن مسلمان نبی کریم ۖ کی آن اور حرمت کے لیے شہا دت کی آرزو رکھتا ہے ہر انسان نفع اور نقصان کے بارے میں ہمہ وقت متفکر رہتا ہے لیکن مسلمان ہر چیز کو عشقِ رسول ۖ کے ترازو میں تو لتا ہے ہر انسان اپنی ذاتی عزت اور ناموس کی فکر میں رہتا ہے جبکہ مسلمان اپنی جان کو حرمت رسول ۖ پر لٹا دینا اپنے لیے عظیم سعادت سمجھتا ہے اہل یورپ گستاخ رسول ۖ کے واجب القتل ہو نے کے فتوے کو انسانی حقوق کے منا فی قرار دیتا ہے یہ دیکھ کر اہل یورپ اور گوروں کی عقل پر ما تم کر نے کو دل کرتا ہے جو لوگ انسان کو بند ر کی اولاد قرار دیتے ہوں جن کے ہاں کا لے صدیوں تک غلامی کی چکی میں پستے رہے اور آج بھی کالوں کے ساتھ نا روا سلوک عام با ت ہے۔
جن کے ہاں گوروں اور کالوں کے حقوق الگ الگ ہوں وہ کیا جانیں انسانی حقوق اور اُن کی پا سداری انسان کی برابری اور مقدس ہونے کا تصور پہلی بار اسلام نے ہی دیا سرور دو جہاں ۖ نے آکر تمام انسانوں کو ہم رنگ قرار دیا جس نے تمام انسانوں کی تقسیم کو ختم کیا انسان کو اشرف المخلوقات قرار دیا گو رے کا لے اور آقا و بند ہ کی تقسیم کو فساد ِ آدمیت قرار دیا تاریخ کے اوراق گواہ ہیں جب امیر المومنین حضرت عمر حبشی حضرت بلال کو ہما رے سردار کہہ کر بلا تے تھے حضرت علی اور حضرت بلال ساتھ ساتھ چلتے تھے اور اہل دنیا نے حیرت سے دیکھا جب نواسہ رسول ۖ اور اسامہ بن زید سرتاج الانبیاء ۖ کی آغوش میں اکٹھے بیٹھے نظر آئے تاریخ انسانی میں پہلی بار سرور کائنات ۖ نے انسانوں کو برابری کے حقوق دیئے مسلمان جب گستاخ رسول کو واجب القتل قرار دیتے ہیں تو یہ فتوی محض کسی خا ص فرد کے لیے نہیں ہوتا بلکہ قابل مذمت وہ سوچ ہے وہ بغض اور کینہ ہے جو دل میں احترام رسول ۖاور عشق رسول ۖ کو فنا کر نا چاہتا ہے وہ فکر اور منفی ذہنیت ہے جو محسن ِ انسانیت ۖ کی گستاخی کا سوچتی ہے وہ الفاظ وہ قلم واجب القتل ہے جو سرتاج الانبیاء ۖ کی شان کے خلاف لکھتا ہے اور وہ زبان واجب القتل ہے جو سرور کو نین ۖ کے خلاف بکتی ہے اہل یو رپ گستاخی سے پہلے یہ بلکل بھول جا تے ہیں کہ رسول اقدس ۖ صرف مسلمانوں کے ہی محسن نہیں ہیں۔
Muhammad PBUH
بلکہ آپ ۖ تو تمام انسانیت کے محسن اعظم ہیں آپ ۖ ہی تو ہیں جنہوں نے حقوق ِ انسانی کا درس پہلی بار دیا نا موس ِ آدمیت کی با ت کی اور انسان کی حرمت کو کعبے سے بھی افضل قرار دیا انسان کو رازِ الٰہی قرار دیا یتیموں کا آسرا بن کر آئے عورتوں غلاموں کو زندہ درگور ہو نے سے بچایا ایسے عظیم پیغمبر کی تو ہین وقار انسانی کی تو ہین ہے ناموسِ آدمیت پر حملہ شرف آدم کی گستاخی ہے حضرت عمر فاروق اعظم آپ کس کے پرورش کئے ہو ئے تھے جن کے با رے میں اہل یو رپ خو د کہتے ہیں کہ حضرت عمر جیسا عادل حکمران کر ئہ ارض پر آج تک کو ئی اور نہیں آیا گستاخ رسول ۖ ہمیشہ بھول جا تے ہیں کہ مسلمانوں کے نزدیک دیا ر حیبب ۖ کے کو چے جنت کے باغیچے ہیں بلکہ اہل عشق تو ہر اُس شخص کو اپنا امام سمجھتے ہیں جو آقا ۖ کی گلی کا گداہو یو رپ یہ سمجھتا ہے کہ اگر کسی طرح مسلمانوں کے دلوں سے عشق ِ رسول ۖ کا جذبہ نکال دیا جا ئے تو یہ راکھ کا ڈھیر بن جائیں گے اور ہمیشہ کے لیے غلاموں کی صف میں شامل ہو جائیں گے۔
عرصہ دراز سے یو رپ اور امریکی مسلمانوں سے عشقِ رسول ۖ کا جذبہ چھیننا چاہتے ہیں لیکن یو رپ کو یہ یاد رکھنا چاہیے کہ مسلمان اپنے ہر معا ملے دولت اولاد شہرت اقتدار سے غافل ہو سکتے ہیں لیکن جب بھی حبِ نبی ۖ اور حرمت ِ نبی ۖ کی با ت آئے گی تو یہ سینہ تان کر کھڑے ہو جا ئیں گے کیونکہ حرمت رسول ۖ کے لیے کر ہ ارض پر موجود ہر بچہ اور بو ڑھا مسلمان کسی بھی لمحے اپنی جان ہتھیلی پر رکھ سکتا ہے کیونکہ یہ تو وہ متاع ِ حیات ہے جس کے سہا رے مسلمان زندہ ہیں ورنہ یہ زندگی تو جانوروں سے بھی بد تر ہو جا تی ہے عشقِ رسول ۖ ہر مسلمان کے خمیر اور روح میں موجود ہے۔
اِک عشقِ مصطفی ۖ ہے اگر ہو سکے نصیب ورنہ دھرا ہی کیا ہے جہان خراب میں
Professor Mohammad Abdullah Bhatti
تحریر: پروفیسر محمد عبداللہ بھٹی ای میل: help@noorekhuda.org فون: 03004352956 ویب سائٹ: www.noorekhuda.org فیس بک آفیشل پیج: www.fb.com/noorekhuda.org