انسان کی زندگی میں بہت سے مسائل ایسے پیدا ہو جاتے ہیں جن کا حل براہ راست کتاب و سنت میں موجود نہیں ہوتا اور اس کے لیے فقہ سے استفادہ کرنے کی ضرورت پڑتی ہے ۔تاہم بعض علماء اپنا شعار بنا چکے ہیں وہ منبر پر بیٹھتے ساتھ ہی ولولے اور جوش کے ساتھ یہ کہہ گزرتے ہیں کہ دین صرف قرآن و سنت ہی میں بیان ہوچکا ہے اور اماموں کا کوئی تعلق نہیں دین کے ساتھ۔اگر ان مذاہب میں سے کسی ایک مذہب کی کوئی تقلید اختیار کرلے تو اس کے لیے درست نہیں کہ وہ کسی دوسرے مذہب کے امام کی پیروی کرے۔مثلاً امام ابوحنیفہ کی تقلید کرنے والے کے لیے جائز نہیں کہ وہ کسی دوسرے امام امام شافعی یا امام مالک اور امام احمدبن حنبل میں سے کسی کے مذہب پر عمل کرے۔پھر تقلید کرنے والوں پر تنقید کا آغاز کرتے ہوئے کہنے لگا کہ یہ لوگ قرآن و سنت میں سے کچھ بھی نہیں جانتیاور نہ ہی ان کو دین کا مکمل فہم حاصل ہے۔جب قرآن و سنت موجود ہیں تو ہمیں کیا ضرورت پڑی ہے کہ ہم یہ کہیں کہ فلاں امام نے یا کہا اور فلاں نے یہ؟حقیقت یہ ہے کہ یہ امام و خطیب صاحب راست روی سے دور ہوگئے کیونکہ تمام آئمہ مجتہدین قرآن و سنت پر ہی عمل پیرا ہیں۔ان میں سے کسی ایک بھی امام نے قرآن و سنت کو چھوڑ کر اپنی ذاتی رائے کو اختیار کیا ہو ایسا ہر گز نہیں ہوا۔
آئمہ کرام کا منہج و طریقہ یہ رہاہے کہ وہ بیان کرتے ہیں جو کچھ بھی قرآن و سنت میں بیان ہواہے دلائل کے ساتھ پھر زمانہ اور حالات کے تقاضوں کے مطابق پیدا شدہ مسائل کا حل اجتہاد کرکے پیش کرتے ہیں ۔ان مسائل میں اجتہاد سے کام لیا جاتاہے جو نبی کریمۖ کے زمانے میں موجود نہ تھے۔جیسے کہ شراب کو شریعت اسلامیہ نے باالاتفاق حرام قراردیاچونکہ قرآن و سنت میں نص قطعی وارد ہوئی ہیں اور اب مرورزمانہ کے بعد نشہ آور دیگر اشیاء ہیروئن، افیون،اور چرس وغیرہ کا مسئلہ سامنے آیا تو اس پر فقہاء نے اجتہاد کیا اور ان کو بھی حرام قراردیا کیونکہ اس کی وجہ سے انسان کی عقل اور اس کا ہوش جاتا رہتاہے اور اس کے نتیجہ میں سخت ترین جانی و مالی اور عزت و ایمان کے نقصان کا اندیشہ موجود ہے تو اس سبب سے شراب کی حرمت کا حکم ان نشہ آور چیزوں پر بھی لگا دیا گیا۔
فقہاء کو ایک اور مسئلہ کا سامنا کرنا پڑا کہ جناب رسول اللہۖ نے فرمایا کہ ”لوگ تین چیزوں میں شریک ہیں گھاس، پانی اور آگ”کسی کے لیے درست نہیں ہے کہ وہ دریا و سمند ر وغیرہ کو اپنی ملک قراردے ۔البتہ آئمہ کرام نے اس مسئلہ میں درآمد پیچیدگی کا حل یہ نکالا کہ جو کنواں یا چشمہ یا حوض گھر کے اندر موجود ہے یا انسان کی اپنی ملکیتی زمین میں تو اس پر اس انسان کا حق ہے کہ چاہے تو وہ پانی لینے دے یا منع کردے۔اس کے ساتھ زور زبردستی نہیں کی جاسکتی۔مذکورہ بالا حدیث عام میدانی و صحرائی علاقوں پر منطبق ہوتی ہے ملکیت خاص اس سے خارج ہے۔اسی طرح ایک لفظ ”کلالة”کی وضاحت سے متعلق بھی سامنے آتاہے کہ قرآن میں آیا ہے کہ کلالہ سے متعلق آپ سے سوال کیا جاتاہے ۔اس لفظ سے متعلق فقہاء نے اپنی اپنی رائے کا اظہار کیا ہے بعض نے کہا کہ یہ تاج ہے جو انسان کے سرپر رکھا جاتاہے۔کچھ نے کہا کہ یہ رحم کے علاوہ رشتہ داروں کا بیان ہے ،کسی نے کہا کہ ماں کا بھائی مراد ہے اور کچھ نے کہا کہ ماں باپ کے دور کے رشتہ دار مراد ہیں ۔ یہ سب قول اجتہاد پر مبنی ہیں اس سے کسی صورت یہ نہیں ظاہرہوتاکہ اس لفظ کا معنی تلاش کرنے سے قرآن و سنت سے دشمنی و اعراض کیا گیا ہے۔
یہاں پر ہمیں معلوم ہونا چاہیے کہ کاروبار و لین دین کا مسئلہ بھی فقہاء نے حل کرنے کی کوشش کی ہے کہ ابتداء میں خرید و فروخت سامان کے ذریعہ سے کی جاتی تھی ۔تجارت کی جاتی تھی گندم اور مکئی کے ساتھ ۔ یعنی گندم دیکر مکئی یا کھجور وغیر لینے کی کوشش کی جاتی تھی۔رسول اللہۖ کے زمانے میں تجارت و لین دین غلہ کے ساتھ ہوتی تھی اسی وجہ سے زکوٰة بھی غلہ پر ہوتی تھی ۔کہا جاتاہے کہ بعض لوگ سونا اور چاندی رکھتے تھے تو ان پر بھی اس حساب سے زکوٰة عائد کردی گئی تھی۔آئمہ کرام نے زکوٰة کی مشروعیت کے مسئلہ کو واضح کرنے کی کوشش کی کیا ایسا کرنا غلط ہے؟لاھو ر کے جس خطیب نے اس قدر شدید مئوقف اختیار کیا آئمہ سے متعلق اس نے بہت بڑی غلطی کی ہے کہ جو کوئی ایک امام کی تقلید کرے دوسرے کی پیروی نہیں کرسکتاکیونکہ اس سے دین کی مخالفت ہوتی ہے ایسی پرتشدد فکر و نظر اور افراط و تفریط دین کے لیے بہت زیادہ نقصان دہ ہے اور اس کے سبب مسلمانوں میںضد وعناد اور دشمنی پر مبنی گروہ اور فرقے قائم ہوجانے کا سخت اندیشہ ہے۔تو بتائیے اس کا فائدہ کس کو پہنچے گا؟یعنی خطیب صاحب کی مرضی ہے کہ حنفی و شافعی اور مالکی و حنبلی باہم دست و گریبان اور ایک دوسرے سے متنفر ہوجائیں ۔شیخ صاحب کو شاید معلوم نہیں کہ احناف نے داخل مذہب میں اس قدر اجتہاد کیا ہے کہ ان کی ایک مسئلہ سے متعلق کئی کئی آراء ہیں جیسے ابن عابدین نے بیان کیا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ اجتہاد کرکے متعدد شرعی مسائل کا تطبیقی حل نکالنے میں کامیاب ہوئے جیسے طلاق ،خرید و فروخت اور کرایہ اور سفارت کاری وغیرہ جیسے مسائل سے متعلق رہنمائی کرتے ہیں۔
ایسے علماء اور داعیوں کا وجود خطرناک ہے مسلم معاشرے کے لیے۔کیونکہ وہ مذاہب کی حقیقت جانتے اور پہنچانتے ہی نہیں صرف اپنا فیصلہ یا حکم ان پر لگادیتے ہیں۔یعنی احناف نے عصر کی نماز مغر ب سے قریب تر وقت میں پڑھنے کی اجازت دی ہے مگر باقی مذاہب اس وقت کو مکروہ قراردیتے ہیں کیونکہ مغرب کا وقت قریب ہوچکا ہوتاہے۔اگر کوئی ڈاکٹر حنفی مسلک سے ہے اور وہ آپریشن تھیٹر میں جانا چاہتاہے تو اس کو معلوم نہیں کہ وہ کتنا وقت اس آپریشن میں صرف کرئے گا جبکہ اس کو نماز کے فوت ہوجانے کا اندیشہ ہے تو ایسے میں اجازت ہے اس ڈاکٹر کے لیے کہ وہ شافعی مسلک پر عمل کرکے عصر کی نماز وقت پر پڑھ کر آپریشن شروع کردے۔
آئمہ کرام نے سنتوں کو بیان بھی کیا ہے اور ان پر عمل بھی ۔شیخ صاحب نے غلطی کی ہے کہ وہ لوگوں کو مذاہب فقہی سے دور رہنے کا مشورہ دیتا ہے۔دوسری غلطی یہ بھی کی ہے کہ کسی مسلک و مذہب کا بندہ دوسرے مذہب پر عمل نہیں کرسکتا۔حقیقت تو یہ ہے کہ تمام آئمہ نے مسائل کا حل قرآن و سنت سے پیش کیا ہے اور سبھی کے دلائل درست اور قابل عمل ہیں۔معلوم ہونا چاہیے کہ دین بہت آسان ہے اور کسی شخص کے لیے اجازت نہیں کہ وہ اس میں تشدد و غلظت اور سختی پیدا کردے۔تما م آئمہ نے دین کی خدمت کی ہے اور لوگوں کے لیے آسانیاں پیدا کردی ہیں مسائل ضروریہ کے احکامات بیان کرکے۔یہی وجہ ہے کہ امت کے علماء کا اتفاق ہے کہ حنفی و شافعی اور مالکی و حنبلی مسلک میں سے جس کی بھی چاہے انسان پیروی و اتباع کرسکتاہے۔اور اسی طرح درست ہے کہ ایک مسلک کا پیروکار دوسرے مسلک کے پر ضرورت پڑنے پر عمل بھی کرسکتاہے۔ جس کسی نے لوگوں پر تنگی پیدا کی کشادگی کے باوجود اللہ اس پر تنگی پیدا کرے۔