ہم جس معاشرے میں سانس لے رہے ہیں وہ بنیادی طور پر مذہبی رنگ میں رنگا ہوا ہے۔ہمیں ہر سو مذہبی فضا کا دور دورہ نظر آتا ہے اور چند مخصوص نعروں ، جملوں اور فقروں کا ورد ہر ایک کی زبان پر جاری و ساری رہتا ہے ۔شائد اس طرح کی رنگ بازی سے مخصوص افراد کے پندارِ نفس کی تسکین ہو جاتی ہے یا پھر مذہبی پیشوائوں نے انھیں اسی طرح کے اظہاریے کی تربیت دے رکھی ہوتی ہے۔ایسے افراد مذہبی معاملے میں انتہائی جذباتی ہوتے ہیں اور اپنے کسی فقہی مخالف کو سانس لینے کا موقعہ دینے کیلئے تیار نہیں ہوتے۔ وہ زود رنج ہونے کے ساتھ ساتھ متشدد بھی ہوتے ہیں اور دوسروں کی زندگی کا چراغ گل کرنے یا انھیں جان سے مار دینے سے در یغ نہیں کرتے۔ جب اس طرح کی شدت پسندی حقیقی اسلام کہلائے گی تو کون ہو گا جو ایسے افعال سے دست کش ہو گا؟ در اصل مختلف مکتبہ ہائے فکر نے اپنی اپنی جماعتیں تشکیل دے رکھی ہیں اور ان میں جو شہ ( پرا ڈکٹ )تیار ہوتی ہے اسے عدمِ برداشت کا سبق پڑھایا جاتا ہے۔عدمِ برداشت کے معنی معاشرے کو یرغمال بنانے کے مترادف ہوتے ہیں۔مکالمہ ،ڈائیلاگ اور مذ اکرات کا متشدد گروہوں کی لغت میں کوئی وجود نہیں ہوتا لہذا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ معاشرہ جمود کا شکار ہو جاتا ہے اور مختلف فقہی دیواریں معاشرے کی تقسیم کا باعث بن جاتی ہیں ۔ جس معاشرے میں نئے نظریات، خیالات اور رحجانات کیلئے جگہ نہ ہو وہ معاشرہ جامد ہو جاتا ہے ۔علامہ اقبال نے اپنے خطبات (تشکیلِ جدید الہیات ) میں اجتہاد کی ضرورت پر زور دیا تھالیکن ان کی بات کو در خورِ اعتناء نہ سمجھا گیا کیونکہ اس سے مختلف گروہوں کے مفادات اور دکانداری پر زد پڑتی تھی ۔یہ دور مفادات کا دور ہے لہذا کوئی بھی گھاٹے کا سودا نہیں کرنا چاہتا۔بڑے لوگوں کی بات نہ سننے کا نتیجہ یہ ہوتا ہے کہ معاشرہ ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہو جاتا ہے ۔ اجتہاد سے صرفِ نظر نے ہمارے معاشرے کی بنیادی کھوکھلی کر دی ہیں لیکن ہم پھر بھی اس جانب مراجعت کرنے کی بجائے فضا میں ٹامک ٹوئیاں مار رہے ہیںجس کا کوئی نتیجہ بر آمد نہیں ہو سکتا ۔،۔
ایک طرف تو شدت پسندی کی یہ کیفیت ہے لیکن دوسری طرف جب اعلی اوصاف کا ذکر کر یں تو ہمیں یہ جان کر مایوسی ہو گی کہ قوم اس معاملہ میں بالکل بانجھ ہو چکی ہے۔جس معاشرے میں مساجد کی پانی والے گلاسوں اور وضو والی ٹوٹیوں کو زنجیروں سے باندھ کر حفاظت کی جاتی ہو اس سے بڑھ کر کردار کے فقدان کا مظاہرہ اور کیا ہو گا؟اللہ کے گھر میں نقب لگانے والوں سے معاشرہ بھرا پڑا ہو تو ہمیں سوچنا ہو گا کہ ہم کس سمت میں جا رہے ہیں۔ سوال صرف مسجد کا نہیں ہے بلکہ ہم عملی زندگی میں بھی روز لوٹ مار اور ڈاکہ زنی کے واقعات کا مشاہدہ کرتے رہتے ہیں۔ تھانے میں رپورٹ لکھوانے کا صلہ یہ ملتا ہے کہ ملزم کو پکڑنے کی بجائے اس کی پشت پناہی کی جاتی ہے،اس سے سودا بازی کی جاتی ہے اور اسے تحفظ فراہم کیا جاتا ہے۔چوری شدہ مال ملنا تو بہت دور کی بات ہے الٹا جیب سے کچھ دے کر جان چھڑانی پڑتی ہے۔ایسے محسوس ہو تا ہے کہ جیسے ملزم و ہ شخص ہے جس نے رپورٹ درج کروائی ہے۔
تھانے جرائم کے اڈے بن چکے ہیں۔وہ کھلے عام بکتے ہیں اور خریدنے والے کوئی اور نہیں ہمارے ہی بھائی بند ہو تے ہیں۔تھانہ کلچر خوب پھل پھول رہا ہے اور غریب،مسکین،لاچاراوربے بس لوگ اس کا ایندھن بن رہے ہیں ۔ زور آور کھلے عام جرائم کرتے ہیں لیکن ان سے باز پرس کرنے والا کوئی نہیں ہوتا بلکہ ان کے سامنے سرِ تسلیم خم کیا جاتا ہے ۔سچ کو سچ کہنے والا کوئی ایک فرد بھی کہیں نظر نہیں آتا۔اگر انصاف کیلئے ایک آواز گونجے گی تو پھر شائد دوسری کئی آوازیں بھی اس کی ہمنوا بن جائیں گی لیکن یہاں تو لق دق صحرا ہے جس میں چلچلا تی دھوپ کے سوا کچھ بھی نہیں ہے۔قانون کی چھتری یا انصاف کے سائے کا صحرا میں کیا کام؟ گواہوں کو عدالتوں میں قتل کر دیا جاتا ہے، استغاثہ کو اسلحے کے زور پر یر غمال بنا لیا جاتا ہے۔اغوا برائے تاوان اور بھتہ کی وارداتیں دن دھاڑے ہو تی ہیں لیکن قانون خاموش تماشائی بنا سب کچھ دیکھتا رہتا ہے کیونک واردات کے ڈانڈے قانون کے محافظوں کے گھروں تک جاتے ہیں۔بے شمار واقعات میں پولیس بھیس بدل کر عوام کو لوٹتی ہے ۔ چوکیدار چور بن جائے تو معاشرہ تباہ ہو جاتا ہے۔جس کھیت کو باڑکھانے لگ جائے وہاں اناج کیسے اگ سکتا ہے۔؟
ہاں بات اگر گفتار کا غازی بننے کی ہے تو پھر ہمارا مقابلہ کوئی قوم نہیں کر سکتی ۔ہماری سوسائٹی گفتار میں تو بے مثل ہے جبکہ کردار کی میزان بالکل خالی ہے۔کردار کا غازی اور گفتار کا غازی دو الگ دنیائیں ہیں جن میںبعدالمشرقین ہے لیکن فتح یاب کردار کا غازی ہی ہو تا ہے۔چوراہوں،منڈھیروں،دکانوں ،کھوکھوں اور گلی محلوں میں ترقی یافتہ اقوام کو ایسی بے نطق سنائی جاتی ہیں کہ انسان شسدر رہ جائے۔ہمارا کشکول دنیا بھر میں مشہور ہے۔کاسہِ گدائی ہماری پہچا ن ہے ۔سائنسی اور عقلی دنیا میںہمارا کوئی تھاں ٹھکانہ نہیں ہے۔ہم امداد اور قرضوں کی لعنت میں جکڑے ہوئے ہیں ۔بجٹ خسارہ کل قومی آمدنی کا ٨٤ فیصد ہے لیکن ہمارے دعوے مریخ کو فتح کرنے اورچاند کی تسخیر سے کم نہیں ہیں۔صاف پانی کی جگہ آلودہ پانی پی پی کر ہمارے اوسان خطا ہو چکے ہیں ۔ بے روزگاری نے عوامی زندگی اجیرن بنا رکھی ہے۔
مہنگائی نے عوام سے ان کی سانسیں چھین لی ہیں لیکن دعوے پھر بھی تونگری اور آسو دگی کے ہیں۔کاش کوئی راہنما گلی کوچوں میں جا کر دیکھے کہ قوم کس حال میں ہے تو اسے سمجھ آ جائے کہ وہ کس خیالی دنیا میں رہ رہا ہے؟مصائب کے بوجھ سے قوم کی کمر دھری ہو گئی ہے لیکن ہمارے حکمرانوں کے نعرے،باہمی لڑائیاں اور سر پھٹول ختم ہونے کا نام نہیں لے رہے ۔ایک دوسرے کو نیچا دکھانے کی دوڑ میں قومی یکجہتی تباہ و برباد ہو کر رہ گئی ہے اگر قوم متحد ہو جائے تو وہ پہاڑوں کا سینہ چیرنے کے ساتھ ساتھ دریائوں کا رخ بھی موڑ دیتی ہے ۔ قومی یکجہتی ترقی کی بنیاد ہو تی ہے لیکن ہمارے قائدین اس بنیاد کو اپنے ہاتھوں سے منہدم کر رہے ہیں۔
ہو سکتا ہے کہ کسی جوتشی نے انھیں بتایا ہو کہ تمھاری کامیابی باہمی سر پھٹول میں ہی پوشیدہ ہے لہذا وہ اسی پر عمل پیرا ء ہیں۔ہمارے حکمران توہم پرست بھی ہوتے ہیں لہذا لا یعنی باتوں پر عمل کرنے میں پس و پیش نہیں کرتے ۔سچ تو یہ ہے کہ کوئی قوم جب تک قانون و انصاف پر چلنے کی پابند نہیں ہو گی وہ ترقی نہیں کرسکتی ۔ قانون کا اطلاق جب تک کمزور اور طاقتور پریکساں نہیں ہو گا ہمارا معاشرہ کبھی نہیں بدل سکے گا۔قانون کی عملداری ہی ہمیں ایمانداری اور سچائی کی جانب لے جانے کی سکت رکھتی ہے ۔جب ہر شخص کو یقین ہو گا کہ اس کے ساتھ انصاف ہو گا تو پھر اس کے اندر خود اعتمادی پیدا ہو گی کہ یہاں سچ کو سنا جاتا ہے ۔ انصاف کیا ہے سچائی کی فتح ۔اگر جھوٹ نے ہی دھن دولت اور طاقت کے زور پر انصاف کے پلڑے کو جھکا لینا ہے تو پھر اس طرزِ عمل کو انصاف کون کہے گا؟ جب سب قانون کی عملداری میں آ جائیں گے تو پھر کسی کا بڑایا چھوٹا ہونا،کمزوریا طاقتور ہونا ، امیر یا غریب ہونا اسے قانون کی گرفت سے بچا نہیں پائیگا تو سمجھ لو معاشرہ بدل گیا۔یورپ نے یہی کیا کہ قانو ن و انصاف کی حکمرانی کو یقینی بنایا اور اسے بلا تخصیص اور بلا رو رعائت سب پر یکساں لاگوکر دیا ۔وہاں وزیرِ اعظم بھی قانون کی خلاف ورزی کا مرتکب ہوتا ہے تو اسے بھی سزا ملتی ہے۔وہاں اشیاء سڑکوں پر پڑی ہوتی ہیں لیکن کوئی ہاتھ نہیں لگاتا۔بات ایمان کی نہیں ہے۔بات ایمانداری کی ہے جو پوری انسانیت کا اثاثہ ہے ۔دیانت داری کیلئے کسی ایمان کی ضرورت نہیں ہوتی اس کے لئے ضمیر کا زندہ ہونا ضروری ہوتا ہے اور شائد ہمارے ضمیر مردہ ہو چکے ہیں۔،۔
Tariq Hussain Butt
تحریر : طارق حسین بٹ شان (چیرمین) مجلسِ قلندران اقبال۔۔