تحریر : عماد ظفر کشمیر میں انسانی حقوق کی پامالی ہو رہی ہے اور اقوام عالم کو بنیادی انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں پر بھارت کے خلاف فورا سنگین ایکشن لینا چایے.یہ جملہ آج کل الیکڑانک سوشل میڈیا آخبارات اور نجی محفلوں میں کثرت سے استعمال کیا جاتا ہے. اور سو فیصد درست بھی ہے جن تکالیف اور اذیت سے کشمیری عوام گزر رہے ہیں اس کا اندازہ لگانا بھی ناممکن ہے.لیکن کشمیر کے مسئلے کو جزباتی عینک یا سیاست کے پس منظر سے ہٹ کر اگر دیکھا جاے تو یہ بات روز روشن کی طرح عیاں ہو جاتی ہے کہ اقوام عالم کیوں ہماری باتوں کو سنجیدگی سے نہیں لیتیں. انسانی حقوق کی خلاف ورزی چاہے کشمیر میں ہو یا فلسطین میں یا پھر بلوچستان میں ہو یا فاٹا میں یہ اتنی ہی قابل مزمت اور گھناؤنی ہے. حال ہی میں کوہٹہ میں چار خواتین کو جو کہ ہزارہ برادری سے تعلق رکھتی تھیں انہیں بے رحمی سے گولیوں سے بھون دیا گیا۔لیکن نہ تو ہمارے کانوں ً پر کوی جوں رینگی اور نہ ہی ذرائع ابلاغ نے اس سانحے کو کوئ خاص اہمیت دی۔
ماہ محرم کے آتے ہی پاکستان میں فرقہ وارانہ شدت پسندی میں اضافہ ہو جاتا ہے اور سنی اور شیعہ حضرات ایک دوسرے کو ہر پلیٹ فارم پر نیچا دکھانے کی کوشش کرتے ہیں.ان دونوں فرقوں کی مسلح شدت پسند تنظیمیں پھر انسانی جانوں کو ختم کرنے کو بھی کوئ جرم نہیں سمجھتیں. ایسے واقعات پر پھر ردعمل بھی اپنے اپنے عقیدے اور فرقے کی ہمدردی میں ہماری جانب سے دیا جاتا ہے اور یوں ہم انتہائ کامیابی سے دنیا کو یہ باور کروانے میں کامیاب ہو جاتے ہیں کہ در حقیقت ہماری نگاہ میں انسانی جان کی قدر و قیمت صفر ہے. بلوچستان میں ہزارہ برادری کی نسل کشی ایک بے حد المناک اور قابل توجہ مسئلہ ہے. اسـی صوبے میں لاپتہ افراد کے سینکڑوں مقدمات بھی ہماری انسانی حقوق کی اقدار پر سوالیہ نشان کھڑے کرتے ہیں۔
وطن عزیز میں بسنے والی مسیحی برادری ہندو برادری یا احمدی برادی سے جس طرح کا سلوک ہم نے روا رکھا ہوا ہے وہ بھی پوری دنیا میں ہمارے انسانی حقوق کے دعووں کی قلعی بھرپور طور پر ہمہ وقت کھولتا رہتا ہے. شدت پسند جماعتیں جو کسی بھی مسلک سے تعلق رکھتی ہیں ان کو کالعدم قرار دینے کے باوجود ریاستی سطح پر ان کی خاموش حمایت اس فرقہ واریت اور تعصب کے زہر کو ذہنوں میں بڑھاتی ہی چلی جاتی ہے اور نتیجتا کتنی ہی قیمتی جانیں صرف اور صرف اپنے فرقے کو سچا ثابت کرنے کے چکر میں ضائع ہو جاتی ہیں۔
Jihad
دوسری جانب کشمیر اور افغانستان میں “جہاد” کیلئے تیار کردہ افراد جب ریلیاں نکالتے ہیں تو دنیا کو یہ پیغام بھی واضح مل جاتا ہے کہ ہم کتنے پرامن لوگ ہیں. اور مطلوب بین الاقوامی دہشت گردوں کو ریاستی اور معاشرتی سپورٹ دے کر انسانی حقوق کی کس قدر سیوا کر رہے ہیں. خیر انسانی حقوق کی بات چونکہ ہم بہت کرتے ہیں اس لئے کیا آپ دل پر ہاتھ رکھ کر صرف یہ بتا سکتے ہیں کہ ہمارے معاشرے میں بستے افراد کوتمام انسانی حقوق حاصل ہیں. کیا غیرت کے نام پر قتل آج بھی ایک طرح سے مردانگی کا میڈل نہیں سمجھا جاتا.کیا اینٹوں کے بھٹوں پر کام کرتے مزدوروں کو زندہ جلانے سے لیکر اپنا حق مانگنے والوں کی مسخ شدہ لاشیں برآمد نہیں ہوتیں؟ انسانی حقوق کی پامالی تو وطن عزہز میں روز و شب ہوتی ہےاور ہم سب کسی نہ کسی صورت میں اس میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں.کبھی خاموش رہ کر اور کبھی اپنے اپنے فرقے کی آڑ لے کر. جس معاشرے کے مباحث محض اس بات تک محدود ہوں کہ شیعہ درست ہیں یا سنی احمدی غیر مسلم ہیں یا نہیں یا دیگر اقلیتیں توہین مذہب کر رہی ہیں یا نہیں اس معاشرے کو آج کے دور میں کوئ کیوں سنجیدہ لے گا اور کیوں اس کے مطالبات کو سنے گا۔
ڈبل سٹینڈرڈ کو کبھی قومی تعصب کبھی مزہبی تعصب کی چادر تلے چھپایا تو جا سکتا ہے لیکن دنیا بھر کو اس معاملے پر بیوقوف نہیں بنایا جا سکتا. ہمیں اپنے اپنے رویوں کو نہ صرف بہتر کرنے کی ضرورت ہے بلکہ یہ سمجھنے کی بھی اشد ضرورت ہے کہ انسانی جان سے بڑھ کر دنیا میں نہ تو کوئ اور قیمتی چیز ہے اور نہ ہی کوئ نعمت. پہلے اپنے ہم وطنوں کے حقوق کی قدر کرنا سیکھ کر اس کو عملی میدان میں لاگو کر کے ہی ہم کشمیر یا فلسطین کے بارے میں عالمی سطح پر موثر آواز اٹھا سکتے ہیں.شدت پسند سوچوں اور نظریات کو اب بھی ترک نہ کیا گیا تو ایسے ہی انسانی حقوق کی پامالیاں ہوتی رہیں گی اور ہم یوں ہی دنیا بھر میں ایک جاہل اور منافق معاشرے کے طور پر جانے جائیں گے. غداری کفر اور توہین کے فتوے بانٹنے یا معصوم خواتین کو عقیدے کی بنا پر قتل کر دینے سے نہ تو ہم میں سے کسی کا فرقہ سچا ثابت ہوتا ہے اور نہ ہی عقیدہ یا نظریات.قتل تو حسین کا بھی ہوا تھا لیکن کیا ان کے نظریات کو قتل کیا جا سکا؟۔
انسانوں سے پیار کرنا اور ان کے حقوق کا خیال رکھنا آفاقی صفت ہے جو قدرت مہزب معاشروں کو بطور تحفہ عنایت کرتی ہے.نفرت تعصب اور فرقہ واریت کی آگ میں جلتے معاشرے خود قدرت کی سزا کا منہ بولتا ثبوت ہوتے ہیں. انسانی حقوق تو بڑی دور کی بات ہم تو ایک دوسرے کو محض اختلاف رائے کی بنیاد پر زندہ رہنے کا حق بھی نہیں دینا چاہتے. کوئٹہ میں جاں بحق ہونے والی خواتین اگر کشمیر میں جاں بحق ہوتیں تو ہم سب چیخ چیخ کر آسمان سر پر اٹھا لیتے نہ ان کا مسلک دریافت کرتے اور نہ فرقہ.لیکن چونکہ ان کو قتل کرنے والے خود ہم میں سے ہی ہیں اس لیئے خاموشی میں ہی عافیت. آفرین ہے ہمارے ڈبل اسٹینڈرڈز پر جو انسانی حقوق کی پاسداری کا پوری دنیا سے مطالبہ کرتے ہیں اور خود اپنے معاشرے میں انسان کو انسان سمجھنے پر بھی آمادہ نظر نہیں آتے۔