تحریر : انجینئر افتخار چودھری لڑائی اس وقت یہ ہے کہ جو کوئی بھی عمران خان کو گالی دے گا اسے مقربین میں شامل کر لیا جائے گا۔ جتنی بڑی گالی اتنی بڑی پوزیشن۔مجھے دوست نے بتایا تھا کہ نوجوان لیڈروں کی ایک ٹیم محترمہ مریم صاحبہ کے مصاحبین کی ٹیم ہے جسے بتایا گیا ہے کہ وہ آئیں گی تو آپ وزیر ہوں گے۔گویا یہ ایک ہڈی سمجھ لی جائے جسے دیکھ دیکھ آوازین آسمان پھاڑ رہی ہیں۔ پانامہ نے در اصل سب کی نیندیں حرام کی ہوئی ہیں۔ پطرس بخاری نے ایک وقت کتے لکھ کر ان کی خصوصیات پر کما حقہ بحث کی تھی طرح طرح کے کتوں کے خصائص بیان کئے تھے۔ویسے کتے بھی اپنی میٹنگوں میں حضرت انسان کی سگیانہ عادات و اطوار پر بحث کرتے ہوں گے۔انسان اپنی ذات کے لئے کیا کیا کرتا ہے ایک چھوٹے سے منصب کے لئے اسے کتنے پاپڑ بیلنے پڑتے ہیں۔ویسے تو بھلے شاہ اور اور رومی ء کشمیر میں محمد بخش نے کئی موقعوں پر ان کتوں کو انسانوں سے بہتر قرار دیا ہے لیکن پاکستان کی سیاست میں جو آوازیں آنا شروع ہوئی ہیں ان کو دیکھ کر یقینا کتے بھی شرما رہے ہوں گے۔
کہتے ہیں مالک سے وفا کرنے میں کتے سے آگے کوئی نہیں ہوتا۔ایک واقعہ تو آپ نے پڑا ہو گا کہ ایک کتا مالک کی وفات کے بعد برسوں اس کی قبر پر پہرہ دیتا رہا اور ایک وقت آیا وہ اپنی جان اسی قبر پر دے بیٹھا۔مالک کے لواحقین نے اسے قبر کے ساتھ ہی دفن کر دیا۔بھونکنے میں چند کتے ایسے ہوتے ہیں جن کی چئوں کی آواز بڑی پتلی ہوتی ہے کچھ تو ایسے ہوتے ہیں جن کی آواز ان کی عمر سے پہچانی جاتی ہے۔بوڑھے کتے آواز نکالنے میں بخل سے کام لیتے ہیں۔وفا کے نام سے معروف یہ جانور راتوں کو جاگ کر مالک سے وفا کرتے ہیں۔انسان انہیں پالتا ہے اور اس غرض سے پالتا ہے کہ یہ جانور میری املاک میری جان کی حفاظت کرے گا۔
بعض اوقات کتوں کے بارے میں حضرت انسان کے پیارے رشتوں کو بھی رگید لیا جاتا ہے مثلا سگ باش برادر خورد مہ باش(کتا بن جا چھوٹا بھائی نہ بن) یہ پتہ نہیں کیوں کہا گیا اس طرح تو گھروں میں ایک بڑا بھائی ہی محفوظ ہو گا باقی سارے کتے سے بھی گئے گزرے۔مرحوم دلدار بھٹی کہا کرتے تھے سارا پاکستان میری عزت کرتا ہے پروفیسر ہوں ٹاکرا پروگرام ہر خاص و عام دیکھتا ہے رات کو تھکا ہارا گھر آتا ہوں تو بڑے بھائی کی آواز آتی ہے دلدار جائیں دہی تے پھڑ لیائیں۔اس معنوں میں تو ٹھیک ہے کہ چھوٹے کو حق حاصل ہے کہ اس کی عزت کی جائے لیکن سگ باش مہ باش کی تشریح ہم سے تو نہیں ہوتی کوئی بڑا کر دے تو جانوں۔ سیاست میں کتا ہونا کچھ لوگوں کی معراج ہے۔مثلا ایک شخص جدہ میں ہوا کرتے تھے مرحوم کا نام نہیں لیا جا سکتا ایک دوسرے مرحوم کو ایئرپورٹ پر ماں بہن کی گالی دینے پر میاں نواز شریف صاحب اس پر سیخ پاء ہوئے اس نے تنک کے جواب دیا میاں صاحب یہ بندہ آپ اور بے نظیر کو برابر گردانتا ہے۔آپ معاف کر دیں لیکن میں اسے معاف نہیں کر سکتا۔اسی دوران اس نے دوسرے کو ایک بڑی گالی دے کر کہا کیوں اوئے تو کیا سی کہ نئیں۔میاں صاحب نے اسے شاباش دی۔واقعی تو وفادار ہے۔
ہمارے لیڈروں کا یہ رویہ رہا ہے انہیں دوست نہیں کتے پالنے کی عادت ہوتی ہے۔یقین کیجئے اگر آپ نے وہ الفاظ سنے ہوں جو جاوید لطیف نے مراد سعید کی بہنوں کے بارے میں کہے تھے تو آپ بھی اسے میاں صاحب کا پالتو کہے بغیر نہیں رہ سکتے،یعنی کوئی حد ہوتی ہے اختلاف اپنی جگہ اپنے لیڈر سے پیار اپنی جگہ۔انسان سیاست عزت کے لئے کرتا ہے خود میرے ساتھ شکیل اعوان نے اس سے کہیں کم حرکت کی تھی اس نے مجھے ایک پروگرام میں جھوٹا قرار دیا تھا اس کی گت جو میں نے بنائی تھی وہ ریکارڈ پر ہے۔اس نے مجھ سے معافی مانگی میں نے معاف کر دیا لیکن یہاں مجھے عمران خان کی تائید کرنا ہے کہ اگر میں ہوتا تو بہت آگے تک جاتا۔آگے تک جانا کسے کہتے ہیں وہ گوگل پر میری اور شکیل اعوان کی فایئٹ ڈونڈھ لیجئے۔
Nawaz Sharif
در اصل میاں صاحب کا چل چلائو ہے کچھ کم فہم سمجھتے ہیں کہ میاں صاحبان کی قربت کے لئے یہ شارٹ کٹ ہے عمران کو گالی دو اور نمبر ٹانک لو۔اور یہ ہے بھی حقیقت کہ میاں صاحب خود کسی کو کچھ نہیں کہتے کہلواتے ہیں۔اس بات کی شیخ رشید بھی گواہی دیں گے۔ سیاست دانوں کی قبیل سے تعلق رکھتا ہوں میں سیاست دانوں کو انسانوں میں ہی جیتے دیکھنا چاہتا ہوں۔مجھے انتہائی دکھ ہوا جب ایک ادھیڑ عمر کے شخص کو ایک نوجوان مکا مارتے نظر آتا ہے۔لیکن کیا انتحاب کے مشکل مراحل سے نکل کر اسمبلیوں میں اس لئے پہنچا جاتا ہے کہ اس کے ساتھی اس کی بہن کی جانب انگلیاں اٹھائیں۔یہ انتہائی قبیح حرکت تھی۔یہ ان لوگوں کے منہ پر بھی تھپڑ تھا جو ایک پرائیویٹ گفتگو کو لے اڑے اور ایک طوفان کھڑا کر دیا۔اللہ بے نیاز ہے وہ حساب لیتا ہے کبھی اس کی رسی ڈھیلی اور کبھی وہ سریع الحساب ہوتا ہے۔پھٹیچر کی چر چر جاری تھی کہ جناب جاوید لطیف کو ذلالت کے گہرے کنویں میں گرنا پڑا۔
میری بس یہی درخواست ہے کہ انسان رہئے کسی کا کتا نہ بنئے۔میں نے جناب انور عزیز سے بھی کہا تھا اور پرانے جاننے والے شیر علی سے بھی کہوں گا اگر طلال چودھری زعیم قادری کا بزرگ میری درخواست پڑھے تو ان سے یہی کہوں گا کہ ان لیڈروں کو لیڈر ہی رہنے دیں ان کے لئے بھونکئے مت۔ یہ لوگ اپنے اوپر بھینٹ چڑواتے ہیں شاہ کی وفاداری میں اتنا آگے نہ نکلیں۔یہ ادھر ہی رہیں گے کو ئی سر پھرا کام دکھا جائے گا۔
فیصل آباد کے ایک ایم این اے اپنی تیزی گفتار میں مجھے کہہ رہے تھے کہ فلاں کو کہنا زیادہ باتیں نہ بنائے کوئی ٹرک بھی گاڑی پر چڑھ سکتا ہے میرا جواب تھا سرکار بھیجے میں آپ کے بھی سوراخ ہو سکتا ہے بہتر ہے اس کی گاڑی چلنے دیں تا کہ آپ کا سر بھی سلامت رہے۔اور ویسے بھی میں چمچہ نہیں جو آپ کا سندیسہ اس کو دوں۔
محلوں میں بیٹھے ان شہنشاہوں کو انسان رہنے دیں ۔عزت ذلت دینے والا اوپر رہتا ہے۔کوئی ضروری نہیں ایک سیٹ کے لئے اور وہ سیٹ بھی اکیلی آپ کی نہیں اس جیسے سینکڑوں اور بھی ہیں کہ ان زمین سیاسی خدائوں کے تلوے چاٹے جائیں۔جاوید لطیف یہ صرف آپ کے لئے نہیں ہر اس بھونکے کے لئے ہے جو اپنے سیاسی آقا کی خوشنودی کے لئے پطرس بخاری کا کتا بن جاتا ہے۔ ڈیئر سیاست دان انسان باش سگ مہ باش ۔ جاوید لطیف اور ان جیسوں سے گزارش ہے انہیں انسان ہی رہنے دیں خدا نہ بنائیں۔