تحریر : سید توقیر زیدی انڈین وزیر اعظم نریندر مودی میں چھپا انتہا پسند جنونی باہر نکل آیا۔ پاکستان کو دنیا میں تنہا کرنے کی گیدڑ بھبکی دے ڈالی۔ پھر جنگ و جدل کی باتیں کرتے مودی نے اچانک یْو ٹرن لیا اور پاکستان کو غربت، بیروزگاری کے خلاف جنگ لڑنے کی دعوت دے دی۔ حکومتی ترجمان وفاقی وزیر اطلاعات پرویز رشید نے کہا کہ کیا مودی حکومت ریاستی دہشت گردی کے ذریعے پوری مقبوضہ وادی کو جیل میں بدلتے ہوئے انسانی حقوق پامال نہیں کر رہی؟ کیا ہندوستانی وزیر اعظم غربت اور جہالت کے خلاف جنگ کی بات کر کے دنیا کی آنکھوں میں محض دھول جھونکنا چاہتے ہیں؟ اگر اس میں سنجیدہ ہیں تو بامقصد بات کریں۔
بھارتی قیادت کا پاکستان کے خلاف زہر کم ہونے میں ہی نہیں آ رہا۔ کوئی نہیں جانتا کہ نریندر مودی دراصل چاہتے کیا ہیں۔ ابھی دو دن پہلے تک وہ اور ان کی کابینہ پاکستان کے خلاف ہرزہ سرائی اور دھمکی آمیز بیانات دینے میں مصروف تھے، اب انہیں اچانک غربت کے خاتمے کا خیال آ گیا ہے۔ ہو سکتا ہے انہوں نے اپنا ذہن تبدیل کر لیا ہو اور یہ بھی ممکن ہے کہ وہ دیاں دکھا کر بایاں مارنے کی کوشش کر رہے ہوں، انہوں نے اپنا کوئی منصوبہ بنا لیا ہو اور ہمیں اس طرف لگا رہے ہوں۔
دنیا کو یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہوں کہ وہ جنگ نہیں چاہتے بلکہ اقتصادی اور معاشی محاذ پر لڑ کر غربت کا خاتمہ کرنا چاہتے ہیں۔ لیکن ہمیں دونوں حوالوں سے اپنی تیاریاں مکمل رکھنا ہوں گی۔ ہمیں تو حکم بھی ہے کہ اپنے گھوڑے تیار رکھیں؛ چنانچہ ہمیں فوجی محاذ پر اپنی تیاریاں مکمل رکھنا پڑیں گی اور ساتھ ساتھ مودی کی طرف سے دیا گیا یہ چیلنج بھی قبول کرنا چاہیے’ ایک زندہ اور غیرت مند قوم کی طرح۔ اس کے لیے ہماری سیاسی قیادت کو سیاسی مصلحتوں اور ذاتی مفادات سے بلند تر ہو کر کام کرنا پڑے گا۔
Nawaz Sharif
سفارتی محاذ پر ہمیں ایک سرگرم پالیسی اختیار کرنا پڑے گی اور اقتصادی محاذ پر تو مزید کام کرنے کی ضرورت پہلے سے ہی محسوس کی جا رہی ہے کیونکہ ایک جوہری طاقت کی حامل ریاست اگر سیاسی اور اقتصادی مسائل کا شکار ہو جائے تو ظاہر ہے کہ اس کے لیے خطرات بڑھ جاتے ہیں۔ جب تک ہم واقعی غربت اور بے روزگاری کا خاتمہ نہیں کریں گے، لوگوں کا معیار زندگی بہتر نہیں بنائیں گے، بیماریاں اور دوسرے سماجی مسائل ختم نہیں کریں گے تب تک ہم خود کو طاقتور اور ناقابل تسخیر نہیں رکھ سکیں گے؛ چنانچہ مودی کا یہ چیلنج ہمیں قبول کرنا چاہیے۔
وزیر اعظم نواز شریف وطن واپس تشریف لا رہے ہیں۔ واپسی پر انہیں پہلا کام یہ کرنا چاہیے کہ ساری سیاسی، فوجی، مذہبی قیادت کو اکٹھا بٹھائیں اور یہ سب صلاح مشورے سے نیشنل ایکشن پلان کی طرح کا ایک نیا منصوبہ تیار کریں۔ اپوزیشن کے جتنے اعتراضات ہیں ان کو دور کیا جائے۔ اسے سسٹم کا حصہ بنایا جائے۔ ذاتی مفادات کو طاق پر رکھ کر ملک و قوم کے اجتماعی مفادات کے لیے کام کیا جائے تاکہ پوری قوم مودی کے چیلنج کو قبول کرے اور بدلتے ہوئے حالات کا مقابلہ کر سکے۔ دوسری جانب مودی اگر واقعی اس خطے سے غربت کے خاتمے کے خواہاں ہیں اور یہاں واقع ممالک کو ترقی کرتا ہوا دیکھنا چاہتے ہیں تو انہیں اپنی سوچ میں، اپنے نظریے میں تبدیلی لانا پڑے گی، مسئلہ کشمیر کے حل کی راہ ہموار کرنا ہو گی اور اس پورے علاقے میں بھارت کو بالادست قرار دلوانے کی کوشش ترک کرنا ہو گی۔
صورتحال یہ ہے کہ بھارت میں دہشت گردی کا کوئی چھوٹا موٹا سانحہ بھی رونما ہو جائے تو بھارتی قیادت اپنے بیانات کی توپوں کا رخ پاکستان کی طرف کر لیتی ہے اور ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہیں سوچتی کہ اس واقعے کی وجہ بھارت کی داخلی پالیسیاں بھی ہو سکتی ہیں۔ پچھلے دو، سوا دو برسوں میں نریندر مودی نے جس طرح کی حکمرانی کی ہے’ اس سے غربت کا خاتمہ تو بڑی دور کی بات، دونوں ملکوں کے باہمی حالات بہتر ہونا بھی ممکن نہیں ہے۔ اب بھی جبکہ نریندر مودی نے پاکستان کو مل کر غربت کے خاتمے کے لیے اقدامات کی دعوت دی ہے، پاکستان کو مطعون کرنا اور دھمکیاں دینا نہیں بھولے۔ کبھی اس طرح بھی امن قائم ہوتا ہے؟ کبھی اس طرح بھی حالات کو درست نہج پر لایا جا سکتا ہے؟ کبھی اس طرح بھی باہمی تعلقات بہتر ہوئے ہیں۔
Uri Attack
نریندر مودی اور ان کو جارحیت پر آمادہ کرنے والے ان کے ساتھیوں کو اس بارے میں بھی تفکر کرنا چاہیے۔ اور کشمیر میں عوام کو جس طرح اندھے قوانین کے تحت ظلم و جبر کا نشانہ بنایا جا رہا ہیْ سب سے پہلے نریندر مودی کو اسے ترک کرنا ہو گا۔ صورت حال یہ ہے کہ مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوجیوں نے گزشتہ روز ضلع گاندر بل کے علاقے اکھل کنگن کے 16 سالہ عمر لون کو بجلی کے جھٹکے دے کر شہید کر دیا۔
ضلع بانڈی پورہ میں بھارتی فورسز کے ہاتھوں شہید ہونے والے نوجوان وسیم احمد کی نماز جنازہ میں ہزاروں لوگوں نے شرکت کی اور آزادی کے حق میں اور بھارت کے خلاف نعرے لگائے جبکہ وادی بھر میں بھارتی مظالم کے خلاف سخت کرفیو کے باوجود زبردست احتجاج کیا گیا۔ مودی کو یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیے کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہو گا، اس خطے میں پائیدار امن کا قیام ناممکن ہے اور ظاہر ہے کہ امن نہیں ہوگا تو غربت کے خاتمہ کے لیے اقدامات کیسے کیے جا سکیں گے۔