کراچی (جیوڈیسک) ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان (ایچ آر سی پی) نے اس بات پر تشویش کا اظہار کیا ہے کہ عام انتخابات اور نئی حکومت کے اقتدار سنبھالنے کے فوراً بعد ملک میں سویلین ادارے اس کے خیال میں کھوکھلے ہوتے جارہے ہیں۔
ممتاز قانون دان اور ہیومن رائٹس کمیشن کی سابق چیئر پرسن عاصمہ جہانگیر نے کراچی میں جمعہ کے روز ایک پریس کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ ’’پارلیمنٹ اور میڈیا کو کمزور کیا جارہا ہے۔‘‘حنا جیلانی، اسد اقبال بٹ اور ہیومن رائٹس کمیشن کے دیگر رہنماؤں کے ہمراہ، عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ سیاستدانوں کو تحفظ پاکستان ایکٹ کی حمایت کے لیے مجبور کیا گیا تھا۔ حالانکہ یہ قانون سیکیورٹی فورسز کے لیے بھی اچھا نہیں ہے، اس لیے کہ جب وہ سویلین معاملات میں ملؤث ہوں گے تو عدلیہ کی جانب سے ان کی پوزیشن کی وضاحت طلب کی جائے گی۔
عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ ان کو یقین ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کا دوہرا مقصد تھا، ایک تو ماضی میں سیکیورٹی فورسز کی جانب سے لاپتہ کیے گئے افراد کے معاملے پر پردہ ڈالنا اور دوسرے انہیں اضافی اختیارات دینا۔ انہوں نے کہا کہ فاٹا یا پاٹا کے معاملات سے نمٹنے کے لیے یہ قانون منظور نہیں کیا گیا ہے، اس لیے کہ اس طرح کا کالا قانون پہلے ہی موجود ہے۔ انہوں نے کہا انہیں خوف ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس کو بلوچ اور سندھی قوم پرستوں، دیگر سیاستدانوں، صحافیوں، ترقی پسند کارکنوں اور خود ان کے جیسے لوگوں کے خلاف استعمال کیا جاسکتا ہے۔
فوجداری وکلاء کا نکتہ نظر بھی یہ ہے کہ تحفظ پاکستان آرڈیننس سے مقدمے کی تیز رفتار سماعت کی ضمانت ملنے کا امکان نہیں ہے۔ اس کے علاوہ اس قانون کے تحت منصفانہ مقدمے کی راہ میں بھی رکاوٹیں کھڑی ہوجائیں گی۔ ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کے بارے میں بات کرتے ہوئے عاصمہ جہانگیر نے کہا کہ بعض سیاسی قوتیں بظاہر ملک کو وسط مدتی انتخابات کی جانب دھکیل رہی ہیں اور چار انتخابی حلقوں میں مبینہ دھاندلی کا معاملہ اب آگے بڑھ کر دوبارہ انتخابات کے مطالبے میں تبدیل ہوگیا ہے اور اب پورے انتخابات کی ساکھ پر سوال اُٹھائے جارہے ہیں۔
انہوں نے کہا کہ فخرالدین جی ابراہیم شریف انسان تھے، لیکن اب ظاہر ہے کہ کوئی بھی شریف آدمی چیف الیکشن کمیشن بننے کے لیے تیار نہیں ہوگا۔ ’’اگر وسط مدتی انتخابات کا انعقاد ہوا تو اس سے اسٹیبلشمنٹ کے طے کردہ نتائج ہی برآمد ہوں گے۔‘‘ عاصمہ جہانگیر نے افسوس کا اظہار کیا کہ یہ سال ملک میں جمہوری عمل کے لیے اچھا نہیں ہے۔
موجودہ حکومت کی غیر متوازن کیفیت کا حوالہ دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ سیاسی معاملات سے انتظامی اقدامات کے ذریعے نمٹا جارہا ہے اور تقرریوں اور تبادلوں میں اقربا پروری کو فروغ دیا جارہا ہے۔ اس بات پر انتہائی تشویش اور حیرت ہے کہ ایک ایسی سیاسی جماعت جسے عوام کا مینڈیٹ حاصل ہے، اس کو اس پر تشویش ہونی چاہیے۔انہوں نے کہا کہ اگر یہ حکمران اس سیاسی صورتحال پر پریشان ہیں تو ان کے مینڈیٹ کے بارے میں سوالات اُٹھا ئے جائیں گے۔ ’’اس مینڈیٹ کو مطلق العنانی کے لیے استعمال نہیں کیا جانا چاہیے۔‘‘
انسانی حقوق کی سرگرم کارکن نے کہا کہ اس طرح کے نعرے کہ ’سیاست نہیں، ریاست بچاؤ‘ لگائے جارہے تھے اور انقلاب کو کینیڈا سے لایا جارہا تھا۔ انہوں نے پاکستان تحریک انصاف اور اس کے رہنما عمران خان کا نام لیے بغیر کہا کہ وہ لوگ جو پچاس سال سے آمریت کا سامنا کررہے تھے اور اس کے خلاف لڑ رہے تھے، اب انہیں برگر کلاس کی جانب سے لائے جانے والے انقلاب کے بارے میں مطلع کیا جائے گا۔
انہوں نے کہا ’’یہ ’برگرلوگ‘ عوام کو تبدیلی کے بارے میں بتائیں گے، جو ملک میں جابروں کے خلاف اس کے آغاز سے ہی لڑ رہے ہیں۔‘‘ کراچی آپریشن کے بارے میں حقائق جاننے کے لیے ہیومن رائٹس کمیشن کی یہ ٹیم کراچی میں موجود تھی۔ انہوں نے میڈیا پرسنز کے ساتھ بھی ایک اجلاس منعقد کیا، تاکہ اس آپریشن کے بارے میں ان کی رائے جان سکیں۔