پاکستانی عوام خاص طور پر پڑھے لکھے متوسط طبقہ کے لئے یہ انتہائی موزوں وقت ہے کہ وہ اپنے ضمیر کی آواز پر کان دھریں۔ اور اس کے مطابق کام کریں۔ ضمیر انسان میں کسی غیبی طاقت کے مماثل ہوتا ہے۔اس وقت پاکستانی عوام میں بے حد دولت مند اور بے حد غریب دونوں قسم کے لوگ موجود ہیں جس کا تذکرہ کئی تحقیقاتی رپورٹ میں بھی سامنے آ چکاہے۔یہ عجیب بات ہے کہ پاکستانی قوم کی اکثریت غریب اور متوسط طبقہ سے تعلق رکھتی ہے مگر حکمرانی امیر لوگوں کے ہی حصے میں آتی ہے ۔ اور چونکہ امیروں نے کبھی غریبی دیکھی ہی نہیں ہوتی تو انہیں غریبوں کا احساس کیونکر ہو سکتاہے کہ وہ کن مسائل سے دوچار ہوتے ہیں۔ زندگی کی گاڑی کو کھینچنے کے لئے کن کن مسائل سے گزرنا پڑتا ہے۔کاش کہ حکمرانوں کو اپنے ملک کے من حیث الکل اپنے عوام کا احساس ہو جائے۔
کیونکہ مجموعی طور پر ہماری قوم انتہائی کسمپرسی اور غربت کی لکیر سے نیچے زندگی گزار رہے ہیں۔اس تضاد کا تجزیہ کرنے بیٹھا جائے تو یقینا ایک کتاب وجود میں آ سکتی ہے۔ پاکستان کے غریب عوام کو عا م شکایت یہ ہے کہ انہیں زندگی کی دوڑ ہر قدم اور ہر سطح پرامتیازی سلوک کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ اس کے لئے سیاست دانوں کی منافقت اور وہ بحران ذمہ دار ہے جو حکومت کے مختلف فلاحی پروگرام پر عمل در آمد میں بد دیانتی سے پیدا ہوتا ہے۔ ملک کے تمام عوام کو ووٹ بینک تو سمجھا جاتا ہے مگر جب اقتدار مل جائے تو ہر حکومت یہی کہتی ہے کہ تمام وسائل ورثے میں ملے ہوئے ہیں اور خزانہ خالی ہے اس لئے اُمید نہ باندھا جائے۔ ارے جناب! یہ تمام باتیں توآپ سب کو الیکشن سے پہلے ہی معلوم ہوتی ہیں پھر اتنے تگڑے تگڑے وعدے وعید کیوں کرتے ہیں جو بعد میں پورا کرنا مشکل ہو جائے۔
انتخابات سے قبل عوام کو خوب خوب سبز باغ دکھائے جاتے ہیں اور ہر قسم کی لالچ دی جاتی ہے جس میں ان کے لئے تحفظات فراہم کرنے اور مسائل حل کرنے کا دھوکہ بھی شامل ہوتا ہے ۔چونکہ ہم سب بہت سیدھے سادھے عوام کے زمرے میں شمار کئے جاتے ہیں اس لئے ہر بارنئے وعدے کے بھینٹ چڑھ جاتے ہیں اور مسئلہ جوں کا توں ہی رہتا ہے۔ وہ کہتے ہیں ناکہ ”کھودا پہاڑ اور نکلا چوہا ” بس اس عوام کی مثال اس محاورے پر ہی صادق آتی ہے۔ ہمارے ہونہار نوجوان روزگار حاصل کرنے کے لئے مار ے مارے پھرتے نظر آتے ہیں اور ہر نوجوان کی یہی شکایت ہے کہ کوئی اچھی جاب نہیں ملتی۔ میں تو کہتا ہوں کہ اچھی جاب کیا ادنیٰ نوکری بھی ملنا یہاں مشکل ہی نہیں ناممکن ہی دکھائی دیتاہے۔ پھر بھی نوجوانوں کا جذبہ ہے کہ وہ ہمت نہیں ہارتے اور کوشش میں سرگرداں نظر آتے ہیں کہ شاید کبھی کامیابی ان کا مقدر بن جائے۔ملک میں ہر طرف اندھیرا چھایا ہو ہے۔
Load Shedding
یہ اندھیرا صرف لوڈ شیڈنگ کاہی نہیں ہے بلکہ معاشی اندھیرا ،امن و امان کا اندھیرا، اور دیگر مسائل میں بھی اندھیروں کا راج ہے۔ ملطب یہ کہ عوام کی زندگی میں ہی اندھیراکر دیا گیا ہے۔ صرف بجلی کو ہی لے لیں جب چلی جاتی ہے تو ہر طرف اندھیرے کا راج ہوتاہے سوائے اُن امیر وں اور اربابِ اختیار وں کے محلات کے علاوہ کیونکہ وہاں تو ہیوی ڈیوٹی جنریٹر فوراً آن کر دیا جاتا ہے اور وہاں روشنی بکھر جاتی ہے مگر غریبوں کے یہاں اندھیروں کا ہی بسیرا رہتا ہے تاوقتیکہ بجلی بحال نہ جائے۔ کل ہی ٹی وی پر ایک پروگرام آن ائیر تھا ”ہم لوگ ” اس میں ایک شخص ببانگِ دہل یہ بتا رہا تھا کہ حکمرانوں کو لائیٹ جانے سے کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ ان کے پاس بہت جدید قسم کے جنریٹر دستیاب ہوتے ہیں مگر غریب اگر کسی طرح ایک ادنیٰ سا جنریٹر اپنی جمع پونجی سے خریدبھی کرلیتاہے تو اسے استعمال کرنے میں ہی پریشانی کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔
جب وہ گیس سے جنریٹر استعمال کرتا ہے تو افسران کی ٹولیاں وہاں پہنچ جاتی ہیں اور انہیں منع کیا جاتا ہے کہ گھریلو جنریٹر کو گیس پر چلانا جرم ہے ، اسے بند کرو ورنہ بھاری جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا۔کیا کسمپرسی ہے اس ملک میں یعنی کہ اگر انہیں کچھ دے دلا دیا گیا تو ٹھیک ورنہ جرمانوں کی سزا تو برقرار ہے ہی۔ حکومت بھی اگر مطلوبہ سیاسی عزم سے کام کرے تو عوام کی مقصد براری پوری ہو سکتی ہے۔اور چونکہ نئی حکومت کی باتوں سے محسوس ہوتاہے کہ وہ عوام کے لئے کچھ کرنا چاہتی ہے اس لئے ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ اپنی عوام کے لئے نئے نئے چراغ اور نئی روشنی کا انتظام کریں۔
کیونکہ یہی عوام اور یہی قوم جو سوئی ہوئی لگتی ہے اگر جاگ جائے تو اپنے ملک کے لئے حیرت انگیز کارنامے انجام دینے کی اہلیت رکھتی ہے۔بقول ڈاکٹر محمد علامہ اقبال کے: عقابی روح جب بیدار ہوتی ہے جوانوں میں نظر آتی ہے ان کو اپنی منزل آسمانوں میں الیکشن ہو چکے اور عوام نے اپنا اپنا حقِ رائے دہی اپنے اپنے پسندیدہ لوگوں کے حق میں دے دیا۔اب ان پسندیدہ لوگوں کا فرض ہے کہ ایمانداری سے عوام کی بھلائی کے لئے سرگرداں ہو جائیں۔ کیونکہ اب صرف عقابی بیان بازی کا زمانہ نہیں ہے عوام کو تبدیلی نظر آتی ہے ۔اور اگر تبدیلی کی طرف عوام اور اس ملک کا سفر شروع نہیں ہو توپچھلی حکومتوں کا عوامی عتاب آپ سب کو یاد ہی ہوگا۔
Election
لوگ سڑکوں پر آنے میں دیر نہیں لگاتے۔ جیسا کہ میں نے اوپر ذکر ہے کہ ہماری عوام بہت سیدھی سادھی مگر پُر عزم ہے اس لئے جب ان کے حالات بدلتے ہوئے نظر نہیں آئیں گے تو وہ پھر کسی بھی بات پر ہاں میں ہاں کرتی ہوئی سڑکوں پر آنے میں ذرا بھی تعامل نہیں کرتی۔خدا کرے کہ وہ دن نہ آئے اور نئی حکومت ملک میں تبدیلیوں کا انبار لگا دے۔ کیونکہ کسی کا کسی سے چاہے جتنا اختلاف ہو مگرجب عوامی سیلاب نے فیصلہ دے دیا سُو دے دیا۔ اب سب کو یہ دھاندلی کا رونا رونے کے بجائے ملک کی تعمیر کی کوششوں میں شریک ہوناچاہیئے۔ اور نئی حکومت کو بھی چاہیئے کہ وہ تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ ملاکر ملک کی بہتری کے لئے اور عوامی کی بہتری کے لئے کام سر انجام دیں۔
ویسے بھی بقول نواز شریف کے جو انہوں نے شوکت خانم میموریل اسپتال میں کہا تھا:گو کہ یہ بات تو اٹل ہے اور حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان بھی ہے کہ تین دن سے زیادہ ناراض نہیں رہنا چاہیئے۔اس لئے انہیں اس بات پر مکمل عمل در آمد کرنا چاہیئے اور تمام جماعتوں کو اپنے ساتھ ملا کر حکمرانی کرنی چاہیئے تاکہ عوامی مسائل مکمل نہیں تو کچھ حد تک ضرور حل ہوں۔ورنہ تو پچھلے پانچ سال جو کچھ اسمبلیوں میں ہوا اس کی مثالی ترجمانی تو صرف یہ شعر ہی کر سکتاہے۔ شور غوغا ناز و انداز حماقت دیکھئے لیڈروں کی آج پھر اوچھی سیاست دیکھئے دھجیاں کیسے شرافت کی اڑاتے ہیں یہ لوگ منظرِ اجلاسِ ایوانِ حکومت دیکھئے اس شعر کے بعد صورتحال اور اشکال واضح ہو گئی ہے اور سب کہ سمجھ میں بات بھی آگئی ہے اس لئے اختتامِ کلام بس اتنا کہ یہ ملک اور یہ قوم بس ایک آئینہ ہے جو تصویر کے مقابل ہے۔ ہم اس ملک کو جیسا بنانا چاہیں گے ویسا ہی بن سکتاہے لیکن شرط یہ ہے کہ نیت میں خلوص، ایمانداری، عوام سے پیار کی چاشنی اس میں شامل کی جائے تو منزل آسان ہو جائے گی۔ اور آپ اگلے پانچ سال بعد بھی سرخرو اور بری الذمہ قرار پائیں گے۔ تحریر: محمد جاوید اقبال صدیقی