مذہب کی روشنی میں جب ہم دیکھتے ہیں تو انسان کو سب سے پہلے حضرت آدم علیہ صلاة و سلام سے ہی حقوق و فرائض مقرر ہوئے ہیں۔ مختلف ادیان عالم نے بھی انسانی حقوق کی تعلیم دی ہے۔ اسلام میں انسانی حقوق واضح طور پر بنی کریم حضرت محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی زندگی اور خاص کر آخری خطبے میں بتادی ہے جو آپ سب کے علم میں ہے۔ آپ کا آخری خطبہ ہمارے لئے مشعل راہ اور نصب العین ہے۔ یہ الگ بات ہے کہ مسلمانوں نے اپنی سیاسی کمزوری کی وجہ سے اس پیغام کو جدید دنیا تک پھیلانے میں وہ کردار ادا نہیں کی جو کرنا چائیے تھا۔ ہم آج کے اس کالم میں جدید تصور انسانی حقوق کے اس دستاویز کی بات کرتے ہیں۔ جو اقوام متحدہ کے پلیٹ فارم سے آج ہمارے لئے دستیاب ہے۔ سیاسی اور شعوری لحاظ سے انسانی زندگی میں انسانی حقوق کی تاریخ بہت پرانی ہے۔
انسانی حقوق کا آفاقی منشور اقوام متحدہ کی تصدیق شدہ دستاویز اور قرارداد ہے جو کہ 10 دسمبر 1948ء کو پیرس کے مقام پر منظور کی گئی۔ اس قرارداد کے دنیا بھر میں تقریباً 375 زبانوں اور لہجوں میں تراجم شائع کیے جا چکے ہیں جس کی بنیاد پر اس دستاویز کو دنیا بھر میں سب سے زیادہ تراجم کی حامل دستاویز کا اعزاز حاصل ہے۔یہ قرارداد دوسری عالمی جنگ عظیم کے فوراً بعد منظر عام پر آیا جس کی رو سے دنیا بھر میں پہلی بار ان تمام انسانی حقوق بارے اتفاق رائے پیدا کیا گیا جو کہ ہر انسان کا بنیادی حق ہیں اور بلا امتیاز ہر انسان کو فراہم کیے جانے چاہیے۔ اس قرارداد میں کل 30 شقیں شامل کی گئی ہیں جو کہ تمام بین الاقوامی معاہدوں، علاقائی انسانی حقوق کے آلات، قومی دستوروں اور قوانین سے اخذ کی گئی ہیں۔ انسانی حقوق کا آفاقی منشور، انسانی حقوق کا بین الاقوامی بل کا حصہ ہے جس میں اس حصے کو لازمی جبکہ دوسرے دو حصوں یعنی عالمی معاہدہ برائے معیشت، سماج اور ثقافت اور عالمی معاہدہ برائے عوامی و سیاسی حقوق کو اختیاری قرار دیا گیا ہے۔ 1966ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی نے اتفاق رائے سے انسانی حقوق کے عالمی بل کے موخر الذکر دو معاہدوں کو منظور کیا جس کے بعد اب تک اس بل کو انسانی حقوق بارے ایک مکمل دستاویز قرار دیا جاتا ہے۔
انسانی حقوق کے اعلامیہ کوجاری ہوئے 60 سال کاعرصہ گذرچکا ہے جس کامشترکہ مقصد دنیا کے ہرانسان کیلئے آزادی کی نعمتاورظلم وناانصافی نیزہرطرح کے امتیازی سلوک سے نجات تھا تاہم انسانی حقوق کی فراہمی کا معاملہ اب صرف ایک سیاسی نعرے میں تبدیل ہو چکا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ انسانی حقوق کی حمایت ایک گرانقدرکام ہے لیکن ایسے وقت میں نہیں جب انسانی حقوق کے اداروں کی رپورٹیں مغرب کیلئے ایک سیاسی ہتھکنڈے میں تبدیل ہوگئی ہیں۔حقیقت یہ ہے کہ اس وقت انسانی حقوق کامسئلہ دوسرا رخ اختیارکرچکاہے اوراسی وجہ سے دنیاکے بہت سے ممالک انسانی حقوق کی بعض شقوںمیں تبدیلی کے خواہاں اورانھیں بطورہتھکنڈہ استعمال کئے جانے کیخلاف ہیں۔ماہرین کے مطابق انسانی حقوق کی عالمگیریت کامطلب یہ نہیں ہے کہ ایک گروہ کاطرزفکرتمام قوموں پرمسلط کردیاجائے بلکہ اس کامطلب تمام قوموں اورثقافتوں کے حقوق کی منصفانہ ضمانت دینا ہے جبکہ امریکا اور مغربی ممالک انسانی حقوق کے نام پر اپنا نظریہ اور ثقافت دنیا پر مسلط کرنا چاہتے ہیں۔
United Nations
انسانی حقوق کی قانونی دستاویزات کا مختلف ثقافتوں بالخصوص ڈیڑہ ارب سے زیادہ انسانوں کے دین اسلام کی ثقافت سے عاری ہونابھی ایک امتیازی رویہ ہے اوراسی وجہ سے آج امریکہ اوربعض مغربی حکومتیں اس سے ناجائزہ فائدہ اٹھارہی ہیں اوراسے اسلام سے دشمنی کیلئے ہتھکنڈہ بنائے ہوئے ہیں۔ دنیا بھر کے مسلمانوں کا مطالبہ ہے کہ انسانی حقوق کی دستاویزات، اصول وقوانین اورمیکانیزم میں ان کی دینی تعلیمات کو مدنظر رکھا جائے اورخاص طور پراقوام متحدہ کایہ فرض بنتاہے کہ وہ انسانی حقوق کی آڑ میں امریکا اور مغربی ممالک کی جانب سے شروع کردہ دہشت گردی کے خلاف نام نہاد جنگ کی حمایت ترک کرکے دنیا بھر کے انسانوں کیلئے انسانی حقوق کی فراہمی کو یقینی بنائے۔
جموں و کشمیر کا بدقسمت خطہ گذشتہ نصف صدی سے انسانی حقوق کی بدترین خلاف ورزیوں کا شکار ہے۔ کشمیری عوام آج بھی اپنے پیدائشی حق سے محروم ہیں جس کا وعدہ خود اقوام متحدہ، پاکستان اور بھارت کی حکومتوں نے ان کے ساتھ کیا تھا۔لیکن جموں و کشمیر میں انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں کے نتیجہ میں ایک لاکھ کشمیری عوام کی ہلاکتوں کا کہیں ذکر نہیں کیا جا رہا ہے۔ سول سوسائٹی کے ادارے زیر عتاب رہے اور جمہوری حکومت کے قیام کے باوجود سیاسی آزادی نہیں ملی۔ بہتر حکمرانی کا فقدان انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے کا بڑا سبب ہے۔
بے روزگاری میں اضافہ ہواہے،کروڑ وں لوگ غربت کی لکیر سے نیچے کی زندگی بسر کررہے ہیں ،خواتین اور بچوں کا احترام نہیں ان پر تشدد کرکے انسانی حقوق کی خلاف ورزی کی جارہی ہے۔خواتین اور بچوں کے خلاف سال بھر میں تشدد میں تشویشناک حد تک اضافہ ہوا ہے۔لاکھوں بچے سکول جانے سے محروم رہے اور بڑی تعداد میں بچوں کے ساتھ جنسی تشدد کے واقعات رپورٹ ہوئے۔ فرقہ وارانہ قتل و غارت جیسے واقعات شہریوں کے بنیادی حقوق کی خلاف ورزیوں میں اضافے کی عکاسی کرتے ہیں۔ صوبائی اور وفاقی حکومت مذہبی انتہاء پسندی کے واقعات کی روک تھام میں ناکام ہو چکی ہے۔پاکستان میں انسانی حقوق کی صورت حال ناگفتہ ہے اور نام نہاد جمہوری حکومت کے قیام کے باوجود ریاستی تشدد اور عام دشمنی کی متعدد مثالیں موجود ہیں۔پاکستان کا انسانی حقوق کاکمیشن ہر سال اپنی سالانہ رپورٹ میں ملک میں انسانی حقوق کی سنگین خلاف ورزیوں کی نشاندہی کرتا ہے۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ مشرقی اور عرب ممالک کی نسبت مغربی ممالک میں انسانی حقوق کا شعور بھی ہے اور اسکی صورت حال بھی بہت بہتر ہے۔ اسی لیئے برطانوی حکومت کہتی ہے کہ ”انسانی حقوق کو بڑھاوا دینا برطانوی حکومت کی فارن پالیسی اور حفاطتی ایجنڈے کا ایک اہم حصہ ہے۔ یہ ہمارا مصمم ارادہ ہے اور اہم کہ دنیا کو ایک بہتر جگہ بنانے میں ہم اپنا کردار ادا کریں۔ کچھ کا کہنا یہ کہ ہم ترقی پذیر ملکوں کی حکومتوں سے یہ توقع کر سکتے ہیں کہ وہ انسانی حقوق کو سنجیدگی سے لیں کیونکہ ہم نے انہیں غربت کے مسائل کو حل کرنے میں مدد کی ہے۔ ان کہ کہنا ہے کہ سیاسی آزادی معاشی ترقی سے بڑھتی ہے”۔ معاشی ترقی انسانی حقوق کے احترام کے بغیر ممکن نہیں۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ انسان کی انسانیت کی کوئی سرحد نہیں۔ بحیثیت انسان ہمیں ایک دوسرے کی قدر کے ساتھ جینے کا حق بھی دینا چاہئے۔ ہم سب کو اللہ نے پیدا کیا ہے اور اسی کے سامنے جواب دہ ہیں۔ ہمارے عقائد مختلف ہوسکتے ہیں لیکن مقصد ایک ہے۔ انسانی حقوق کا عالمی دن ہم سے تقاضا کرتا ہے کہ ہم بحیثیت انسان ایک دوسرے کی قدر کریں۔ صبر’ برداشت’ تحمل’ دیانت داری’ فراخدلی’ رحمدلی’ شفقت اور محبت جیسے تعلیمات کی پرچار کرنی چاہئے۔ ہم جانتے ہیں کہ آج دنیا میں لوگ مسائل کا شکار ہیں۔ ایک طرف لوگ زندگی کے اعلیٰ معیار سے لطف اندوز ہورہے ہیں دوسری طرف کثرت سے لوگ بھوک’ پیاس’ غربت’ جہالت’ کم علمی’ سیاسی شعور کی کمی’ بے روزگاری’ غلامی اور تنگ دستی کا شکار ہیں۔ طاقتور قومیں آج بھی غریب ملکوں پر مسلط ہیں۔ ان تمام مشکلات کے باوجود انسانی حقوق کا عالمی دن ہمیں امید اور یقین کی طرف راہنمائی فراہم کرتا ہے۔
آج بین الاقوامی مالیاتی’ سیاسی’ سماجی’ لسانی’ تعلیمی’ اخلاقی’ تجارتی’ قانونی اور اشتراکی ادارے ہر کام کو شروع کرنے سے پہلے انسانی حقوق کی ضرور بات کرتے ہیں۔ بحیثیت انسان آج کے دن ہمیں کیا کرنا چاہئے؟ دنیا تو عالمی امن کی بات کرتی ہے ہم اپنے قرقہ وارانہ خول سے باہر نہیں نکل سکے ہیں۔ لوگ اپنے مذہب کی تبلیغ میں عالمی معاہدے کرتے ہیں ہم ایک دوسرے کو کافر قرار دینے کی قرادادیں منظور کرتے رہتے ہیں۔ انسان تو دور کی بات ہے ہم ایک مسلمان کی امن کا ضامن نہیں بن سکے ہیں۔ حقوق اللہ کیلئے جان دیتے ہیں لیکن حقوق العباد کا بھول چکے ہیں۔ جنت کے حصول میں حقوق العباد کا بڑا دخل ہے۔ آپ کا کیا خیال ہے؟ کیا سب انسان آپس میں بھائی بھائی اور بھائی بہنیں ہیں۔