اکاش سیاست پر عالمگیر شہرت کے افتاب کی طرح جگمگانے والی جنوبی پنجاب کی تحصیل کوٹ ادو کی دو قومیna 176 اورna177اور 4صوبائی نشتوں pp250 pp 251pp 252pp 253پر نظریں جمائے ہوئے سیاسی گرگوں نے عوامی رابطہ مہم کا اغاز کردیا ہے۔ جیالے متوالے پر جوش دکھائی دیتے ہیں۔ppp نے ان سیٹوں پر اپنے امیدواروں کی قسمت کا فیصلہ کردیا ہے ۔ قومی اسمبلی کے حلقہ نمبر177 سناواں گجرات محمود کوٹ سے سابق وزیرخارجہ حنا ربانی کھر اور انکے والد سابق صوبائی وزیر اور سابق ایم این اے ملک غلام محمد نور ربانی کھر نے پی پی پی کے پلیٹ فارم سے کاغذات نامزدگی داخل کروائے ہیں۔
سناواں کوٹ ادو اور چوک منڈا کی صوبائی نشستوں پر pppنے سابق mpaملک بلال کھر بیرسٹر یوسف ہنجرا اور سابق mpa احسان الحق نولاٹیہ کو کنفرم کردیا ہے ۔na177 پر نور ربانی کھرppp سابق تحصیل ناظم ملک رفیق کھر ن لیگ سابق گورنرمصطفی کھر فنگشنل لیگ اورپی ڈی ائی کے رانا محبوب اور ازاد امیدوار خالد گورمانی اور ex mna جمشید خان دستی کے درمیان کانٹے دار دنگل ہوگا۔ صوبائی سیٹوں پر ن لیگ اور ppp کے درمیان معرکہ ارائی ہوگی۔
سناواں کی صوبائی سیٹ pp251 پراصل مقابلہ ex mpa انجینیر بلال کھرppp ن کے طارق گورمانی کوٹ ادو سے سابق ex mpaاحمد یار ہنجرا اور بیرسٹر یوسف ہنجرا چوک منڈا سے ex mpa احسان نولاٹیہ ڈاکٹر یونس اور لیگ کے مرتضی رحیم کھر کے درمیان ہوگا۔ کوٹ ادو سے قومی کی دوسری نشستna176 پر چار معروف نام پنجہ از مائی کریں گے جن میں ppp کے ڈاکٹر شبیر علی قریشی لیگ کے ارشد عباس قریشی فنگشنل کے ملک غلام مصطفی کھر ہنجرا گروپ کے ملک قاسم ہنجرا شامل ہیں۔
پی پی پی کے علاوہ تینوں امیدوار ارشد عباس قریشی مصطفی کھر اور ملک قاسم ہنجرا ن لیگ کی ٹکٹوں کے دعوے کررہے ہیں۔ تاہم ن لیگ نے ابھی تک اپنا امیدوار فائنل نہیں کیا۔ قومی نشست na 176کوٹ ادو سٹی دائرہ دین پناہ احسان پور بھاگل چوک منڈا اور رنگ پور پر مشتعمل ہے۔1985 میں اس سیٹ پر ملک مرتضی کھر1988 تا1993 تکex گورنر و چیف منسٹر پنجاب غلام مصطفی کھر تین مرتبہ کامیاب ہوئے۔
1997 میں مصطفی کھر کی ضمانت ن لیگ کے میاں غلام عباس قریشیex سینیٹر نے ضبط کروادی۔2002 اور2008 میں na 176 سے ppp کے علیل ضلعی صدر مظفرگڑھ محسن علی قریشی ex mnaنے سابق ڈسٹرکٹ ناظم سلطان ہنجرا کے داماد ملک قاسم ہنجرا اور غلام عباس قریشی کے فرزند ارشد عباس ن لیگی کو ہرا کر کامیابیوں کے جھنڈے گاڑھے۔ امدہ الیکشن میں قومی سیٹ na 176پر تینوں بزرگ سیاست دانex گورنر و وزیراعلی پنجاب ملک مصطفی کھرex mna غلام عباس قریشی اور سلطان ہنجرا قسمت ازمائی کریں گے۔
Benazir Bhutto
غلام عباس قریشی اپنے فرزند ارشد عباس جبکہ سلطان ہنجرا اپنے داماد کو اقتدار کے ایوانوں میں بھیجنے کے لئے بے قرار ہیں۔کھر صاحب ماضی میں زیڈ اے بھٹو اور بعد ازاں بنظیر بھٹو کے وفادار رہے ۔قائد عوام نے 1973 میںکھر کو پنجاب کا حکمران بنایا مگر شیر پنجاب بھٹو کو جرنیلوں کی قید میں اکیلا چھوڑ کر خود یورپ میں رفو چکر ہوگئے۔ انہوں نے جتوئی سے ملکر نئی سیاسی جماعت بھی کھڑی کی مگر پر نالہ زیرو پر رہا۔ شہیدبی بی نے دوسرے دور میں انکل کھر کو واپڈا کا منتری بنایا مگر جونہی لغاری نے ppp کی پیٹھ میں چھرا گھونپا کھر صاحب نے بی بی کو چھوڑ دیا۔
کوٹ ادو کی عوام نے بے وفائی کا ایسا مزہ چکھایا کہ 1997 میں ضمانت ضبط ہوگئی اور اج تک کامیابی ان سے روٹھی ہوئی ہے ۔ سیاسی پیرانہ سالی میں کھر صاحب پنجاب میں فنگشنل لیگ کے پیرپگاڑہ بننے پر مجبور ہیں اور وہ کوٹ ادو میں پیر پگارو کی سفارش پر ن لیگ کا ٹکٹ لینے پر لرزاں و ترساں ہیں مگر سچ تو یہ ہے کہ na 176پر حقیقی مقابلہ پی پی پی کے نیو جری کمانڈر ڈاکٹر شبیر علی قریشی اورن لیگ کے میاں غلام عباس قریشی اور ہنجرا گروپ کے مابین ہوگا۔ کوٹ ادو کی قومی نشست کی تاریخ کھنگالی جائے تو ایک حقیقت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔
عوام نے ہمیشہ میرٹ کی بنیاد پر ووٹ دئیے ہیں۔گزشتہ دونوں الیکشن میں تاریخ ساز کامیابیاں سمیٹنے والےppp کے محسن علی قریشی پچھلے چار سالوں سے پمز ہسپتال اسلام اباد میں برین ہیمرج کا روگ لئے بستر علالت پر ہیں۔ اسی تناظر میں پی پی پی کا ٹکٹ انکے جانشین بیٹے ڈاکٹر شبیر علی قریشی کو الاٹ کیا ہے جنکی عمر بمشکل26 سال ہے۔ صدر مملکت زرداری صاحب نے محسن علی قریشی کی اہلیہ اور ڈاکٹر شبیر علی کی والدہ خالدہ محسن قریشی کو سینٹ کے الیکشن میں کامیاب کروایا تھا۔
تحصیل کوٹ ادو میںاسمبلیوں کی تحلیل کے بعد خالدہ محسن قریشی واحد سیاسی شخصیت ہیں جنکے ہاتھ میںاقتدار کا ہیوی ویٹ عہدہ سینیٹر موجود ہے۔ ڈاکٹر شبیر علی قریشی کو سینیٹ کی ممبر شپ کا بھرپور ایڈوانٹیج ملے گا۔ ملک غلام مصطفی کھر پنجاب کے گورنر سے لیکر چیف منسٹر اور وفاقی وزارتوں پر براجمان رہے مگر المیہ تو یہ ہے کہ وہ اپنے دور اقتدار میں کوٹ ادو کو کوئی ایک ادھاایسا تاریخ ساز پراجیکٹ دینے میں ناکام رہے جو اج انکی نیک نامی و عوامی حمایت کا سبب بنتا۔
غلام عباس قریشی چیر مین ضلع کونسل مظفرگڑھ جبکہ ہنجرا گروپ کے قائد سلطان محمودضلع ناظم کے اہم عہدوں پر فروکش رہے مگر دونوں رہنماوعدوں کے باوجود کوٹ ادو کے دو68 سالہ اجتماعی مسائل حل کروانے میں ناکام رہے۔ ہیڈ محمد والہ کی تعمیر مظفرگڑھ کینال کی پختگی اور چوک منڈا میں سوئی گیس کے مطالبات کی باز گشت ہر دور میں زور شور سے کہی اور سنی جاتی رہی۔
Pervez Musharraf
مرتضی کھر ex ایم این اے 1985سے لیکر مصطفی کھر3 199تک اور میاں غلام عباس قریشی1997 سے لیکر مشرف دور کے اولین ضلع ناظم مظفرگڑھ تک ہر لیڈر نے تینوں پراجیکٹس کے لولی پاپ تو سنائے مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات نکلا۔ رب العالمین نے تینوں پراجیکٹس کی کامیاب تکمیل کا سہرا محسن علی قریشی ex mnaکے سر باندھا۔ گو وہ خود 2009 سے پمز ہسپتال میں بستر علالت پر ہیں مگر انکے فرزند ڈاکٹر شبیر علی قریشی نے ناتجربہ کاری اور کم عمری کے باوجوex pmیوسف رضا گیلانی اور صدر مملکت کی دستگیری سے ایسے کارہائے نمایاں سرانجام دئیے جو اعلی او ارفع شاہی عہدوں پر فائز بزرگ سیاست دانوں کی قسمت کا سکندر نہ بن سکے۔
ڈاکٹر شبیر علی کی کاوشوں نے 7 ارب روپے کی لاگت سے ہیڈ محمد والہ کی تعمیر کو حقیقت میں ڈھال دیا۔ ہیڈ محمد والہ کی تعمیر سے ملتان کوٹ ادو کا فاصلہ تین گھنٹے سے گھٹ کر40 منٹ تک ان پہنچا۔ سینیٹر خالدہ محسن علی قریشی نے صدر مملکت سے 11 ارب روپے کا فنڈ حاصل کیا جو ہیڈ تونسہ بیراج سے نکلنے والی مظفرگڑھ کینال کی پختگی پر خرچ ہورہا ہے۔ مظفرگڑھ کینال نے قیام پاکستان سے ہی 3لاکھ ایکڑ سونا اگلتی زمینوں کو سیم و تھور کے جہنم میں غرق کررکھا ہے۔ نہر کے215 کلومیٹر طویل کناروں کی پختگی کا اغاز ہوچکا ہے۔
پراجیکٹ کی تکمیل سے جہاں ایک طرف 2 لاکھ75 ہزار ایکڑسیم زدہ رقبے پر ہر سو لہلہاتے کھیت اور شاداب گلستان ہونگے تو وہاںہر سال ضلع مظفرگڑھ میںسیلاب کی ہولناک تباہ کاریوں کا نشانہ بننے والے والے9 لاکھ کسان سکھ چین کی بانسری بجا کر خوشحالی کے سفر پر رواں دواں ہونگے۔ ppp کے ٹکٹ ہولڈر ڈاکٹر شبیر علی قریشی نے چوک منڈا دائرہ دین پناہ اور احسان پور میں سوئی گیس اور چار سو چکوک اور دیہی بستیوں میں بجلی کی فراہمی کو یقینی بنا کر اپنے سیاسی قد کاٹھ کو مذیدبلندیوں تک پہنچادیا۔
کوٹ ادو میں pppنے 5سالہ دور اقتدار میں جتنے فنڈز ترقیاتی منصوبوں پر خرچ کئے ماضی میں کوئی نظیر نہیں ملتی۔ محسن علی قریشی کی علالت اور25 سالہ سیاسی خدمات کے تناظر میں ہر دل میں انکی مظلومیت شرافت صداقت اور امانت کا جذبہ بدرجہ اتم موجود ہے۔شائد یہی وجہ ہے کہ عوام کی کثیر تعداد ڈاکٹر شبیر علی قریشی کی دیوانگی میں مبتلا ہوچکی ہے۔ ڈاکٹرشبیر علی قریشی نے جہاںna 176 کے لاکھوں ستم رسیدہ لوگوں کو وڈیروں اور خود ساختہ شیروں کی سیاسی محکومی سے نجات دلوانے والے دیوقامت لیڈرعلیل والد محسن علی قریشی کی جانشینی کا حق ادا کرنے کی سعی کی ہے تو وہاں اس نوجوان نے عظیم ترین گھمبیر مسائل کو حل کرکے کوٹ ادو کی تاریخ میں سنہری ابواب قلم بند کئے۔
na 176 کی نشست پر ووٹرز کی ارا کی روشنی میں ppp کے امیدوار ڈاکٹر شبیر علی قریشی میرٹ کی بنیاد پر سب سے اگے ہیں۔ہیڈ محمد والہ35 ہزار بنظیر انکم سپورٹatm کارڈز کوٹ ادو سٹی کی سینکڑوں گلیوں میں ٹف ٹائلز کی تنصیب غریب و نادار افراد کی دامے درمے سخنے امدا و استعانت حلقے میں64 سالوں سے اندھیروں میں ڈوبی ہوئی 410بستیوں اور چکوک میں نیو الیکٹریفیکیشن چوک منڈا دائرہ احسان پور میں سوئی گیس کوٹ ادو سٹی میں29 ہزار سوئی گیس کنکشن رنگ پور میں نادرا افس کا قیام چوک منڈا کی سیوریج سکیم دائرہ چوک منڈا ڈبل روڈسینکڑوں کلومیٹر لنکس روڈز ٹی پی لنک کینال کی تعمیر38 ہزار شناختی کارڈز کا اجرا ایسے الم نشرح کارنامے ہیں جنہوں نے ڈاکٹر شبیر علی قریشی کو عوام کا کھیون ہار بنادیا ہے۔
Election Pakistan
شبیری نوجوان کی امد کوٹ ادو کی سیاست میں خوشگوار ہوا کا جھونکا ہے۔ ووٹ قومی امانت ہے۔عوام کو ایسے امیدوار کا چناو کرنا چاہیے جسکا دامن کرپشن سے پاک ہو جو تھانے کچہریوں کی سیاست میں ملوث نہ ہو۔ امیدواروں کے ماضی کو لازمی پرکھنا چاہیے۔کوٹ ادو کی عوام کو ایسے نمائندوں کی ضرورت ہے جس کے اکاوئنٹ میں میگا پراجیکٹس اور ترقیاتی کاموں کا تھوڑا بہت کیش تو موجود ہو۔ عوام نیا بھیس بدل کر لالی پاپ دینے والے پرانے بہروپیوں کے حقیقی چہروں کو بے نقاب کرکے مسترد کرنے میں تاسف کا اظہار نہ کرے۔
امدہ الیکشن میں جیت کس کا مقدر بنتی ہے یہ تو وقت ہی بتائے گا تاہم کوٹ ادو میں ایک نوجوان ڈاکٹر شبیر علی قریشی اور تین بزرگ سیاسی رہنماوں ملک غلام مصطفی کھرex گورنر و چیف منسٹرمیاں غلام عباس قریشیex mna اورex ڈسٹرکٹ ناظم سلطان ہنجرا کے نامزد امیدواروں کے درمیان زور دار رن پڑنے کی توقع ہے۔ بحرف اخر ڈاکٹر شبیر علی قریشی کو انسانی معالج ایم بیبیایس سے لیکر سیاسی ڈاکٹر بننے تک کڑی محنت کرنی ہوگی۔ تحریر : روف عامر پپا